آج کا کالم دو عظیم انسانوں محترم ایس ایم ظفر اور محترم جسٹس ریٹائرڈ فضل کریم کے نام ہے- دونوں آج جسمانی طور پر ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں البتہ وہ انسانیت اور اخلاقیات کے حوالے سے ہمارے دلوں میں زندہ رہیں گے-
غالب نے کہا تھا
بس کہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا
قحط الرجال کے اس دور میں دونوں شخصیات نے اشرف المخلوقات کے مقام پر رہتے ہوئے آدمی سے انسان بن کر زندگی بسر کی- محترم ایس ایم ظفر ہمہ جہت عہد ساز شخصیت تھے- انہوں نے 1950 میں وکالت کا آغاز کیا-
ایوب خان کی کابینہ میں وفاقی وزیر قانون رہے- لاہور ہائیکورٹ بار اور سپریم کورٹ بار کے صدر منتخب ہوئے- ان کے لاءآفس سے درجنوں وکلاء تربیت حاصل کرکے اعلیٰ عدالتوں کے جج بنے- 2006 میں پاکستان مسلم لیگ( ق) میں شمولیت اختیار کی اور سینیٹر منتخب ہوئے- وہ انسانی حقوق کے علمبردار تھے اور ہیومن رائٹس سوسائٹی کے چیئرمین کی حیثیت میں انہوں نے یادگار کردار ادا کیا ان کی منہ بولی بہن بیگم مہناز رفیع نے انسانی حقوق کی جدوجہد میں بھرپور ساتھ دیا- انہوں نے ہالینڈ کی عدالت میں محسن پاکستان ڈاکٹر قدیر خان کے خلاف اہم اور حساس مقدمہ لڑا اور جیتا-
محترم ایس ایم ظفر "تزکرے اور تجزیے "کے عنوان سے کالم بھی لکھتے رہے- ان کی مقبول کتب میں میرے مشہور مقدمے عدالت میں سیاست سینٹر ایس ایم ظفر کی کہانی مکالمہ ڈکٹیٹر کون؟ ڈیمو کریسی ان اسلام اینڈ ہسٹری قابل ذکر ہیں- ایک کتاب اپنے والد گرامی سید محمد اشرف کیفی شاہ نظامی کی زندگی پر بھی مرتب کی- انہوں نے اٹھارہویں ترمیم کے سلسلے میں کلیدی کردار ادا کیا اور بعض ترامیم کے حوالے سے اختلافی نوٹ بھی لکھا- ان کا محترم مجید نظامی سے قربت کا تعلق تھا اور وہ نظریہ پاکستان ٹرسٹ اور ایوان قائد اعظم کے سلسلے میں قانونی معاونت کرتے رہے-
محترم ایس ایم ظفر کے ساتھ میرا باہمی احترام کا تعلق رہا - وہ ہمدرد یونیورسٹی کے پرو وائس چانسلر اور شوریٰ ہمدرد کے سپیکر تھے- فکری نشستوں میں ان سے ہر ماہ ملاقات ہوتی - وہ پاکستان ویڑنری فورم ٹیک سوسائٹی کی فکری نشستوں میں بھی دلچسپی لیتے جس کے صدر ڈاکٹر محمد صادق ہیں اور راقم سمیت زبیر شیخ سلمان عابد اور جمیل گشکوری فعال رکن ہیں- محترم ایس ایم ظفر انسان دوست درد مند شخصیت تھے- تحفظ ختم نبوت کی ایک تنظیم نے ڈاکٹر اجمل نیازی مرحوم کے خلاف ان کے ایک کالم کی بنیاد پر توہین رسالت کی ایف آئی آر درج کرادی-
محترم ایس ایم ظفر نے اپنے کالم نگار دوست کو فری قانونی معاونت فراہم کی- وہ کئی فلاحی اور رفاہی تنظیموں کی رہنمائی اور مالی امداد کرتے تھے- وہ پاکستان جاگو تحریک کے اعزازی مشیر تھے-گزشتہ سال محبت کا اظہار کرتے ہوئے وہ میرے غریب خانے پر تشریف لائے- وہ اپنے پسندیدہ دوستوں سے رابطہ استوار رکھتے اور انہیں ناشتے لنچ اور ڈنر پر مدعو کرتے رہتے- جو بھی ان سے ملاقات کرتا ان کا گرویدہ ہو جاتا - محترم ایس ایم ظفر کو اپنے ایک بیٹے عاصم ظفر کی ناگہانی وفات کا صدمہ برداشت کرنا پڑا - ان کا ایک بیٹا بیرسٹر علی ظفر اور بیٹی روشانے ظفر اپنے اپنے شعبوں میں کامیاب و کامران ہیں- اپنی زوجہ محترمہ کے پرخلوص اور بے مثال تعاون کے بغیر محترم ایس ایم ظفر عظیم انسان کا مقام حاصل نہیں کر سکتے تھے-انہوں نے 93 سالہ آئیڈیل زندگی گزاری - اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرے - ان کی شخصیت پر احمد ندیم قاسمی کا یہ شعر صادق آتا ہے-
کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاو¿ں گا
میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاو¿ں گا
محترم جسٹس ریٹائرڈ فضل کریم سے میری ملاقات پاکستان کے نیک نام جسٹس کے ایم اے صمدانی مرحوم کی وساطت سے ہوئی۔ وہ مجھے اپنے ہمراہ ان کی کتاب کی تقریب رونمائی میں لے گئے- پہلی ملاقات کے بعد ہی انہوں نے محبت اور شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے مجھےاپنے حلقہ احباب میں شامل کر لیا-
محترم فضل کریم 1960ءمیں سول جج تعینات ہوئے- سیلف میڈ شخصیت تھے- پر عزم پر خلوص ترقی کرتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ کے جج اور بعد ازاں سپریم کورٹ کے جج تعینات ہوئے - یوگنڈا میں پارلیمانی سیکرٹری رہے- انہوں نے ایشین ڈویلپمنٹ بنک میں بھی لیگل ایڈوائزر کی حیثیت سے خدمات سر انجام دیں- ریٹائرمنٹ کے بعد لمس یونیورسٹی میں پروفیسر کی حیثیت سے طلبہ کی رہنمائی اور تربیت کرتے رہے- انہوں نے وکلاءکے لیے اعلیٰ معیار کی کتب تصنیف کیں جن میں جوڈیشل ریویو آف پبلک ایکشنز لاءآف کرمنل پروسیجر اور ایکسیس ٹو جسٹس ان پاکستان شامل ہیں- ایک روز انہوں نے مجھے ملاقات کے لیے اپنے گھر پر بلایا اور بتایا کہ پاکستان کے کروڑوں عوام کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں اور ریٹائرڈ ججوں کی پنشن اور مراعات ان کی ضروریات سے زیادہ ہیں- یہ معلومات عوام کے نوٹس میں لانی چاہیں جن کے خزانے سے غیر معمولی مراعات دی جا رہی ہیں-
میں نے ان کی خواہش پر اس موضوع پر کالم لکھا- انہوں نے اپنے آبائی ضلع جہلم میں طلبہ کے لیے لائبریری بنوائی- وہ فلاحی اور رفاہی کاموں میں بڑی دلچسپی لیتے تھے- جب میں نے ان کو پاکستان جاگو تحریک کے مشن کے بارے میں بتایا تو وہ بہت خوش ہوئے اور مجھے تحریک کے لیے فنڈ کی پیشکش کی- میں نے اظہار تشکر کرتے ہوئے معذرت کر لی اور عرض کی کہ زندگی بھر اللہ کے بعد سرمایہ سے ڈرتا رہا ہوں- وہ اپنی بیگم کے ہمراہ میرے گھر بھی تشریف لائے جو میرے لیے اعزاز کی بات ہے- ان کی وفات کے بعد میں اپنی بیگم کے ہمراہ ان کی زوجہ محترمہ سے افسوس اور تعزیت کے اظہار کے لیے ان کے گھر حاضر ہوا- وہ ملاقات کے دوران پرنم آنکھوں کے ساتھ محترم جسٹس فضل کریم کی یادیں تازہ کرتی رہیں- انہوں نے ہمیں وہ صدارتی ایوارڈ تمغہ امتیاز بھی دکھایا جو وزارت قانون و انصاف نے ان کی حسن کارکردگی کے سلسلے میں دیا تھا - جسٹس صاحب کی علالت کے باعث ان کے فرزند ارجمند محترم جسٹس شاہد کریم نے صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی سے یہ ایوارڈ وصول کیا- گفتگو کے دوران بیگم صاحبہ نے کہا جسٹس صاحب ”کمال کے انسان تھے“- شریک حیات کے علاوہ اور کوئی معتبر گواہی نہیں ہو سکتی- لمس یونیورسٹی نے جسٹس مرحوم کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے تعزیتی ریفرنس کا انعقاد کیا- دونوں عظیم انسانوں کی نماز جنازہ میں زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے بڑی تعداد میں شرکت کی -محترم جسٹس فضل کریم کی مثالی زندگی اور شخصیت پر یہ شعر صادق آتا ہے-
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انساں نکلتے ہیں