گزشتہ دنوں پاکستان کی سپریم کورٹ کےپانچ رکنی بینچ نے ملٹری کورٹ میں چلنے والے مقدمات کو کالعدم قرار دے دیا ہے اور اس طرح اس پانچ رکنی بنچ کے فیصلے کے بعد کچھ لوگ خوشی کا اظہار کر رہے ہیں لیکن یہ ذہن میں رکھنا چاہئے یہ پاکستان کا عدالتی نظام ہی ہے جس کی وجہ سے ماضی میں کئی دہشت گرد عدالتوں میں مناسب گواہیاں نہ ہونے کی وجہ سے بچ گئے اور سول عدالتوں سے بری کئے گئے یہی دہشت گرد بعد میں دہشت گردی کی متعدد وارداتوں میں ملوث پائے گئے۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں سول لوگوں کے اور ایسے لوگ جو فوجی تنصیبات پر حملوں میں ملوث ہیں ان کے کیس ملٹری کورٹ میں چلائے جا رہے ہیں لیکن جب ہم حقائق کو مد نظر رکھتے ہیں تو ایک الگ ہی تصویر سامنے آتی ہے ہم اگر زیادہ دور نہ جائیں تو ہمارے خطے میں ہی بھارت، سری لنکا، بنگلہ دیش سمیت متعدد ممالک میں ملٹری کورٹس قائم ہیں جہاں حساس نوعیت کے کیسوں کی سماعت ہوتی ہے اور وہاں سول لوگوں کے مقدمات چلائے جاتے ہیں۔ ہمارے خطے کے علاوہ بھی امریکہ، مصر، چین، ترکی، الجزائر، بحرین، میانمار، تھائی لینڈ، جنوبی کوریا، فلپائن، ایران، شام، روس، کولمبیا، پیرو ، گوئٹے مالا، ایل سلواڈور، ہونڈوراس، ارجنٹائن، چلی، وینزویلا، پیراگوئے، یوراگوئے، برازیل، میکسیکو، کیوبا، لبنان، اردن، عراق، لیبیا، تیونس، مراکش، سعودی عرب اور ایران ان ممالک میں شامل ہیں جہاں ملٹری کورٹس میں مقدمات چلائے گئے۔ ان ممالک میں بھی ، عام شہریوں کو فوجی عدالتوں کے سامنے پیش کیا جا سکتا ہے اگر ان پر فوج سے قریبی تعلق رکھنے یا اس پر اثر انداز ہونے کے جرم کا الزام لگایا جاتا ہے۔ ان جرائم میں فوجی اہلکاروں یا املاک پر حملہ، جاسوسی، غداری اور دیگر جرائم شامل ہو سکتے ہیں جو براہ راست قومی سلامتی یا فوجی کارروائیوں کو متاثر کرتے ہیں۔ قومی سلامتی سے متعلق امور یا ایمرجنسی کے دوران، حکومتیں فوجی عدالتوں کا استعمال تیزی سے اور مو¿ثر طریقے سے مقدمات کو نمٹانے کیلئے کر سکتی ہیں جن کے بارے میں ان کے خیال میں یہ عدالتیں بہتر طریقے سے نمٹتی ہیں۔ دلیل اکثر یہ ہے کہ ایسے حالات میں فوجی عدالتیں زیادہ تیزی اور حفاظت کے ساتھ کام کر سکتی ہیں۔تو اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ فوجی عدالتیں جس سرعت کے ساتھ کام کرتی ہیں وہ عام عدالتوں یا سول عدالتوں میں اس طرح کے کیسز کی سپیڈ اور ان کے نتائج اس طرح برآمد نہیں ہوتے جیسے ملٹری کورٹس سے لئے جا سکتے ہیں۔ اگر عام عدالتوں کی بات کریں تو ہماری عدالتوں میں پہلے ہی لاکھوں کیسز زیر التوا ہیں اور اس کے علاوہ صرف سپریم کورٹ میں زیر التوا کیسوں کا جائزہ لیں تو انکی تعداد بھی اس وقت پچاس ہزار سے زائد ہے۔ یعنی ہماری عدالتوں پر پہلے ہی کام کا اتنا بوجھ ہے اور اگر یہ چند کیسز گنتی کے چند کیسز میں غلط نہیں کہہ رہا تو نو مئی کے بعد ملٹری کورٹس میں چلنے والے کیسز کی تعداد ایک سو دو بتائی جاتی ہے اور اس میں بھی اکثریت ان لوگوں کی ہے جو ملٹری سے وابستہ ہیں۔ یہ بوجھ بانٹنے والی بات ہے۔ اگر غداری اور سنگین غداری کے کیسز فوجی عدالتوں میں چلائے جائیں تو کوئی مضائقہ بھی نہیں ہے۔ ہاں اگر کسی کو اعتراض ہے تو اس پر بات ہو سکتی ہے۔ پاکستان کی طرح بہت سے ممالک نے ان شہریوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے قانونی فریم ورک اور تحفظات قائم کیے ہیں جن پر فوجی عدالتوں میں الزام لگایا جا سکتا ہے۔ ان تحفظات میں عام طور پر قانونی نمائندگی کا حق، جرم ثابت ہونے تک بے گناہی کا قیاس، اور مقدمے کی انصاف پسندی اور فیصلے کی قانونی حیثیت کا جائزہ لینے کے لیے فوجی عدالت کے فیصلوں پر اپیل کرنے کے طریقہ کار شامل ہیں۔
پاکستان کے علاوہ وہ ممالک جہاں فوجی عدالتیں کام کر رہی ہیں وہاں بھی عام شہریوں کے لیے فوجی عدالتوں کا استعمال ممالک میں وسیع پیمانے پر مختلف ہوتا ہے اور یہ اکثر قانونی فریم ورک، قومی سلامتی کے تحفظات اور مبینہ جرائم کی مخصوص نوعیت سے متعلق ہوتے ہیں۔پھر جہاں تک پاکستان میں فوجی عدالتوں میں چلنے والے مقدمات کی بات ہے تو یہاں بھی جن افراد کے مقدمے چلائے جا رہے ہیں انہیں وہ پورے قانونی حقوق حاصل ہوتے ہیں جو سول عدالتوں میں چلنے والے ملزمان کو حاصل ہوتے ہیں اور ایسے لوگ جن کے کیسز ان عدالتوں میں چلائے جا رہے ہوتے ہیں انہیں وکیل کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے اور انکے قانونی حقوق کا خیال رکھا جاتا ہے۔ یہ نہیں کہ یہ عدالتیں صرف سزائیں دینے کیلئے ہی بنائی جاتی ہیں اور اگر ان عدالتوں میں سول افراد کے مقدمات چلائے جاتے ہیں تو انہیں باقاعدہ طریقہ کار کے تحت سول حکام سے لے کر ان ملٹری کورٹس میں لایا جاتا ہے۔
ماضی میں ان سول عدالتوں سے متعدد نامی گرامی دہشت گردوں کو سزائیں دی گئیں جنہیں سول عدالتوں میں عدم شہادت کی وجہ سے چھوڑ دیا گیا تھا۔ میرے خیال میں ہماری سپریم کورٹ کو پاکستان کے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے اس فیصلے پر نظر ثانی کرنی چاہئے اور فوجی عدالتوں کو کسی انا کا مسئلہ نہیں بنانا چاہئے اس سے نا صرف دشمن جو پاکستان میں اپنی کارروائیاں کر کے پھر عدالتوں سے ریلیف بھی لے لیتے ہیں ان کی بھی بیخ کنی ہو گی بلکہ پاکستان میں جرائم کی تعداد اور خصوصا ایسے جرائم جو دہشت گردی سے جڑے ہوئے ان کو ختم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔پھر یہ ترقی یافتہ ممالک سمیت دنیا کے اکثر ممالک میں اس طرح کی عدالتیں کام کر رہی ہیں اور کسی کو اعتراض بھی نہیں ہے۔ ہم نے اپنے ملک کے حالات کو مد نظر رکھنا ہے اور پاکستان کے حالات کو دیکھا جائے تو یہاں ماضی میں متعدد دہشت گرد عدالتوں سے بری ہوئے ہیں کیوں کہ کوئی ڈر کے مارے ان کیخلاف گواہی دینے نہیں آتا اور نہ ہی ان دہشت گردوں کی دہشت کی وجہ سے کوئی جج ان کا کیس لینے کو تیار ہوتا تھا تو پھر ایسے میں ملٹری کورٹس ہی واحد حل رہ جاتا ہے، یہ ملٹری کورٹس پاکستان میں پہلی بار نہیں قائم کی گئیں،صدر ایوب خان کے دور میں یہ عدالتیں کام کرتی رہیں، بھٹو دور میں بھی ملٹری کورٹس میں کیسز چلائے گئے ، نوازشریف اور عمران خان کے ادوار میں بھی ملٹری کورٹس کام کرتی رہیں تو میرے خیال میں ان عدالتوں کا قیام ضروری ہے اور اگر اس پر کوئی جائز اعتراضات ہیں تو ان کے مل بیٹھ کر دور کرنا چاہئے نہ کہ ملٹری کورٹس کو ہی کالعدم قرار دے دیا جائے اور سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ بادی النظر میں ملک کے معروضی حالات سے مطابقت بھی نہیں رکھتا۔