پیر‘ 6 ؍ ربیع الاوّل1441ھ ‘ 4؍ نومبر2019 ء
آزادی مارچ میں افغان طالبان کے پرچم لہرانے پر 8 افراد گرفتار
آزادی مارچ جسے پی ٹی آئی والوں نے حلوہ مارچ کا نام دیا ہوا ہے کا مطلب اگر کسی مذہبی جماعت نے یہ لے لیا ہے کہ اس میں جس کالعدم تنظیم کا جی چاہے اپنے پرچم لہرائے تو اس بات کی قطعاً اجازت نہیں دی جا سکتی ۔ عالمی سطح پر کالعدم تنظیموں کی وجہ سے پہلے ہی پاکستان ابھی تک گرے لسٹ سے باہر نہیں آ سکا۔ اب اس آزادی دھرنے میں جو کوئی بھی خواہ وہ باریش ہو یا بے ریش پیدل ہو یا سوار یا سکیٹنگ کرنے والا، کسی کو بھی اسلام آباد کی سڑکوں پر افغانی طالبان ، القاعدہ یا داعش کے پرچم لہرانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ ایسے افراد کو جھنڈے دئیے کس نے اس کی بھی تحقیقات ہونا ضروری ہے۔ ازخود کوئی بھی یہ پرچم اٹھا کر نہیں نکل سکتا۔ یادش بخیر پاکستان کی تمام مذہبی اور سیاسی جماعتوں نے ان کالعدم تنظیموں سے برات کا اظہار کیا ہوا ہے تو پھر یہ رعایت کیسی۔ ان کے جلسوں میں یہ جھنڈے لے کر آنے والے کون ہیں۔ انہیں مارچ کے منتظمین نے کیوں نہیں روکا۔ اب انتظامیہ نے ان کو حراست میں لے کر اچھا کیا ہے مگر افواہ یہ بھی ہے چھوڑ دیا ہے کہ اگر چھوڑا ہے تو کس کے کہنے پر اور کیوں۔ کیا اداروں میں انتظامیہ میں ان تنظیموں کے سہولت کار موجود ہیں۔ پاکستان حکومت اور عوام کو ایسے معاملات میں آنکھیں اور کان کھلے رکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ دونوں مل جل کر ہی ایسے عناصر کا خاتمہ کر سکتے ہیں۔ ورنہ یہ عناصر ہمیں گرے لسٹ سے نکال کر بلیک لسٹ کروانے میں ذرا بھر بھی تامل نہیں کریں گے۔ یہ کام خود مارچ والوں کے لیے بھی مشکلات کا باعث بن سکتا ہے کیونکہ عام طور پر خیال یہی ہے کہ وہی ان تنظیموں کے بارے میں نرم گوشہ رکھتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
فائن آٹا ، سوجی اور میدہ کی برآمد پر پابندی
پشاور میں تندور مالکان کی روٹی 15 روپے کرنے کی دھمکی بالاخر کام آ ہی گئی۔ حکومت نے ملک میں آٹے کی قلت پر قابو پانے کے لیے فوری طور پر فائن آٹا، میدہ اور سوجی کی برآمد پر پابندی عائد کر دی ہے۔ ظاہری بات ہے جب اپنے ملک میں روٹی پکانے کے لیے آٹا نہیں ہو گا تو کون اسے باہر بھیجنے کی اجازت دے گا۔ اس وقت پورے ملک میں بجلی پٹرول اور گیس کی طرح ہر طرف آٹا آٹا ہو رہا ہے۔ پشاور کے تندور والوں نے گزشتہ روز 15 روپے کی روٹی کی قیمت ورنہ ہڑتال کی بات کر کے مدہوش انتظامیہ کو جگا دیا۔ اب یہ بات نجانے کیوں ہمارے حکومتی اداروں کو سمجھ نہیں آتی کہ پاکستان سے روزانہ لاکھوں من اجناس جس میں آٹا دال چاول گھی چینی شامل ہے سمگل ہو کر افغانستان، ایران جاتا ہے۔ اگر صرف اس پر روک لگا دی جائے یہ چور راستے بند کئے جائیں تو ہمیں بیرون ملک آٹے کی برآمد پر پابندی کی ضرورت ہی نہیں ہو گی۔ ہر چیز ملک میں بھی ارزاں نرخوں پر دستیاب ہو گی مگر یہ ناجائز منافع خور سمگلر مافیا اتنا مضبوط ہے کہ کوئی اس پر ہاتھ نہیں ڈالتا۔ سب اپنا اپنا حصہ وصول کر کے آرام محسوس کرتے ہیں۔ ایک زرعی ملک میں کھانے کا کال یوں تو نہیں پڑتا۔ کیا کچھ نہیں ہمارے ملک میں پیدا ہوتا۔ بس اوپر والوں کے حریص لوگوں کے پیٹ نہیں بھرتے۔ وہ عوام کو بھوکا مار کر اپنی تجوریاں بھرتے رہتے ہیں۔ جب تک ان بڑی توند بڑی گاڑیوں اور بڑے بنگلوں والوں کا علاج نہیں ہوتا غریب غربا سستی روٹی کے لیے ترستے رہیں گے۔
٭٭٭٭٭
کرتارپور کیلئے ویزے کی پابندی کے خاتمے پر سکھوں کا اظہار مسرت
حکومت پاکستان کی طرف سے سکھ یاتریوں کے لیے جن رعایتوں کا اعلان ہو رہا ہے۔ اس پر سکھ خوشیاں منا رہے ہیں، وہ ان کا حق ہے۔ مگر اب یہ جو کرتار پور یاترا کے لیے ویزے کی پابندی ختم کرنے کا اعلان ہوا ہے یہ تو خاصہ حیران کن ہے۔ ہمارے بھارت کے ساتھ جس قسم کے ’’برادرانہ تعلقات‘‘ ہیں ان کے ہوتے ہوئے اس قسم کے فیصلے کو تعجب خیز ہی کہہ سکتے ہیں، کیونکہ
ہم کو ان سے وفا کی ہے امید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے
صرف سکھ ہونے کے ناطے اتنی رعایتیں مناسب نہیں۔ آزاد خیالی اپنی جگہ وطن کا تحفظ اپنی جگہ جس طرح پولیس کے لیے کہا جاتا ہے۔ ’’نہ ان کی دوستی اچھی نہ انکی دشمنی اچھی‘‘ یہی بات بھارتی سکھوں کے لیے بھی صادق آتی ہے۔ احتیاط لازم ہے۔ ورنہ نجانے کون کون کس کس کے بھیس میں پاکستان آ کر نجانے کون کون سے سوئے فتنے بیدار کرتا پھرے۔ کڑی اور سخت نگرانی ضروری ہے تاکہ بھارتی جاسوس اور تخریب کار یاتریوں کی شکل میں آ کر ہمارے لیے مشکلات نہ پیدا کر سکیں۔
٭٭٭٭٭
فاطمہ بھٹو کی 6 سال بعد گڑھی خدا بخش آمد
فاطمہ بھٹو کے گڑھی خدا بخش آنے سے سندھ کے سیاسی ماحول میں جو ارتعاش پیدا ہوا ہے اس سے پیپلز پارٹی والے نجانے کیوں چونک اٹھے ہیں۔ ایک رہنما نے تو یہ کہہ کر دل کو تسلی دی یا دل کی بھڑاس نکالی ہے کہ فاطمہ بھٹو مرحوم بھٹو کے مال و جائیداد کی وارث ہیں جبکہ بلاول زرداری سابق وزیر اعظم بھٹو کے سیاسی وارث ہیں۔ یہ نئی بات اب شاید پیپلز پارٹی والے سندھی عوام کو سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کیونکہ فاطمہ بھٹو کے بارے میں اطلاع ہے کہ وہ سیاسی میدان میں آنے کی تیاری کر رہی ہیں۔ یقین تو نہیں آتا کیونکہ وہ پہلے بھی کئی مرتبہ اس جھنجٹ سے دور رہنے کا کہہ چکی ہیں۔ مگر وقت کا کچھ پتہ نہیں وہ کب کس سے کیا فیصلہ کرائے۔ اگر وہ ایسا کرتی ہیں تو اب موسم بھی سازگار ہے۔ لوگ ایک بار پھر جئے بھٹو کے نعرے لگانے کے لیے بھٹو کے کسی وارث کے منتظر ہیں جو بھٹو کی پیپلز پارٹی کو زندہ کرے۔ فاطمہ کے پاس بھٹو کا نام بھی ہے خاندان بھی وراثت بھی اور گڑھی خدا بخش کا قبرستان بھی جہاں اس کے دادا ، باپ اور چچا یعنی بھٹو خاندان کے وارث دفن ہیں۔ اگر بلاول کے ساتھ آصفہ اور بختاور ہیں تو یہ زرداری خاندان کے وارث ہیں۔ فاطمہ کے ساتھ ذوالفقا جونیئر اور سسی شاہنواز ہیں جو بھٹو خاندان کے وارث ہیں۔ اس طرح لگتا ہے اب بھٹو خاندان کو فاطمہ بھٹو کی شکل میں نیا رہنما ملنے سے بہت سے سندھی ایک بار پھر نئے مستقبل کی امید لئے باہر نکل سکتے ہیں۔ غنویٰ بھٹو کو چاہئے کہ وہ اب مصلحت چھوڑ کر فاطمہ اور ذوالفقارجونیئر بھٹو اور سسی کے ہاتھ میں پارٹی کی قیادت سونپ دیں۔ کیا معلوم کچھ اور پس پردہ قوتیں بھی یہی چاہتی ہوں۔