اختیارات پر بحث اہم معاملہ‘ ادارے سمت درست کر لیں‘ پارلیمنٹ راستہ دکھائے: چیئرمین سینٹ
اسلام آباد (نامہ نگار) چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی نے کہا ہے کہ ملک کے موجودہ حالات میں اداروں کو اپنی سمت درست کرنے کی ضرورت ہے‘ تمام ادارے آئین کے تحت اپنا کردار ادا کریں، پارلیمنٹ کو ان حالات میں راستہ دکھانا ہو گا۔ جمعہ کو سینٹ میں ریاستی اداروں اور اختیارات کی تقسیم پر بحث کا معاملہ اہم ہے۔ اداروں کے کردار پر بحث کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے چیئرمین سینٹ نے بتایا کہ موجودہ حالات میں بہت اہم ہے کہ ادارے اپنی سمت درست کریں اور آئین کے تحت رہتے ہوئے اپنا کردار ادا کریں۔ پیر کو بھی اس معاملے پر بحث ہوگی جس کے اختتام پر پھر کوئی نہ کوئی نتیجہ اخذ کریں گے۔ سینیٹر نثار محمد نے کہا کہ پارلیمنٹ بھی اپنا کرادار ادا نہیں کر رہی، ہماری طاقت عوام ہیں لیکن ہم عوام کے لیے کچھ نہیں کرتے ہیں۔ ہر ادارے کو اپنی آئینی حدود اور دائرہ کار میں رہ کر کام کرنا چاہئے‘ پارلیمان کبھی بالادست نہیں رہی بلکہ ایگزیکٹو کی بالادستی رہی ہے۔ سینیٹر اعظم موسیٰ خیل نے کہا کہ اداروں کے درمیان کھینچا تانی کے بہت خطرناک اور بھیانک نتائج نکلیں گے، عوام آمریت سے تنگ آچکے ہیں۔ انہوں نے کہا نیب کو اپنی حدود میں رہنا ہو گا، مظفر حسین شاہ نے کہا کہ 18ویں ترمیم کے وقت آرٹیکل 62/63 کو ختم نہیں کیا گیا۔ یہ آج بھی آئین کا حصہ ہے۔ اگر پارلیمان اپنا کردار ادا نہیں کرے گا تو کسی اور کا کیا قصور ہے۔ ایم کیو ایم کی نگہت مرزا نے کہا کہ نظام کی تباہی کا بیڑا ہم لوگوں کے سر ہے، عدلیہ کو اپنے کردار پر بھی غور کرنا چاہئے۔ اجلاس کے دوران سینیٹر کریم احمد خواجہ نے امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ برائے خارجہ امور کے بیان کے حوالے سے تحریک التوا منظوری کے تعین کے لئے پیش کی۔ چیئرمین کی ہدایت پر انہوں نے یہ تحریک التوا واپس لے لی۔ ایوان بالا نے دی میرین انشورنس بل 2017ء بل کی منظوری دے دی۔ ایوان بالا کو بتایا گیا ہے کہ غیرملکی یونیورسٹیوں میں گزشتہ کئی برسوں سے متعدد پاکستانی چیئرز خالی پڑی ہیںجس پر چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی نے یہ معاملہ سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کے حوالے کرتے ہوئے دو ہفتوں میں جواب طلب کرلیا۔ ایوان بالا میں بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی صاحبزادی کے لئے دعا کرائی گئی۔ وقفہ سوالات کے دوران سینیٹر سراج الحق کے سوال کے جواب میں وزیر انچارج برائے ہوا بازی ڈویژن شیخ آفتاب احمد نے کہا کہ پی آئی اے وقتاً فوقتاً اپنے روٹوں پر نیٹ ورک کا جائزہ لینے کیلئے قومی ضروریات کو پیش نظر رکھتی ہے اور خسارے میں چلنے والے روٹ بند جبکہ منافع والے کھولے جاتے ہیں۔ شیخ آفتاب احمد نے کہا کہ نیو اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ کی تعمیر پر 15 اکتوبر 2017ء تک 75.887 بلین روپے خرچ کئے گئے۔ سینیٹر طلحہ محمود کے سوال کے جواب میں وزیر تجارت پرویز ملک نے بتایا کہ وزارت تجارت نے مارچ 2016ء میں سٹرٹیجک ٹریڈ پالیسی فریم ورک کا اعلان کیا تھا جس کا بنیادی مقصد برآمدات کا فروغ اور فروخت کنندگان کو سہولیات سمیت برآمدات کو ترقی دینا اور برآمدات درآمدات پالیسی کے ضمن میں اہم اقدامات اٹھانا تھا۔ سینیٹر طلحہ محمود کے سوال کے جواب میں وزیر تجارت پرویز ملک نے بتایا کہ مالی سال 2016-17ء کے دوران پاکستان کی برآمدات کی مالیت 20.448 ارب امریکی ڈالر تھیں جبکہ درآمدات کی مالیت 53.026 ارب امریکی ڈالر ہیں۔ قبل ازیں کرنل (ر) سید طاہر حسین مشہدی نے توجہ مبذول نوٹس پر کہا کہ ایک سروے کے مطابق پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں ایچ آئی وی‘ ایڈز کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ارکان سینٹ نے کہا ہے کہ اعلیٰ تعلیم کے باوجود میرٹ کی دھجیاں اڑانے، اہل طلبہ کو نظراندازکرنے، دولت مند اور سفارشی لوگوں کو نوکریاں دینے کی روش نے غریب نوجوان کو مایوس اورانتہائی پسندی کی طرف مائل کیا ہے، مذہبی انتہا پسندی بعض لوگوں کی زبان میں تو ہوسکتی ہے حقیقت میں اس کا کوئی تعلق نہیں ہے، پا کستان کو ایک جنگجو ریاست بنانے کے لیے کی گئی نصاب سازی کا نتیجہ ہم بھگت رہے ہیں،کوئی مدرسہ دہشت گردی کی تربیت نہیں دیتا اگر کہیں تربیتی مراکز ہیں بھی تو یہ مدارس نے نہیں بنائے جن لوگوں نے یہ بنائے تھے ان سے پوچھا جانا چاہئے۔ عثمان کاکڑ نے کہاکہ ملک میں نصاب تعلیم کو جدید تقاضوں کے مطابق سائنسی بنیادوں پر ترتیب دینے کی ضرورت ہے، اگر بنیاد ٹھیک نہیں ہوگی تو ضرب عضب، ردالفساد وغیرہ سے مسائل حل نہیں ہونگے، بدقسمتی سے بعض دینی مدارس میں انتہاء پسندی کو بطور مضمون پڑھایا جاتاہے ،مذہبی تعلیم، فرقہ واریت اور انتہاپسندی کی بنیاد پر نہیں ہونی چاہئے، ایسے مدارس کو قانون کے دائرے میں لایا جائے۔ بحث میں حصہ لیتے ہوئے سسی پلیجو نے کہاکہ تعلیمی اداروں میںذہن سازی کی ضرورت ہے۔ خوش بخت شجاعت نے کہاکہ ملک میں تعلیمی ایمرجنسی لگانے کی ضرورت ہے۔ مولانا عطاء الرحمن نے کہاکہ علم انسان کو حیوانیت سے انسانیت کی طرف لاتا ہے، کوئی مدرسہ دہشت گردی کی تربیت نہیں دیتا اگر کہیں تربیتی مراکز ہیں بھی تو یہ مدارس نے نہیں بنائے۔ انہوں نے کہاکہ کوئی بھی مدرسہ انسانیت کے خلاف بات نہیں کرتا، مشعال قتل ہو یا گورنر پنجاب کا قتل، ملک میں جتنے بھی واقعات ہوئے ہیں پڑھے لکھے لوگ ہی ملوث پائے گئے ہیں۔ سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہاکہ ہمارے ہاں ذہن سازی کے عمل کی کمی ہے ۔آپریشن ردلفساد کے دوران دہشت گردی میںملوث لوگوں کی بجائے حکومتی بیانیہ کی مخالفت کرنے والوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے۔ بعدازاں سینٹ کا اجلاس پیر کی سہ پہر ساڑھے تین بجے ملتوی کر دیا گیا۔ ارکان نے کہا ہے کہ ملک کے بعض مدارس میں انتہا پسندی کی تربیت دی جاتی ہے جبکہ کالجز اور یونیورسٹیوں کے طلباء بھی انتہا پسندی میں ملوث ہیں، تعلیمی اداروں میں نوجوانوں کو منشیات کی طرف راغب کیا جاتا ہے۔ تعلیمی نصاب کا جائزہ لینے کے لئے پورے ایوان پر مشتمل کمیٹی بنائی جائے۔