بلندو بانگ دعوئوں پر نہیں کام پر یقین ہے
انٹرویو .... چودھری اشرف
ہاکی پاکستان کا قومی کھیل ہے جس نے سب سے زیادہ چار مرتبہ عالمی کپ جیتنے کا اعزاز حاصل کر رکھا ہے جبکہ تین اولمپکس کے علاوہ ایشین گیمز، ایشیاء کپ، چیمپئنز ٹرافی اور ایشین چیمپئنز ٹرافی جیسے متعدد ٹائٹل قومی ٹیم کا مقدر بن چکے ہیں، بدقسمتی سے ماضی کی گلوری آج ہمارے قومی کھیل میں نہیں ہے جس کی کئی ایک وجوہات ہیں سب سے بڑی وجہ سہولیات کا فقدان ہے جس کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے قومی کھیل کی طرف وہ توجہ نہیں دی اس کے ساتھ ساتھ قومی کھیل کی انتظامیہ میں ایسا کوئی بندہ نہ آ سکا جو ایک سسٹم بنا کر دے جاتا جس سے ہاکی زوال کا شکار نہ ہوتی۔ پاکستان ہاکی کے مستقبل کے حوالے سے سیکرٹری پی ایچ ایف اولمپئن شہباز احمد سینئر کے ساتھ خصوصی نشست ہوئی جس میں انہوں نے کھل کر اظہار خیال کیا۔ دنیائے ہاکی کے سٹار کھلاڑی کا کہنا تھا کہ آج کی ہاکی دیکھ کر دکھ ہوتا ہے لڑکوں کو کھیلنا ہی نہیں آتا ہماری مجبوری ہے کہ جو بھی لڑکا چار اچھی شارٹس لگا لیتا ہے، ہم اسے ہاکی سٹار سمجھنا شروع ہو جاتے ہیں جبکہ اس کھلاڑی کو اچھی طریقے سے دوڑنا بھی نہیں آتا ہے۔ آج ہمیں سمیع اللہ، کلیم اللہ حسن سردار ، منظور جونیئر، قمر ابراہیم اس لئے نہیں مل رہے کہ آج کے نوجوان کھلاڑیوں کی ترجیحات تبدیل ہو گئی ہیں اس کے ساتھ ساتھ والدین اپنے بچوں کو ہاکی کی بجائے کرکٹ کھیلانا چاہتے ہیں جس کی وجہ ہے کہ ہاکی میں پیسہ اور وہ شہرت نہیں ہے جو کرکٹ کا ایک میچ کھیل کر مل جاتی ہے۔ سابق کپتان شہباز احمد سینئر نے کہا کہ پاکستان ہاکی کی تباہی کی ذمہ دار ٹیم مینجمنٹیں بھی ہیں، جنہوں نے نوجوان کھلاڑیوں کی خامیوں کو دور ہی نہیں کیا۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ 8سے 10سال سے جس طرح کی ہاکی کوچنگ ہو رہی ہے اس سے بھی قومی کھیل زوال کا شکار ہوا، کوچز سیو ہاکی کھیلاتے آئے ہیں پاکستان کو جارحانہ ہاکی کی ضرورت ہے۔ شہباز احمد سینئر کا کہنا تھا کہ پاکستان ہاکی کو درست کرنے کیلئے ایک اچھے سسٹم کے ساتھ ساتھ بھاری فنڈز کی ضرورت ہے۔ تین سے چار اکیڈمیاں بنائی جائیں جہاں کھلاڑیوں کو کھیل کے ساتھ ساتھ اچھی تعلیم اور اچھی خوراک دی جائے جبکہ اس کے ساتھ ساتھ کھلاڑیوں کو فزیکل فٹنس کی سہولیات اور اچھی کوچنگ مہیا کی جائے۔ حکومت سپورٹ کرئے تو اکیڈمی کے کھلاڑیوں کو ان کی کیٹگری کی بنیاد پر سنٹرل کنٹریکٹ بھی دیا جا سکتا ہے لیکن یہ تمام کام فنڈز کی دستیابی پر ہی ممکن ہو سکے گا۔ شہباز احمد سینئر کا کہنا تھا کہ آج کی جدید ہاکی میں کھلاڑی کا پڑھا لکھا ہونا ضروری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے کھلاڑی جو خوراک کھا رہے ہیں ان سے ایسے نتائج کی ہی توقع کی جا سکتی ہے۔ بہتر نتائج کے لیے کھلاڑیوں کو بین الاقوامی میعار کی خوراک دینا ہوگی۔ اگر کچھ نہیں ہو سکتا تو کم از کم ایک نیشنل لیول کی اکیڈمی اسلام آباد میں بنائی جائے جہاں کھلاڑیوں کو سال بھر رکھا جائے ان کی تعلیم کے ساتھ ساتھ اچھی خوراک دی جائے تو ممکن ہے کہ چار پانچ سال بعد قومی ٹیم اپنے پائوں پر کھڑا ہونا شروع ہو جائے، اس تمام کام کیلئے 30 سے 35کروڑ روپے سالانہ درکار ہیں ورنہ میری جگہ جو بھی سیکرٹری آئے گا وہ اپنا وقت ہی پورا کرے گا۔ ایک سوال پر شہباز احمد سینئر سیکرٹری پی ایچ ایف کا کہنا تھا میں اپنے طور پر جہاں بھی سمجھتا ہوں اس کی آواز بلند کرتا ہو۔ پچھلے دنوں سینٹ کی قائمہ کمیٹی میں گیا جہاں میں نے ان لوگوں پر واضح کردیا کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور کیا کرنا چاہئے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ہاکی فیڈریشن کو بورڈ میں تبدیل کرنے کی تجویز کا مقصد یہی تھا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کی طرح پاکستان ہاکی بورڈ بھی ایک خود مختار ادارہ بن سکے۔ جہاں فیڈریشن میں کام کرنے والے افراد آزادانہ فیصلے کرنے کے قابل ہوں اور بورڈ کو پرائیویٹ سپانسر شپ بھی مل سکے۔ ایسا ہوگا یا نہیں یہ کہنا قبل از وقت ہے۔ شہباز سینئر کا کہنا تھا کہ کرکٹ کی طرح ہاکی ورلڈ الیون بھی پاکستان کا دورہ کر رہی ہے، بین الاقوامی کھلاڑیوں پر مشتمل ورلڈ الیون جنوری میں پاکستان کا دورہ کرئے گی۔ جس کے میچز لاہور اور کراچی میں کھیلے جائیں گے۔ کرکٹ ورلڈ الیون کی آمد پر حکومت اور پی سی بی کے بھاری اخراجات ہوئے تھے‘ لیکن ہاکی ورلڈ الیون کا تمام خرچہ سپانسر کمپنی برداشت کرئے گی جس پر تقریباً اڑھائی سے تین کروڑ روپے خرچ آئے گا۔ سیکرٹری پی ایچ ایف کا کہنا تھا کہ ہم پاکستان ہاکی لیگ بھی کرانا چاہتے ہیں‘ جس کیلئے حکومت سے این او سی مانگ رکھا ہے۔ متعدد بار حکومت پنجاب کو خط بھی لکھے‘ لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔ پاکستان ہاکی لیگ قومی کھیل کی ترقی کیلئے ضروری ہے۔ پاکستان میں لیگ ہاکی کھیلنے کیلئے بین الاقوامی کھلاڑی آنے کو تیار ہیں اور وہ 30 سے 35 کھلاڑی ایف آئی ایچ (انٹرنیشنل ہاکی فیڈریشن) سے بار بار اس کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ کرکٹ کی طرح ہاکی میں بھی مختلف کیٹگریز میں کھلاڑیوں کے ساتھ معاہدے کریں گے۔ ڈائمنڈ کیٹگری میں شامل کھلاڑی کو 25 ہزا ر ڈالر‘ گولڈ کیٹگری والے کو 20 ہزار‘ سلور میں 15 جبکہ چوتھی کیٹگری والے کھلاڑی کو 10 ہزار ڈالر ملیں گے۔ جب ہمارے کھلاڑیوں کی اتنی بھاری رقم اپنی لیگ کھیلنے کیلئے ملے گی تو مزید نوجوانوں کا اس کھیل کی طرح رجحان بڑھے گا۔ سکول‘ کالج‘ یونیورسٹی میں ہاکی کے بارے میں سیکرٹری پی ایچ ایف کا کہنا تھا کہ تعلیم کے میدان میں جو مقابلہ شروع ہو گیا ہے‘ کوئی اپنے بچوں کو تعلیم سے ہٹا کر کبھی ہاکی نہیں کھلائے گا۔ دس سال بھی ہمیں یہی بات سننے کو ملے گی کہ سکول‘ کالج اور یونیورسٹی میں ہاکی شروع ہوگی تو قومی کھیل ترقی کرے گا، ایسا نہیں ہوگا۔ اس کیلئے آپ کو پروفیشنل اپروچ کے ساتھ میدان میں اترنا ہوگا۔ پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ تین سے چار اکیڈمیز بنائی جائیں جہاں نوجوان کھلاڑیوں کو بین الاقوامی معیار کی کوچنگ فراہم کی جائے اور وہیں سے پاکستان کی جونیئر اور سینئر ٹیمیں بنائی جائے تو عین ممکن ہے کہ چند سالوں بعد رزلٹ آنا شروع ہو جائیں۔ شہباز احمد سینئر کا کہنا تھا کہ میں نے اپنے دور میں بہت سے کھلاڑیوں کو گروم کیا جن کی ہاکی کے بارے میں آج بھی لوگ کہتے ہیں کہ اگر آپ نہ ہوتے تو شاید وہ کھلاڑی کبھی اس لیول کی ہاکی نہ کھیل پاتے، کسی کا نام نہیں لینا چاہتا۔ ہمارے کوچز کا معیار بہت گر چکا ہے۔ اس میں کوالیفائیڈ کوچ ہوں یا نیشنل لیول کے کوچز ہوں۔ اگلے چند سالوں میں ڈیپارٹمنٹوں میں ہاکی کو ختم ہوتا ہوا دیکھ رہا ہوں کیونکہ محکموں نے کھلاڑیوں خاص طور پر ہاکی پلیئرز کو جاب دینا بند کر دی ہیں۔ کلب ہاکی سیاست کا گڑھ بن کر رہ گئی ہے۔ جلد قانون لا رہے ہیں کہ کلب ہاکی میں بھی 30 سال سے زائد کا کوئی کھلاڑی رجسٹرڈ نہیں ہوگا۔ ایسا کرنے سے ہو سکتا ہے کہ کلبوں کی تعداد کم ہو جائے۔ مثال کے طور پر اگر گوجرہ میں 20 ہاکی کلب موجود ہیں۔ کلب کے کھلاڑی کی عمر تیس سال کرنے سے عین ممکن ہے کلبوں کی تعداد کم ہو کر پانچ چھ رہ جائے مگر ایسے فیصلے کرنا ہونگے۔ ایک سوال کے جواب میں سیکرٹری پی ایچ ایف کا کہنا تھا کہ غیرملکی کوچ کی خدمات حاصل کرنا ضروری بھی ہیں کیونکہ ہمارے ہاں کھلاڑی کھیل کی بیسک ہی نہیں جانتے۔ ایک غیرملکی کوچ کم از کم 15 سے 20 ہزار ڈالر ماہانہ پر آتا ہے، فیڈریشن کے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں۔ پاکستان سپورٹس بورڈ کو بھی متعدد بار کہا ہے‘ لیکن وہ بھی فنڈز کے ہاتھوں مجبور ہیں۔ ہم نے انڈر18 ٹیم کو آسٹریلیا بھجوایا جس سے ہمیں تین سے چار اچھے کھلاڑی نظر آئے جو پاکستان کا مستقبل بن سکتے ہیں۔ ایسے کھلاڑیوں کو اگر بین الاقوامی معیار کی تربیت دیں گے تو ممکن ہو سکے گا ورنہ ایک دو سال بعد وہ لوگ بھی وہیں کھڑے ہونگے جہاں آج کھڑے ہیں۔ سکائوٹ اور انٹرن شپ پروگراموں کیلئے اربوں روپے کا بجٹ ہے‘ لیکن قومی کھیل کو چند کروڑ دیکر توقع کی جاتی ہے کہ وہ آسمان سے تارے توڑ لائیں۔ ہم پاکستان ٹیم کے گول کیپنگ کے شعبہ کیلئے غیرملکی گول کیپر کوچ کی خدمات حاصل کرنا چاہتے ہیں، ہماری ٹیم کا یہ شعبہ سب سے زیادہ کمزور ہے۔ ہمیں ایک سسٹم کی ضرورت ہے۔ اگر وہ بن گیا تو اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ہم مستقبل میں دنیائے ہاکی کا مقابلہ کر سکیں گے۔ ہالینڈ کی مثال دیتے ہوئے سیکرٹری پی اچ ایف کا کہنا تھا کہ ہالینڈ میں ہر گھر کا ایک بندہ لازمی ہاکی کھیلتا ہے۔ جہاں ایسا ہو وہاں سے ٹیم کو چار پانچ اچھے کھلاڑی مل ہی جاتے ہیں۔ اوپن ٹرائل کی بات کرتے ہیں‘ اگر کرکٹ کے ٹرائل ہوں تو اس میں لاکھوں لوگ ٹرائل دینے جاتے ہیں جن میں پھر بھی کوئی نہ کوئی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ ہاکی کے ٹرائل لئے جائیں اس میں اگر 6 سو کھلاڑی بھی آجائیں تو کسی ایک کو بھی ہاکی نہیں آتی جنہیں مجبوری کے طور پر رکھ کر نئے سرے سے ہاکی سکھانا پڑتی ہے۔ شہباز سینئر کا کہنا تھا کہ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ پاکستان ہاکی کے لیے کچھ نہیں ہو رہا تو وہ غلطی پر ہیں، اپنے طور پر ہاکی کی بہتری کے لیے ہر فورم پر بات کرتا رہتا ہوں۔ ہم نے اپنے کھلاڑیوں کو زیادہ سے زیادہ ہاکی میں مصروف رکھنے کے لیے فائیو اے سائیڈ، سیون اے سائیڈ اور نائن اے سائیڈ ہاکی ٹورنامنٹ کرائے ہیں جس میں شریک کھلاڑیوں کو اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا پورا موقع ملتا ہے۔ ہم نے کوشش کر کے مختلف ڈیپارٹمنٹس میں کھلاڑیوں کی نوکریوں کے ساتھ ساتھ نئے ٹیمیں بھی بنائی ہیں۔ مستقبل میں بھی کھلاڑیوں کی نوکریوں کے لیے کام کرتے رہیں گے۔ پاکستان ہاکی فیڈریشن کے صدر بریگیڈئر (ر) خالد سجاد کھوکھر بھی پوری کوشش کے ساتھ اس کھیل کی ترقی کے لیے کام کر رہے ہیں، ہر فیصلے میں ان کی مشاورت ہوتی ہے۔