رواں برس اپریل کے دوسرے عشرے میں حیدرآباد سے تعلق رکھنے والی میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز کی جواں سال خاتون طالب ِعلم نورین لغاری کو انٹرنیت کی مختلف ایپلی کیشنز سے پہلے تو لاہور کے چند اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں نے مل کر اْسے اپنی محبتوں کے چال میں پھنسایا، اْسے اپنے گھر سے باغی کیا، اْسے اس قدر اکسایا گیا کہ وہ اکیلی ہی ِ تنہا حیدرآباد سے لاہور جاپہنچی لڑکی کو علم ہی نہیں تھا جس متشدد گروہ نے سوشل میڈیا کے ذریعے سے اپنا یرغمال بنایا اْس کی سخت نگرانی کی جارہی ہے، بلاآخرلاہور پہنچنے کے بعد جب یہ پورا گروہ قانون نافذ کرنیوالوں کے بچھائے گئے شکنجے میں آگیا تو نورین لغاری کے ہوش ٹھکانے آئے' نورین لغاری نے بتایا کہ اْسے (جنت ) کی خوشخبری دی گئی تھی؟ اْسکے تمام مرحومین کو جنت کی خوشخبری دی گئی تھی؟ تو اْس نے ’جنت‘ ملنے کے سامنے ہتھیار ڈال دئیے یوں وہ شام میں نبرد آزما متشدد تنظیم داعش میں اپنے حصہ کی جنگ لڑنے پر راضی ہوگئی تھی؟ ملک بھرمیں بہت تیزی کے ساتھ اپنی جڑیں گہری کرنیوالے خوف و دہشت پرمبنی سائبر کرائم کے اِس دلدوز واقعہ کے بعد بھی ہمارے جمہوری اداروں کی آنکھوں پربندھی ہوئی پٹی کھول نہ سکی؟ کیونکہ قانون کی موجودگی میں نیشنل ایکشن پلان کے ہوتے کوئی دوسرا قابون کیسے نافذ ہوسکتا ہے؟قانون توموجود ہے مگرعملدرآمد نہیں ہورہا،تبھی توجامعہ کراچی والا نیاواقعہ حال ہی میں رونما ہوا ’’سوشل میڈیا کے مختلف پہلوؤں‘‘ کے نام سے لکھی جانیوالی ملک کی غالباً پہلی اہم کتاب کی مصنفہ ثناء غوری نے اپنی کتاب کے ایک باب میں جس کاعنوان اْنہوں نے ’پاکستان میں سائبر کرائم بڑھنے لگے‘ رکھا ہے دوسری شہ سرخی میں اْنہوں نے دوجملوں میں صاحبان ِ اقتدارپراْنکی حساس اورنازک ذمہ داریوں پربڑا گہرا طنزکردیا اْنہیں اپنے طورپر بیدار کرنیکی مصنفہ نے بڑی اہم کوشش کی ہے، وہ لکھتی ہیں کہ ’’تھری جی ٹیکنالوجی آنے کے بعد‘‘بلیک میلنگ کی وارداتوں میں ہونے والے اضافہ نے مجرمانہ ذہنیت کے حامل افراد کا کام کافی حد تک بڑا آسان کردیا ہے،مگر لگتا ہے چاہے وہ ادارہ ایف آئی اے ہو یا سائبرکرائم کا کوئی اورقومی ادارہ وہ دل جمعی اورخلوص ِنیت سے اْس وقت تک اپنے حساس فرائض اداکرنے میں یونہی ناکام رہیں گے اور پورا ملک سائبر کرائمز وائٹ کالر جرائم پیشہ مسلح گروہوں کے ہاتھ یرغمال بناتا چلا جائے جب تک سائبرکرائم کی یہ سلگتی ہوئی سنگینی اْنکے اپنے دامنوں کواپنی لپیٹ میں نہیں لے لیتی دیکھتے ہیں کب اُنکے اپنے گھروں سے بھی کب کوئی اور ’نورین لغاری‘ سائبرکرائم کے دہشت گردوں کی شکار بنتی ہے ؟ کاش ایسا نہ ہو اَس سے قبل جمہوری حکمران سوشل میڈیا کی بڑھتی ہوئی انارکی کی خبر گیری کی طرف اپنی توجہ مبذول کرلیں پہلے یہ خبر تازہ کرلیجئے تاکہ آپ کا ذہن اور فریش ہوجائے'ملکی سیکورٹی اداروں نے جامعہ کراچی میں'سیکورٹی اطلاعات' کے تبادلے کی روشنی میں کامیاب چھاپہ مارا جس کے نتیجے میں ایک رکن ِصوبائی اسمبلی پر قاتلانہ حملے کے ملزم جامعہ کراچی کے طالب ِعلم عبدالکریم سروش صدیقی کواْسکے تین ساتھیوں سمیت گرفتارکرلیایہ تینوں نوجوان کراچی یونیورسٹی کے شعبہ ِفزکس سے تعلق رکھتے ہیں اِنہوں نے خود ہی 'انصار الشریعہ' نامی ایم تنظیم بنائی ہوئی تھی جوانٹرنیٹ کے دیگر اپیلی کیشنزٹوئیٹراورفیس بک کے ذریعے اب تک نو سے دس لڑکوں کواپنے ساتھ شامل کرچکے تھے بظاہر تفتیش سے اب تک کی معلوم اطلاعات بتاتی ہیں لہ سروش صدیقی اِس دہشت گردی تنظیم 'انصار العشریعہ' کا خودکوسربراہ بتاتا ہے'جسکے کمرے سے برآمد ہونے والے لیب ٹاپ سے ملنے والے ڈیٹا کی مدد سے اب تک جو اہم سنسنی خیز معلومات ملکی سیکورٹی اداروں کو مل ہیں اِنہوں نے افغانستان میں موجودبچھے کچھے القاعدہ اور کالعدم ٹی ٹی پی سے اپنے رابطے قائم کیئے ہوئے تھے، جامعہ کراچی سے گرفتار عناصرنے افغانستان میں موجوددہشت گردوں کو اپنے طور پر یقین دلادیا تھا کہ وہ کراچی کے ایک بڑے حصہ پر اپنی مجرمانہ سرگرمیوں کے خوف اور دہشت کو پھیلا کر کراچی کے امن وامان کی بہتر ہوتی ہوئی صورتحال کو یکدم سیکورٹی اداروں کیلئے ایک بار پر چیلنج بنانے کی 'طاقت' حاصل کرنیوالے ہیں لیکن اْن کے یہ بہیمانہ خواب شرمندہ ِتعبیر ہونے سے پہلے ہی اْس وقت چکنا چور ہوگئے جب کراچی رینجر کی ثابت قدم ٹیم نے عین موقع پر اْنہیں اپنے گھیرے میں لے کر ہتھیار ڈالنے پر مجبور کردیا اور یوں نام نہاد 'انصار ا لشرعیہ' ڈھیر ہوگئی اور اِس دہشت گرد تنظیم کا باب فی الفور معلوم اطلاعات کے مطابق بند سمجھئے گا کراچی رینجر ٹیم نے جس تیزی اور سرعت کے ساتھ کوئی لمحہ ضائع کیئے بغیر کراچی کے امن کو تہہ وبالا کرنیوالوں کی بیخ کنی کی‘ جس طرح کا فوری ایکشن لیا گیا اور اِن کا خاتمہ کیاگیا ، قوم اپنے سیکورٹی اداروں کو اْن کی اِس احسن کارکردگی پر زبردست خراج ِ تحسین پیش کرتی ہے ا س کیساتھ یہاں ہم اپنے وفاقی منتظمین( سیاسی اداروں) کی توجہ اِس جانب مبذول کرنا انتہائی ضروری سمجھتے ہیں کہ 'انصار الشریعہ' کے قیام سے اْسکے خاتمے تک اورپھرجامعہ کراچی جیسے اہم ملکی تعلیمی ادارے؟نوریں لغاری والے قصہ میں پکڑے جانیوالے تقریبا سبھی ملزمان اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے یہی تو خطرے کی علامت تھی اِس پر اُنکے کان کیوں نہیں کھڑے ہوئے؟ تعلیم کے انسانی احترام کی تفہیم سے ہمارے نوجوان مکمل طور پر آگہی اور آشنائی حاصل کرنے میں اِس قدر بے بس کیوں ہیں؟ کہ وہ 'فکر وخیال کی آزادی' کی نہج کو سمجھنے سے قاصر یہ فیصلہ کرنے کیوں لگے ؟کیا ہمارا موجودہ تعلیمی نظام کہیں 'ناقص' تو نہیں ہوچکا آخرہمارے مقتدر'ادارے جمہوری' ادارے آئینی ادارے' کیا اِس معاشرے کو بالکل مادر پدر آزاد معاشرہ بناکر ملکی سماج کی رہی سہی ساکھ کو بھی برقرار رکھنے میں ناکام ہوچکے ہیں‘ ممتاز علوم دین کے ماہرین'مذہبی اسکالرز'نامور‘ پروفیسرز‘ اساتذہ'اپنے شہروں قصبوں کے علاقوں اورمحلوں کی مساجد کے ممتاز خطیب‘ جامع مساجد کے لائق احترام خطباء یقینا پاکستانی میڈیا میں زوروشور کے ساتھ سنی جانے والی اِن خبروں پرسخت بے چین اورخاصے مضطرب ضرور ہوئے ہوں گے اْنہیں جب پتہ چلا ہوگا کہ کراچی کی جامعہ سے اپنے اپنے شعبوں میں نمایاں تعلیمی پوزیشن حاصل کرنے والے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں نے مسلم مذہب کے تشخص کو مسخ کرنے کا بیڑہ اْٹھا لیابلکہ اْن چند اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کے ایک گروہ نے قلم اورکتاب کی بجائے اپنے ہاتھوں میں مہلک ہتھیار اْٹھا کربے گناہ اورمعصوم ہم وطن مسلمانوں کوقتل کرنا شروع کردیاہے، انتہا پسندی'وحشت وبربریت کی یہ کیسی بے راہ روی ہے، جوسوشل میڈیا کے توسط سے پھیلتی چلی جارہی ہے کیاکوئی بھی شعوری اورفکری تہذیب وتمدن سے مکمل طور پر آراستہ فرد اِس بارے میں اپنی کوئی رائے دینا پسند کرے گا اْسے کچھ نہ کچھ تو اِس بارے میں ضرور کہنا چاہیئے کہ پاکستان میں کتنے فی صد پاکستانی ہونگے؟ جوسوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں ملکی سیکورٹی اداروںجن میں کراچی رینجرز نے گزشتہ دِنوں سات آٹھ افراد پرمشتمل ایک ایسے ہی مسلح گروہ کو جب ایک مسلح کارروائی کے بعد گرفتارکیا تو یہ حقیقت پاکستانیوں کو حیران وششدر کرگئی کہ گرفتارہونے والے ٹارگٹ کلر پیشہ ور مجرم نہیں بلکہ جامعہ کراچی کے فارغ التحصیل طالبِعلم تھے سوشل میڈیا کے فیس بک کو استعمال کرکے دہشت گردی کے ایک نئے نیٹ ورک بنانے کیلئے وسیع پیمانے پر ملکی جواں نسل کو بہیمانہ قتل وغارت کی ترغیت دینے کی نہ صرف کوششیں شروع ہوچکی تھیں بلکہ اِن میں سے بعض اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں نے کراچی شہرمیں خوف وہراس پیدا کرنے کی نیت سے کئی افراد کی ٹارگٹ کلنگ بھی کی ‘ حال ہی میں کراچی میں لاء ینڈ فورسنزایجنسیوں نے'اطلاعات' کی بنیاد پر گلستان ِجوہرمیں ایک ہاؤس پرجب چھاپہ مارا تو وہاں سے ایک ساتھ کئی نوجوان گرفتار ہوئے جنہوں نے دوران تفتیش بتایا کہ اْن کا تعلق 'انصارالشریعہ' نامی تنظیم سے ہے' جو افغانستان میں اب موجود القاعدہ کے ساتھ رابطے میں ہے جسکے مزید رابطے داعش تنظیم سے ملتے ہیں کیا پاکستانیوں کیلئے یہ خبر بم دھماکوں سے کم نہیں؟
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024