مخلص اور دیانتدار قیادت
صاحبو! وہ قوم جو ہر میدان میں پیچھے دھکیل دی گئی تھی وہ میدان عمل میں اتری۔ مسلم لیگ کے جھنڈے تلے متحد ہوئی۔ بحیثیت قوم انگریز حکمرانوں اور اپنے بدترین دشمن بنیا سے ٹکر لی۔ بنیا کی ہر عیاری اور سازش کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ اپنی جدوجہد کو پرامن اور قانون کے دائرے کے اندر رکھا۔ یہ بات تاریخ تسلیم کرے گی کہ تب کا معاشرہ مثالی نہ سہی صحت مند ضرور تھا کیونکہ اسی معاشرہ سے مسلمانان ہند کو مخلص اور دیانتدار قیادت ملی۔ پاکستان کے پہلے وزیراعظم خان لیاقت علی خان بنے۔ لیاقت علی خان کا تعلق بہت بڑے زمیندار گھرانے سے تھا۔ تقسیم کے بعد انہوں نے اپنی تمام جائیداد وہیں چھوڑی اور پاکستان آ کر کوئی کلیم جمع نہ کرایا۔ لیاقت علی خان کا شمار امیر ترین لوگوں میں ہوتا تھا۔ وہ وزیراعظم بنے انہوں نے اپنی دولت میں اضافے کیلئے نہ کرپشن کا سہارا لیا اور نہ ہی کوئی کاروبار کیا۔ آج کے حالات دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے ذاتی مفاد پر قومی مفاد کو ترجیح دی۔ اس وقت دنیا حیران رہ گئی جب شہادت کے بعد انہیں پوسٹ مارٹم کیلئے لایا گیا وہ شخص جو وزیراعظم کے منصب پر فائز تھا اس کے جسم سے اترنے والی بنیان پھٹی ہوئی اور جرابوں میں بڑے بڑے سوراخ تھے۔۶۱ اکتوبر ۱۵۹۱ء کو انہیں شہید کیا گیا۔ اتنا عرصہ وزیراعظم رہنے کے باوجود نہ پاکستان میں ان کے اکاؤنٹ میں کوئی پیسہ تھا اور نہ ہی بیرون ملک ان کی چھپائی ہوئی دولت سامنے آئی۔
اسی معاشرہ سے مسلمانوں کو قائداعظم محمد علی جناح جیسا سچا ‘بااصول ‘ باکردار اور دیانتدار رہنما ملا۔ قائداعظم محمد علی جناح قانون دان تھے تاریخ شاہد ہے کہ انہوں نے کبھی قانون سے کھلواڑ نہیں کیا۔ انہوں نے ہمیشہ قانون کا احترام کیا اور قانون پر خود بھی عمل کیا۔ قائداعظم پاکستان کے پہلے گورنر جنرل بنے۔ جب آپ گورنر جنرل کا حلف اٹھانے کے بعد گورنر ہاؤس پہنچے تو وہاں گورنر جنرل کی کرسی پر جا بیٹھے۔ ان سے حلف جسٹس سر عبدالرشید نے لینا تھا ان کا کہنا تھا کہ چونکہ قائداعظم نے ابھی گورنر جنرل کا حلف نہیں اٹھایا تھا اس لئے انہیں اس کرسی پر نہیں بیٹھنا چاہئے۔ قائداعظم نے یہ نہیں فرمایا کہ مجھے مسلمانان ہند کی حمایت حاصل ہے۔ میں برصغیر کے مسلمانوں کا قائد ہوں مجھے پوری دنیا قائداعظم کہتی ہے۔ یعنی میری پشت پر عوام ہیں پھر کیا ایک شخص مجھے کرسی سے اٹھنے کا کہہ سکتا ہے؟ قائداعظم تو قائداعظم تھے جو عظیم کردار کے مالک تھے۔ جب انہیں پتہ چلا آپ کرسی سے اٹھے اور جسٹس سر عبدالرشید سے معذرت بھی چاہی۔ آج اسی پاکستان کی سیاسی قیادت کے حال سے کون واقف نہیں؟ ان پر لگے کرپشن کے الزامات کس سے ڈھکے چھپے ہیں۔ مسلمانان ہند نے قیام پاکستان کیلئے اس لئے جدوجہد کی تھی کہ یہ ملک اسلام کی تجربہ گاہ بنے گا یہاں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں جمہوری کلچر پروان چڑھے گا۔ اس معاشرہ سے پاکستانیوں کو مخلص اور دیانتدار قیادت ملے گی۔ ۰۷ سال گزر چکے ایسا نہ ہوا۔ یہ ٹھیک ہے کہ یہاں جمہوریت کے قدم نہ جمنے دئے گئے ۔ یہاں لمبے لمبے عرصوں کیلئے آمریت مسلط رہی۔ مگر سچ یہ بھی ہے کہ جمہوری حکمرانوں کا رویہ بھی آمرانہ دکھائی دیا۔ بھٹو نے مجیب الرحمٰن کے حق حکمرانی کو تسلیم نہ کیا۔ نوازشریف تو اسمبلیوں میں جانا بھی گوارا نہ کیا کرتے۔ پروٹوکول حکمرانوں کی گردن میں سریا پیدا کر دیتا ہے۔ حکمران عوام سے دور رہنے لگتے ہیں۔ پھر حکمرانوں کے پروٹوکول پر ہونے والے اخراجات کا بوجھ کیا ملکی معیشت پر نہیں پڑتا؟ حکمرانوں کی اداروں سے ٹکراؤ کی پالیسی کیا جمہوری رویہ ہے۔ یہ ملک قومی سوچ کے تابع معرض وجود میں آیا کیا آج ہمارے ہاں قومی سوچ کو پروان چڑھانے کے اقدامات کئے گئے۔ کہیں ہم قوم کی بجائے ہجوم کی شکل تو نہیں اختیار کر گئے۔ کہیں ہم فرقہ واریت اور دیگر تعصبات کا تو شکار نہیں ہو چکے۔ آج ہمیں صرف پارٹی مفادات کا سبق تو نہیں دیا جا رہا۔ کہیں ہم ایک خاندان کی بقا کی جنگ میں تو شریک نہیں ہو چکے۔
پانچواں درویش پھر بولا۔ آج پاکستان کے پاس اﷲ تعالیٰ کی عطا کردہ ہر نعمت موجود ہے۔ ہر طرف وسائل بکھرے پڑے ہیں۔ آج ہمیں ضرورت ہے مخلص اور دیانتدار قیادت کی جو ان وسائل کے ثمرات عوام تک پہنچانے کی منصوبہ بندی کرے۔ وہ قیادت جانتی ہو کہ آج غریب عوام کن حالوں میں ہے۔ غریب کے بچوں کو تعلیم کی سہولیات حاصل ہیں انہیں بروقت طبی سہولیات مل جاتی ہیں۔ ان کے نوجوان بے روزگار تو نہیں۔ مسلم لیگی قیادت کو اس لئے بھاری مینڈیٹ ملا تھا کہ وہ عوام کو مسائل کی دلدل سے نکالنے کے اقدامات کرے۔ اس قیادت نے پہلے تو وزارتوں کی ریوڑیاں اپنوں میں تقسیم کیں اور اسحاق ڈار کو خزانے کی رکھوالی سونپ دی۔ نہ چار سالوں میں کشکول ٹوٹا اور نہ ہی معاشی استحکام آیا۔ اس قیادت نے توانائی کے بحران سے نمٹنے کا عہد بھی کیا تھا۔ کالا باغ ڈیم توانائی کے بحران پر قابو پانے کے ساتھ ساتھ آبی بحران پر قابو پانے میں بھی مددگار ثابت ہو سکتا تھا۔ اس قیادت نے اپنے اقتدار کو عزیز رکھا اور اس منصوبے کو سرد خانے سے نکالنے کا سوچا تک نہیں۔ مسلم لیگی ہونے کے ناطے انہیں بنیا کی عیاری کا علم ہونا چاہئے تھا۔ بنیا ہر محاذ پر پاکستان سے دشمنی کرتا رہا اور ہماری قیادت اس سے دوستی اور تجارت کے جھانسے میں رہی۔ یہاں تک کہ کل بھوشن رنگے ہاتھوں پکڑا گیا مگر ہماری اس قیادت کا ردعمل قومی امنگوں کے مطابق دیکھنے کو نہ ملا۔ کشمیریوں پر ظلم ہوتا رہا اور یہ قیادت اس چار سالہ دور اقتدار میں خارجہ محاذ پر وزیر خارجہ تک نہ لا سکے۔ پھر کہتے ہیں مجھے کیوں نکالا۔ ممکن ہے اقامہ یا پانامہ بہانہ بنا ہو انہیں یاد رکھنا چاہئے تھا کہ اﷲ کی پکڑ بہت سخت ہے۔ اس ذات نے تمہیں اقتدار اپنی مخلوق کو آسانیاں فراہم کرنے کیلئے عطا کیا تھا۔