ارسطو نے ایک سوال زندہ کر دیا کہ ایک فلاسفر کو حکمران ہونا چاہئے کہ ایک حکمران کو فلاسفر ہونا چاہئے۔ بات جو بھی ہو اس کا نتیجہ تو یہی نکلتا ہے کہ بہترین صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے صحت مندانہ اقدامات پر عمل اس لئے بھی ضروری ہے کہ معاشرہ ترقی کر سکے تاریخ نے تو یہ بھی ثابت کیا کہ حکمران اندھا بھی ہو اور اگر اس میں بیدار مغربی کی صلاحیت موجود ہے تو یقیناً اس کا جواب عوام کی بہتری ہو گا۔ ایک مزاح نگار نے لکھا کہ یہاں پر یہ سوال اٹھتا ہے کہ ایک اندھے کو حکمران ہونا چاہئے کہ ایک حکمران کو اندھا ہونا چاہئے۔ ماضی کے تجربات بیان کرتے ہوئے مزاح نگار لکھتا ہے کہ اندھوں کی تین اقسام ہیں۔ پیدائشی اندھے، سیاسی اندھے اور عقل کے اندھے ان میں سب سے زیادہ خطرناک قسم عقل کے اندھوں کی ہے۔ مزاح نگار تو اس بات پر بھی مصر ہے کہ اندھا حکمران عقل کا اندھا نہیں ہوتا۔ ایک فقیر سڑک کے کنارے بھیک مانگ رہا تھا۔ قریب سے ایک راہ گیر گزرا اس نے ایک سکہ پھینکا فقیر نے اٹھا کر کہا۔ ارے صاحب یہ تو کھوٹا ہے۔ اس پر راہ گیر نے کہا کہ تم تو اندھے ہو۔ اس پر فقیر نے کہا صاحب میں اندھا ضرور ہوں عقل کا اندھا نہیں۔ ایک کہاوت ہے ایک شخص درخت کی اسی شاخ کو بیٹھا کاٹ رہا تھا جس پر وہ بیٹھا تھا۔ قریب سے ایک شخص گزرا اور اس نے کہا کہ ارے بیوقوف نیچے گر پڑو گے۔ وہ شخص لاپرواہی سے درخت کاٹتا رہا۔ جب نیچے گر پڑا تو بھاگ کر راہ گیر کے پاس آیا اور بولا کہ تمہیں کیسے معلوم ہوا کہ میں نیچے گر پڑوں گا۔ اس پر وہ شخص بولا کہ تم اندھے ہو۔ وہ شخص حیران ہوا اور اپنے دونوں ہاتھ اپنی آنکھوں پر رکھتے ہوئے بولا میں تو دیکھ سکتا ہوں۔ راہ گیر نے کہا تم عقل کے اندھے ہو، یہ کہاوت ایک بڑا درس چھوڑ جاتی ہے کہ جب ذاتی مفادات، قومی مفادات پر حاوی ہو جائیں تو وہ بستی عقل کے اندھوں کی بستی بن جاتی ہے۔ جمہوریت بلاشبہ دو روشن آنکھیں ہیں جو معاشروں کو صراط مستقیم کی طرف لے کر جاتی ہیں۔ لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ اس کے تقاضوں اور رہنما اصولوں کو سمجھا جائے۔ ایک کلاس میں جب استاد نے شاگرد سے جمہوریت کے اصطلاحی اور لغوی مفہوم پوچھے تو وہ سٹپٹا گیا۔ استاد نے اسے مرغا بنا دیا‘ تاہم ایک بات اس کے ذہن نشین ہوگئی کہ جمہوریت اچھے اچھوں کو مرغا بنا دیتی ہے۔ شاید جب ایسی صورتحال پیدا ہو جائے تو مہنگائی اور غریب اس معاشرے میں پنجے گاڑی لیتی ہے۔ ایک ضعیف شخص کو ایمرجنسی وارڈ میں لایا گیا۔ ڈاکٹروں نے معائنے کے بعد اس کے گھروالوں کو بتایا کہ دل کا عارضہ ہے‘ لیکن وہ شخص مُصر تھا کہ دل کا نہیں بل کا عارضہ ہے۔ شاید وہ اسی بل کی طرف اشارہ کر رہا تھا کہ جو مہینے کے آخر میں ہر گھر میں آتا ہے اور اس بل کو دیکھ کر بھلا چنگا شخص دل کے عارضے میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ بل کا عارضہ اور دل کا عارضہ دونوں ایک ہی ہیں۔ دونوں کا کوئی حل اور علاج ممکن نہیں۔ میں نے اپنے کسی کالم میں لکھا کہ کسی طالبات کو کہا گیا کہ وہ مہنگائی پر مضمون لکھیں۔ ایک طالبہ نے لکھا کہ مہنگائی نے تو ہر گھر میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ میرا جوتا ٹوٹ گیا جس کی وجہ سے مجھے روز سزا کے طورپر اسمبلی میں کھڑا ہونا پڑتا ہے۔ پچھلے مہینے ابا نے کہا کہ وہ جوتا لیکر دے گا‘ لیکن اس مہینے بل آگیا۔ ابا نے وعدہ کیا ہے کہ اس مہینے جوتا لیکر دے گا۔ میں سوچتی ہوں کہ اگر جوتا آگیا تو بل کیسے ادا ہوگا۔ آخر میں اس نے لکھا کہ جس ملک میں یونیفارم کیلئے جوتے نہ خریدے جا سکتے ہوں وہاں مہنگائی کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔
مشکل تو زندگی گزارنا بھی ہو جاتا ہے۔ میں نے اپنے ایک افسانے میں لکھا تھا کہ ہم زندگی نہیں گزار رہے زندگی ہمیں گزار رہی ہے۔ زندگی اور خوشی کی پیشن گوئی کرنے والا وہ بچہ جمہورا جو اپنے مالک کے حکم پر لوگوں کی توجہ کا مرکز بنتا تھا‘ مالک اسے کہتا تھا گھوم جائو وہ گھوم کر اور جھوم کر کئی خوشخبریاں سنا جاتا تھا۔ کئی راز کھول جاتا ہے۔ لوگوں کے چہروں پر تبسم بکھیر جاتا تھا۔ ایک مزاح نگار لکھتا ہے کہ بہت سے بچے جموروں کے درمیان اصل بچہ جمورا اپنا تشخص کھو بیٹھا ہے۔ پہچان حاصل کرنے کیلئے واپسی کا سفر ضروری ہے‘ لیکن ہم شاید منافقتوں‘ مفادات اور ہوس کی راہ میں اتنا آگے نکل آئے ہیں کہ واپسی کا سفر بے معنی نظر آتا ہے۔ علامہ شبلی نعمانی نے لکھا کہ قوموں کی ترقی کا ایک راز یہ بھی ہے کہ سفر دوبارہ سے اسی نکتہ سے شروع کیا جائے جہاں سے آغاز کیا تھا‘ لیکن شاید ہمیں یہ ادراک بھی نہیں رہا کہ ہم منزلِ گم گشتہ کے مسافر ہیں۔ آغازِ سفر کیلئے دلوں کی درستگی ضروری ہے جوکہ ایک بہت مشکل کام ہے۔