لندن سے واپسی پر پنجاب ہائوس میں مسلم لیگ (ن) کے رہنمائوں کے مشاورتی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں نوازشریف نے کہا کہ پارٹی فیصلوں کا اطلاق مجھ سمیت سب پر ہوگا اور یہ فیصلے سب کو ماننا ہونگے۔ دریں اثناء مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور وفاقی وزیر مشاہد اللہ خان نے کہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) رابطہ عوام مہم شروع کر رہی ہے، اس سلسلے میں میاں نوازشریف 12نومبر کو ایبٹ آباد میں جلسہ عام سے خطاب کرینگے۔
اگلے انتخابات میں زیادہ سے زیادہ آٹھ ماہ باقی ہیں۔ رواں سال کو انتخابی سال بھی کہا جا رہا ہے۔ پارٹیاں انتخابات کے حوالے سے صف بندی کر رہی ہیں۔ ابھی سے ٹکٹوں کے فیصلے ہو رہے ہیں، نئے اتحاد بننے کے امکانات ظاہر ہو رہے ہیں۔ مزید برآں سیاسی پارٹیاں رائے عامہ اپنے حق میں ہموار کرنے کیلئے جلسے کر رہی ہیں جس میں مسلم لیگ (ن) کی کمی محسوس ہو رہی تھی۔ اب حکومتی پارٹی نے بھی جلسوں کا فیصلہ کیا ہے جو دیر سے ہی ہوا ہے تاہم درست فیصلہ ہے۔ مسلم لیگ (ن) میں ایک بے چینی کی سی کیفیت نظر آتی ہے جس کا اظہار کچھ رہنمائوں کی طرف سے ہو رہا ہے۔ حریف پارٹیاں اسے اپنے مقاصد کیلئے استعمال کر سکتی ہیں اور کر بھی رہی ہیں، جس کے باعث افواہوں کا ایک بازار گرم ہے جو مسلم لیگ (ن) کے کسی صورت مفاد میں نہیں۔ آج مسلم لیگ (ن) کے قائدین کیلئے پارٹی کو متحد رکھنا اور مضبوط بنانا ایک چیلنج بن گیا ہے۔ پارٹی حکومت میں ہو تو فیصلے کرنا آسان ہوتا ہے مگر میاں نوازشریف کی نااہلی کے بعد پارٹی میں پیدا ہونیوالا ارتعاش انکے پارٹی کے صدر بننے کے باوجود موجود ہے۔ بدقسمتی سے جمہوری ملک کی سیاسی جماعتوں کے اندر ہونیوالے فیصلے پارٹی سربراہ کی شخصیت کے مرہون ہوتے اور اسی کے گرد گھومتے ہیں۔ میاں نوازشریف عزم ظاہر کر رہے ہیں کہ ان سمیت سب کو پارٹی کے فیصلوں کو ماننا پڑیگا اگر فیصلے چند ہم خیالوں کی مشاورت سے ہونگے تو اختلاف سامنے آسکتاہے۔ یہ وہ اختلاف نہیں ہوگا جسے جمہوریت کا حسن کہا جاتا ہے بلکہ یہ پارٹی کو مزید عدم استحکام سے دوچار کر سکتا ہے۔ لندن سے خبر آئی تھی کہ فیصلہ ہوا ہے کہ بیان صرف نوازشریف اور شہباز شریف ہی جاری کرینگے۔ کیا اس فیصلے پر عمل ہو رہا ہے؟ میاں نوازشریف جو کہتے ہیں اس کا مطلب بھی وہی ہونا چاہئے۔ پہلے طے کر لیں کہ پارٹی کے فیصلے کس نے کرنے ہیں؟
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38