من حیث القوم ہماری کیفیت اس بھوکے کی سی ہے جو انواع و اقسام کے مزے دار کھانوں‘ مٹھائیوں سے سجی میزوں پر بیٹھا بھوک سے کراہ رہا ہے۔ اس چیتھیڑوں میں ملبوس کی سی ہے جس کی الماریاں خوبصورت قیمتی کپڑوں سے بھری پڑی ہیں۔ اس خوفزدہ کی سی جو جدید ترین اسلحہ اور سکیورٹی کے حصار میں سہما لرز رہا ہے بالکل ایسے ہی ہم وہ خوش نصیب ہیں جو بدنصیبوں کو گلے لگائے ہر قسم کا بحران ہمیں قومی و ملکی سطح پر درپیش ہے۔جبکہ ایک مسلم قوم اور اسلامی ریاست کے باوجود‘ اسلام دین فطرت اور مکمل ضابطہ¿ حیات اور قدم قدم پر ہماری رہنمائی کرتا ہے۔
اسلام وہ واحد دین ہے جس کا ہر ہر عمل ہر رکن غرض پورے کا پورا نظام حکمت و فلسفہ سے لبریز ہے۔ اسلامی تقویم میں لیجئے گزشتہ ماہ ذوالحجہ ایک عظیم قربانی کی داستان سنا کر رخصت ہوا جس میں حضرت ابراہیم کے ذریعہ پیغام ملا کہ اپنی اولاد اکلوتا بیٹا بھی اللہ کی راہ میں قربان کرنے سے دریغ نہیں کیا جبکہ آج ہم اپنے بچوں کی خواہشات بھی قربان کرنے کو تیار نہیں اور والدین اپنی اولاد کی آسائشوں اور خواہشات کی تکمیل کیلئے ملاوٹ و رشوت اور دیگر کمائی کے ناجائز ذرائع اختیار کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے احکامات پس پشت ڈال کر پھر بھی مسلمانی کے دعویدار رہتے ہیں۔اسلامی تقویم کا پہلا مہینہ محرم معصوموں کے خون سے رنگین داستان لئے آتا ہے۔ گویا اسلام اول و آخر ایثار و قربانی جان و مال اللہ کی راہ میں قربان کرنے کی تربیت کرتا ہے اور پیغام دیتا ہے ....
ہو صداقت کیلئے جس دل میں مرنے کی تڑپ
پہلے اپنے پیکر خاکی میں جاں پیدا کرلے
اے کاش! ہم محافل و مجالس میں محبت عقیدت کے نعروں کےساتھ ساتھ شہدائے کربلا کی قربانی اور حضرت امام حسینؓ کی کُنبہ لٹا کر اسلامی اقدار اسلامی اصولوں کی حفاظت کے اس پیغام کو اپنا لیں۔تو پھر کیسے آج کوئی کسی بدقماش‘ جھوٹے کو مسلمانوں کو لیڈر یا حکمران تسلیم کرے اور کیسے اسلامی نظریہ¿ حیات کے باغی سیکولر کو ووٹ دیکر اپنے اوپر مسلط کرے۔ سلام یا حسینؓ! کہ آپ نے کلمہ¿ حق کی پاسداری کیلئے گھر بار علاقہ‘ مال و منال ٹھکرا کر گھر کا گھر لٹا کر حق و صداقت جرا¿ت‘ بہادری‘ صبرواستقامت کا استعارہ بن گئے۔آپ زندہ و جاوید ہوکر آپ نے اپنے بے مثال کردار سے اپنے ظالم و جابر حریف کو ذلت و پستی‘ جبرواستبداد‘ درندگی و درماندگی کی علامت بنا دیا
جب خیرو شر میں وقت ِ تفریق ہو گئی
بے ساختہ حسینؓ کی تخلیق ہو گئی
آج بھی آپ کے اس عظیم و عظمت بھرے کردار پر عمل پیرا ہوکر دنیا کو ظلم و جبر سے دہشت گردی‘ناانصافی اور بدامنی و بدحالی سے نجات دلا کر جنت نظیر بنایا جا سکتا ہے۔ ہمارے اسلامی سال کا آغاز محرم الحرام کی یکم تاریخ بھی اس تاریخ ساز شخصیت کی شہادت سے شروع ہوتی ہے جو مُراد رسول ‘ عمر فاروق ؓہیں۔ قبول اسلام سے لیکر اپنی شہادت تک آپ کی حیات طیبہ اسلامی خدمات و فتوحات سے بھری پڑی ہے۔ آج ہم جن قومی و ملکی مسائل و بحرانوں کا شکار ہیں‘ یہ انہی عظیم ہستیوں اور اپنے اسلاف سے بیگانگی و دوری کا نتیجہ ہیں۔جمہوریت کے راگ الاپ کر جمہوریت کا چیمپئن بننے والے حکمرانو! رہنماﺅ!´ کوئی ایسی مثال تو پیش کرو کہ ایک ایسا خلیفہ جس کی ہیئت و جرا¿ت سے غیر بھی کانپتے ہوں مگر بطور حکمران وہ اس قدر آزادی اظہار رائے اور محاسبے کے عمل پر یقین رکھنے والا ہو بلکہ عمل کرنے والا ہو کہ ایک عام آدمی عام شہری اس کے لباس کا محاسبہ کر سکے اور بلا خوف پوچھے کہ آپ نے دو چادروں کا لباس کیسے زیب تن کیا جبکہ آپ کے حصے میں بوقت تقسیم ایک چادر آئی تھی؟آج کے ترقی یافتہ سائنسی جدید دور میں تمام سہولتوں سے مزین ہونے کے باوجود کوئی شہنشاہ کوئی حکمران اتنی بڑی سلطنت میں کر سکتا ہے کہ ”دجلہ کے کنارے کتیا بھوکی مرنے کا جواب دہ بھی عمرؓ ہے۔“عوام کے نام نہاد ہمدرد حکمرانو‘ خوبصورت ایوانوں‘ محلوں میں سکیورٹی حصاروں میں خواب خرگوش کے مزے لینے والو! آپؓ تو راتوں کی نیندیں حرام کئے اپنی رعایا کی خدمت اور ان کے مسائل کی آگاہی کیلئے بے چین راتوں کو گشت کرکے خود ان کی دہلیز پر حکومت لے جاتے۔ آپکی کی دہلیز تو سائلوں اور رعایا کو چومنے کیلئے میسر نہیں۔اپنے بیٹے کو بھی کوڑوں کی سزا کی مثال تو پیش کرو کہ کیسا عدل و انصاف ایک اسلامی حکمران کو پیش کرنا ہے۔یہ انہی کی عظمت کو سلام ہے کہ ہماری تاریخ فخر کر رہی ہے
فقط اسلام دنیا میں یہ نقشہ پیش کرتا ہے
کہ آقا چل دیئے پیدل سواری پہ غلام آیا
پھر کیوں نہ مخالفین اسلام عمر لاز سے موسوم قوانین اپنے ممالک میں رائج کریں اور ہم اپنے گھر کا راستہ بھولے غیروں کے در پر دستک دے رہے ہیں۔ آج یہی ہماری دینی و دنیاوی فلاح کا راستہ ہے۔ یہی حضرت امام حسینؓ کو بہترین خراج عقیدت ہے۔ یہی ان کی اور حضرت عمر فاروقؓ کی روح کی تسکین و ٹھنڈک ہے کہ ہم ان کے ان اصولوں کو اپنا کر اپنا لیں جن کیلئے انہوں نے اتنی عظیم قربانیوں کے نذرانے پیش کئے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024