
کوا کیسے بازی لے گیا، آج کوا کیوں یاد آ رہا ہے۔ کوا ہمارے معاشرے میں کئی حوالوں سے موضوع بحث رہتا ہے۔ کامیڈینز بھی جگت کے لیے کوے کو میٹیریل بناتے ہیں۔ پنجاب کے دیہات میں جب کسی منڈیر پر کوا بولے تو کہا جاتا تھا کہ مہمان آ رہے ہیں۔ اسی طرح فلمی نغمات لکھنے والوں نے بھی کوے کی صلاحیتوں اور خوبیوں کو بنیاد بنایا ہے۔ جیسا کہ پنجابی فلم چوڑیاں کا مشہور و معروف گانا آج بھی سننے والوں کو گاوں کی یاد دلاتا ہے۔ اس گانے کے بول کچھ یوں تھے۔ "اڈ کوٹھے اتوں کاواں وے، ساڈے دل دا پروہنا کوئی نہ تینوں چوریاں کیوں پاواں وے" چوڑیاں فلم بہت کامیاب رہی اور یہ گانا بھی بہت پسند کیا گیا۔ اسی طرح ہمارے کامیڈینز بھی کوے کو درمیان میں رکھ کر بہت مزاح کرتے ہیں۔ بہت اچھی جملہ بازی کرتے ہیں اور ناظرین خوب لطف اٹھاتے ہیں۔ جیسا کہ کسی نے لمبے ناک پر نشانہ لگانا ہو تو اسے کہا جاتا ہے۔ "نک ویکھو جداں کاں دی چنج ہندی اے" اسی طرح کسی کے چہرے پر نشانہ لگانا ہو تو کہا جاتا ہے "کاں دی چنج ورگے منہ آلیا چپ کر"۔ لوگ ایسے جملوں کو بہت پسند کرتے ہیں۔ یوں کوا ہمارے ہاں خود ایک بڑا کردار ہے۔ لیکن ایک کوے نے ایسا کام کیا ہے کہ گوشت پوست کے انسانوں کو ناصرف ہلا کر رکھ دیا ہے بلکہ اچھا بھلا چیلنج کر دیا ہے۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ ایک کوے کی اسرائیلی جھنڈے کو اتار پھینکنے کی ویڈیو وائرل ہوئی ہے۔ ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ اسرائیل کا جھنڈا ایک پول کے ساتھ بلند ہے اور ہوا میں لہرا رہا ہے لیکن یہ لہراتا جھنڈا کوے میاں کو ایک آنکھ نہیں بھایا اور وہ کوا جو مہمانوں کی آمد کا پیغام سمجھا جاتا وہ کوا اپنی چونچ سے جھنڈے کو اس وقت تک کھینچتا رہا جب تک اسے اتار نہ پھینکا۔سوشل میڈیا صارفین کی طرف سے اس ویڈیو پر دلچسپ تبصروں کا سلسلہ جاری ہے۔ایک صارف نے لکھا کہ انہیں پہلے لگا کہ کوا ایسا اپنا گھونسلہ بنانے کیلئے کر رہا ہے اور وہ اپنے ساتھ جھنڈے کو بھی لے جائے گا مگر کوے نے اسے دور پھینک دیا۔ایک اور صارف نے لکھا کہ وہ اب سے کوے کو روٹی ڈالے گا جب کہ ایک اور صارف نے لکھا کہ اسرائیلی نہ انسانوں میں سمجھ آتے ہیں اور نہ ہی جانوروں میں، تبھی یہ مخلوق پرندوں کو بھی نہیں پسند۔بہت ہی دلچسپ صورتحال ہے کیونکہ کسی بھی ملک کے جھنڈے کی بے حرمتی کو مہذب دنیا میں اچھا نہیں سمجھا جاتا اور پرچم کی بے حرمتی پر سزائیں بھی دی جاتی ہیں، ملکوں کے باہمی تعلقات خراب ہوتے ہیں اور بات جنگ تک پہنچ جاتی ہے لیکن یہاں یہ صورتحال نہیں ہو گی کیونکہ کوے کا نہ تو کوئی پاسپورٹ ہے نہ وہ کسی مقروض ملک سے ہے نہ اسے کوئی ڈیپورٹ کر سکتا ہے، نہ کوئی اسے نوکری سے نکال سکتا ہے۔ بلکہ اس نے دنیا میں خوف و دہشت کی علامت اسرائیل کی فوج کو کھلا چیلنج دیا ہے کہ روک سکو تو۔ گوکہ کوا یہاں مزاح میں زیر بحث آیا ہے لیکن جس طرح اس نے اسرائیل کے پرچم کو پھاڑا ہے وہ دنیا بھر کے تمام طاقتور ممالک کے لیے ایک پیغام ضرور ہے۔ کیونکہ اسرائیلی مظالم پر سب خاموش رہتے ہیں۔ دہائیوں سے فلسطینی شہری اسرائیل کی فوج کے مظالم برداشت کر رہے ہیں، ظالم اسرائیلی افواج کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ ظالم اور بے رحم اسرائیلی فوج نے بیت المقدس کی حرمت کو بھی پامال کیا ہے۔ وہ فوج جس کے دلوں میں مسلمانوں کے لیے کوئی رحم نہیں ہے اس کے جھنڈے کو ایک کوے نے تار تار کر کے یہ پیغام دیا ہے کہ اگر مسلمان متحد ہو جائیں اور دنیا کا ضمیر جاگے تو کچھ بھی ممکن ہے۔ اسرائیل کی فوج فلسطین کے شہریوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہی ہے۔ دنیا خاموش ہے، امت مسلمہ تقسیم ہے، کمزور ہے، اسرائیل کے خوف سے کوئی اس بربریت پر سوائے بیانات کے کچھ نہیں کر سکتا۔ وہاں وہ معصوم بچوں کو لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھنے کی سزا دے رہے ہیں، گلے کاٹ رہے ہیں، بیت المقدس کو خوں خوں کر رکھا ہے۔ قتل عام جاری ہے کوئی روکنے والا نہیں۔ عالمی طاقتوں کی پشت پناہی میں اسرائیلی افواج نے فلسطین کے مسلمانوں کے بنیادی حقوق غضب کر رکھے ہیں۔ ابھی چند روز گذرے میں رمضان المبارک میں ظلم و بربریت کی ایک نئی داستان رقم کی گئی۔ بالکل اسی طرح مقبوضہ کشمیر میں دہائیوں سے بھارتی افواج کشمیری مسلمانوں کو کلمہ گو ہونے کی سزا دے رہی یے۔ فلسطین میں بیت المقدس کہ بے حرمتی ہوتی ہے تو کشمیر میں بھی مساجد اور امام بارگاہیں محفوظ نہیں ہیں۔ نماز پڑھنے کے لیے آنے والوں کو تشدد برداشت کرنا پڑتا ہے بعض اوقات سجدے کے لیے آنے والوں کے جنازے اٹھانا پڑتے ہیں لیکن کسی کو فرق نہیں پڑتا۔ کسی کو اس تکلیف کا احساس نہیں ہے جس سے فلسطین اور کشمیر کے مسلمان گذر رہے ہیں۔ یقینا اس کوے نے بھی عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش ضرور کی ہے۔ کاش کہ امت مسلمہ ہوش میں آئے، مسلم امہ یہ خیال کرے کہ اگر ایک کوا اسرائیل کے پرچم کو تار تار کر سکتا ہے ہم مل کر اپنے مسلمان بھائیں کا قتل عام اور خواتین کی عصمت دری کیوں نہیں روک سکتے۔ کیوں معصوم بچوں کو پیدائشی کلمہ گو ہونے کی سزا دی جا رہی ہے۔ اللہ کرے کہ کوے کا یہ عمل مسلمانوں کو خواب غفلت سے جگانے کا باعث بنے۔ اللہ کرے کہ ایسا ہو کہ ظالم کا ہاتھ رکے اور امن کا بول بالا ہو۔ بیت المقدس کی حرمت برقرار رہے اور بے حرمتی کرنے والے انجام کو پہنچیں۔ بھارت پاکستان کے کبوتروں کو جاسوس سمجھتا رہتا ہے دیکھتے ہیں اب اسرائیلی اس کوے کو کسی مذہب سے نہ جوڑ دیں۔ اسے دہشت گرد قرار دے کر کووں کے خاتمے کی مہم ہی نہ چلا دیں کیونکہ ان سے کچھ بھی توقع کی جا سکتی ہے۔ یہ اتنے تنگ نظر، بے رحم اور متعصب ہیں کہ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ بہرحال آج تو یہ کہنا پڑے گا کہ کوا بازی لے گیا اور کوے نے سب کو پیاسے کوے والی کہانی یاد کروا دی ہے۔ اس واقعے کے بعد ہمارے کامیڈینز کو یقینا نیا مواد ملے گا اور ان کی طرف سے ناظرین کو نئی نئی جگتیں سننے کو ملیں گی۔دوسری طرف خبر یہ بھی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف نے عوامی نیشنل پارٹی کی آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت سے معذرت کر لی ہے۔ پی ٹی آئی رہنما اسد قیصر کہتے ہیں کہ عوامی نیشنل پارٹی نے کانفرنس کے ایجنڈے سے اتفاق نہیں کرتے، مسائل کی وجہ حکومت ہے اور اے این پی بھی اس کا حصہ ہے۔اسد قیصر کی اس دلیل میں کوئی وزن نہیں یہ بے معنی دلیل ہے۔ پی ٹی آئی تو حکومت سے بھی مذاکرات مذاکرات کھیل رہی ہے پھر یہاں اکٹھے بیٹھنے میں کیا مسئلہ ہے۔ سیاسی قیادت کو صرف اپنی پسند کی بات کرنے اور پسند کی بات سننے کی عادت کو ترک کرنا ہو گا۔ اگر مرکز میں سب سے بات ہو سکتی ہے تو اے این پی کی اے پی سی میں کیا مسئلہ ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کو اس حوالے سے ضرور سوچنا چاہیے۔خبر یہ بھی ہے کہ پاکستان میں بائیس ملین لڑکے لڑکیاں شادی کے انتظار میں ہیں۔ یہ تو انتظار والے ہیں اگر عدالتوں میں جائیں وہاں بہت بڑی تعداد علیحدگی کے انتظار میں ہے۔ مجموعی طور پر یہ معاشرے کے زوال کی نشانی ہے کیونکہ ہم زمین پر رہتے ہوئے زندگی کو حقیقت کی نگاہ سے دیکھنے کے بجائے خیالی دنیا میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ عدم برداشت بڑھ رہا ہے اور ہر انسان اپنی خامیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے دوسروں سے ہر وقت بہترین کی توقع کرتا ہے۔ جو خامیاں کسی انسان میں موجود ہیں وہ ہمسفر ہر قسم کی خامیوں سے پاک چاہتا ہے۔ نمود و نمائش، کسی کو کم تو اور خود کو برتر سمجھنا مسائل کی بڑی وجہ ہے۔ رسومات اور فرسودہ روایات نے شادی کو مشکل بنا دیا ہے۔ یہ صورتحال تشویشناک ہے۔ رشتوں کا احترام اور اہمیت ختم ہوتی جا رہی ہے۔ بدقسمتی سے جنہوں نے رہنمائی کرنی ہے وہ خود الجھے ہوئے ہیں۔