منگل‘ 21؍ رمضان المبارک 1442ھ‘ 4؍مئی 2021ء
بھارتی مسلمانوں کے ایثار و حسن سلوک کے ہندو بھی معترف
کرونا کے باعث جہاں زندگی موت کے خوف سے تھرتھر کانپ رہی ہے۔ اس نفسانفسی کے دور میں جب اپنے بھی کرونا کے خوف سے زندوں اور مردوں سے دور بھاگ رہے ہیں۔ چشم فلک ایسے مناظر بھی دیکھ رہی ہے کہ انسان ہی انسان کے درد کا مداوا بن رہا ہے۔ بھارت اس وقت سب سے زیادہ کرونا سے متاثر ممالک میں سے ایک ہے۔ یہ وہ ملک ہے جہاں کے متعصب ہندو حکمرانوں نے بھارتی مسلمانوں کیلئے زندگی اجیر ن بنا رکھی تھی آج یہی مسلمان اپنے ہندو ہم وطنوں کیلئے رحمت بن رہے ہیں۔ وہی مساجد جنہیں یہ جنونی گرانے اور جلانے کے درپے تھے آج انہی مساجد میں کرونا کا شکار لوگوں کے علاج معالجے کے سنٹر بن رہے ہیں مسلمان انسانی ہمدردی کی بنیاد پر وہاں قرنطینہ مراکز بنا رہے ہیں۔ یہاں ہر مذہب و ملت کے مریضوں کو رکھا جارہا ہے۔ صرف یہی نہیں ایک مسلمان اپنے ہندو دوست کی بہن کو کرونا میں آکسیجن نہ ملنے پر تڑپتے ہوئے مرتا دیکھ کر اپنی گاڑی اور بیوی کے زیورات فروخت کرکے آکسیجن کے سلنڈر خرید کر ہسپتالوں میں پہنچا رہا ہے۔ کئی اور مسلمان بھی اس کے ساتھ اس نیک کام میں شامل ہوگئے ہیں۔ اس طرح ایک رکشہ ڈرائیور نے اپنے رکشہ کو ہی ایمبولینس میں بدل دیا ہے جو سڑکوں پر مریضوں کو آکسیجن فراہم کرتا ہے ان کی جان بچانے کی کوشش میں مصروف ہے۔ وہ کسی سے اس کا مذہب نہیں پوچھتا ۔ ایسی بے شمار مثالیں ہیں کہ جب رشتہ دار آگے نہیں آئے تو مسلمان پڑوسیوں ہی نے اپنے ہندو پڑوسیوں کی لاشوں کو اٹھایا اور ان کی آخری رسومات ادا کیں۔یہ ہوتی ہے انسانیت اور مسلمانوں کی مذہبی رواداری کی تربت۔ اسی لئے تو اسلام کو دین رحمت کہتے ہیں۔ اب خود لاکھوں ہندو مسلمانوں کی اس رواداری اور ایثار پر انہیں سراہا رہے ہیں اور سلام کررہے ہیں۔
٭٭٭٭٭
پانی کیلئے کنواں کھودنے میں گدھے معاون ثابت ہوسکتے ہیں: سائنسی ماہرین
امریکہ میں سائنسدانوں نے بڑی تحقیقات کے بعد ثابت کیا ہے کہ جن علاقوں میں پانی کمیاب ہے وہاں گدھے اپنی خداداد صلاحیتوں کے بل بوتے پر نہ صرف زیر زمین پانی تلاش کرلیتے ہیں بلکہ کنواں کھود کر پانی تک رسائی بھی حاصل کرلیتے ہیں۔ اس طرح خشک علاقے میں دیگر چرند و پرند بھی اس پانی سے مستفید ہوتے ہیں۔ افسوس ہمارے ہاں گدھے کا مطلب احمق تصور کیا جاتا ہے۔ اب اس تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے ہاں پائے جانے والے انسان نما گدھوں سے یہ گدھے لاکھ درجہ زیادہ ذہین ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ پانی کہاں مل سکتا ہے۔ ہمارے ہاں کئی ایسے صحرائی یا میدانی علاقے ہیں جہاں پانی کی قلت ہے۔ مگر افسوس وہاں ہم گدھوں سے کوئی فائد ہ نہیں اٹھا سکے۔ ان بے چاروں کو کنواں کھودنے یا پانی تلاش کی اجازت نہیں دی ان سے صرف گہرے کنوئوں سے پانی کھینچنے کا کام لیا جاتا ہے۔اب ان کی تعداد بھی تیزی سے کم ہوتی رہی ہے کیونکہ حرام خور مافیا نے بڑی بے دردی سے ان گدھوں کو ذبح کرکے ان کی کھالیں مارکیٹ میں فروخت کردیں اور گوشت ہوٹلوں میں بیچ دیا۔ یوں اب تک ہزاروں گدھے یہ بدبخت ہمارے پیٹ میں اتار چکے ہیں۔ آئے روز ایسی خبریں میڈیا کی زینت بھی بنتی ہیں۔ شاید اس نسل کشی کی وجہ سے باقی بچ جانے والے گدھوں نے پانی کی تلاش کی بجائے دستیاب پانی کھینچنے پر ہی توجہ دے رکھی ہے۔ یہی حال سیاسی گدھوں کا بھی ہے جو پانی کی کمیابی سے مکمل لاتعلق بیٹھے ہیں۔ اگر ان میں ذرا بھی عقل ہوتی تو یہ کالا باغ ڈیم کی مخالفت نہ کرتے اس کے بننے میں رکاوٹ نہ ڈالتے مگر کیا کریں اس کی تعمیر پر بھی بے شمار حیوان ناطق ابھی تک دھماچوکڑی مچائے رکھتے ہیں ورنہ کالا باغ ڈیم کب کا بن چکا ہوتا پاکستان پانی کی انتہائی قلت کا شکار ممالک کی فہرست سے نکل چکا ہوتا۔ کاش‘ ہمارا کوئی گدھا کالا باغ میں بھی پانی کی تلاش پر توجہ دے۔
٭٭٭٭٭
فردوس عاشق اعوان کی خاتون اے سی سیالکوٹ کو جھاڑ پر بیورو کریسی برہم
گزشتہ روز وزیراعلیٰ پنجاب کی معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان نے سیالکوٹ میں رمضان بازار کا اچانک دورہ کر ڈالا۔رمضان بازاروں میں جو کچھ فروخت ہو رہا ہے، اسکے معیار سے لوگ بخوبی واقف ہیں۔ سو جب فردوس عاشق صاحبہ نے وہاں بکنے والے ناقص پھل اور سبزیاں دیکھیں تو اپنے ساتھ موجود اے سی سیالکوٹ پر برس پڑیں۔ یہ کوئی
ہوا سے موتی برس رہے ہیں
گھٹا ترانے سنا رہی ہے
والی بات نہیں تھی۔ انہوں نے خوب دل کھول کر خاتون اے سی کی کلاس لی اور پوچھا کہ بازاروں میں یہ کیا بک رہا ہے۔ اس پر پہلے تو اے سی صاحبہ نے بات سنبھالنے کی کوشش کی مگر جواب نہ بن پڑنے پر فریق مخالف کی گرجدار تقریر کا جواب دینے کی بجائے اے سی صاحبہ پنڈال سے باہر چلی گئیں۔ اس واقعہ نے میڈیا پر خوب تماشا لگایا۔ اب حالت یہ ہے کہ پنجاب کی بیورو کریسی جسکی خودسری یا شوریدہ سری عوام کے حوالے سے زبان زد عام ہے، بھڑک اٹھی۔ وہ سراپا احتجاج ہیں کہ ہمارے ساتھی کی بے عزتی کی گئی۔ کوئی پوچھے تو کہ یہ بیور کریٹ عوام کے ساتھ اپنے رویئے کو کیا نام دینگے۔ کاش کبھی یہ لوگ بیوروکریسی کے عوام دشمن رویہ پر بھی عوام کی حمایت میں بولے ہوتے۔ بے شک فردوش عاشق اعوان کا رویہ اور لہجہ ناگوار ہوگا مگر کیا یہ سچ نہیں ہے کہ رمضان بازاروں کی نگرانی بیورو کریسی کی ذمہ داری میں شامل ہے مگر انہیں بھلا کہاں فرصت کہ وہ اپنے اے سی والے دفتروں سے نکل کر ان تپتے بازاروں کا دورہ کریں۔
٭٭٭٭٭
لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور میں خاتون کے ہاں 5 بچوں کی پیدائش
قربان جایئے پروردگار عالم کے جو دینے پر آئے تو چھپرپھاڑ کر دیتا ہے، کئی لوگ ایک بچے کو ترستے ہیں تو کہیں بچوں کی لائن لگی ہوتی ہے۔ کبھی بیک وقت چار پانچ بچے جنم لیتے ہیں ۔ یہ سب اس کی مرضی سے اس کے حکم سے ہوتا ہے۔ دنیا میں یہ رنگارنگی خوبصورتی خوشی اور غمی کا امتزاج نہ ہو تو انسان اس کی یکسانیت سے تنگ آسکتا ہے۔ گزشتہ روز پشاور میں جس خاتون نے پانچ بچوں کو جنم دیا اس کی تو خوشی کی انتہا نہیں ہوگی۔ بچوں کے والدین اور باقی گھر والے مبارکبادیں وصول کررہے ہوں گے۔ جو لوگ صاحب اولاد نہیں وہ تو دعائیں کررہے ہوں گے کہ پروردگار ہمیں بھی ایک ہی سہی جیتا جاگتا ہنستاکھیلتا بچہ عطا فرما۔اب یہ اوپر والے کی مرضی ہے جسے چاہے دے جسے چاہے نہ دے۔ اب معلوم نہیں اس خاتون کے یہ پہلے بچے ہیں یا پہلے بھی وہ والدہ بننے کا شرف حاصل کرچکی ہیں۔ اگر ایسا ہے تو اب انہیں آئندہ محتاط رہتے ہوئے ان بچوں کی کفالت اور حفاظت کی ذمہ داری احسن طریقے سے نبھانا چاہئے کیونکہ کثرت اولاد باعث خوشی ہی سہی مگر ان کی اچھی تعلیم و تربیت ، صحت، خوراک اور لباس کی ذمہ داری بہر حال والدین کے سر ہی ہوتی ہے اس لئے عقل مند لوگ بچوں کی پیدائش پر خوشی منانے کے ساتھ ان کی پیدائش میں وقفے پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔کیونکہ چھوٹا خاندان زندگی آسان بنانے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔
٭٭٭٭٭