بھارت میں کرونا کی تباہ کاریوں کے پیش نظر ہمیں سخت اقدمات کیجانب جانا ہوگا
کرونا سے بچائو! افغانستان اور ایران سے ملحقہ سرحد بند کرنے کا فیصلہ‘ بھارت سے منسلک سرحد بند کرنے سے گریز
پاکستان میں کرونا وائرس کی نئی اقسام کی آمد روکنے کیلئے این سی او سی نے ایران اور افغانستان کے ساتھ سرحد سیل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ نظرثانی کی پالیسی چار اور پانچ مئی کی درمیانی شب رات ایک بجے سے 19‘ اور 20 مئی کی درمیانی شب تک لاگو رہے گی۔ اس پالیسی کا اطلاق زمینی راستے سے آنیوالے لوگوں پر ہوگا اور کارگو اور باہمی تجارت اس پالیسی سے مستثنیٰ ہوگی۔ اس پالیسی کی روشنی میں بارڈر ٹرمینل ہفتہ میں سات روز کھلے رہیں گے۔ افغانستان میں موجود پاکستانیوں کو ملک واپسی کی اجازت ہو گی اور کرونا پازیٹو آنیوالے افغان شہریوں کو افغانستان واپس بھیج دیا جائیگا جبکہ پاکستانی شہریوں کو قریبی قرنطینہ سنٹر میں منتقل کر دیا جائیگا۔ ایران اور افغانستان میں طبی بنیادوں پر آنیوالوں کو بھی اجازت ہوگی۔ متذکرہ پالیسی کے تحت ڈرائیورز اور ہیلپرز کیلئے بارڈر ٹرمینل پر تھرمل سکیننگ لازمی قرار دی گئی ہے۔ دریں اثناء این سی او سی نے ملک میں 8 تا 16 مئی کے دوران نقل و حرکت روکنے کیلئے سخت اقدامات کا اعلان کر دیا ہے۔ گزشتہ روز لاہور میں مکمل لاک ڈائون رہا اور ٹرانسپورٹ‘ کاروبار اور مارکیٹیں مکمل بند رہیں۔ کرونا کی تیسری لہر نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے اور صوبائی وزیر صحت مثبت کیسز کی شرح میں اضافے پر لاک ڈائون جیسے اقدامات کا عندیہ دے رہی ہیں جبکہ ڈاکٹر تنظیموں نے لاک ڈائون پر سختی سے عملدرآمد کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔
یہ امر واقع ہے کہ کرونا کی پہلی‘ دوسری اور تیسری لہر نے پوری دنیا کو نڈھال اور بدحال کردیا ہے۔ عالمی منڈیاں اور معیشتیں تباہی کے دہانے پر کھڑی ہیں اور انسانی زندگیاں درختوں سے ٹوٹے ہوئے پتوں کی طرح بکھر رہی ہیں۔ زندگی کی بے ثباتی کے مظاہر عملاً کرونا وائرس نے ہی دکھائے ہیں جبکہ اس موذی وبا نے انسانوں کو شرف انسانیت سے بھی عاری کر دیا ہے۔ اگرچہ اس قدرتی آفت کا پھیلائو روکنے کیلئے چین اور روس کی تیار کردہ ویکسین سے تمام متاثرہ ممالک استفادہ کر رہے ہیں‘ اسکے باوجود کرونا کا پھیلائو رکنے میں نہیں آرہا اور کرونا کی تیسری لہر نے تو بالخصوص ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں اودھم مچا دیا ہے جہاں روزانہ ہزاروں افراد کی اموات ہو رہی ہیں اور کرونا پازیٹو کیسز روزانہ کی بنیاد پر لاکھوں تک چلے گئے ہیں۔ گزشتہ روز بھارت میں وزیر صحت کی والدہ سمیت 3688 افراد کی کرونا سے ہلاکتیں ہوئیں اور مزید تین لاکھ 92 ہزار بھارتی شہریوں کی کرونا رپورٹیں پازیٹو آئیں۔ اس وقت بھارت ایک کروڑ 91 لاکھ متاثرین کے ساتھ دنیا میں کرونا پھیلائو کا سب سے بڑا مرکز بن چکا ہے اور وہاں لاشوں کی تدفین اور جلانے کی رسوم کی ادائیگی میں بھی دشواریاں پیش آرہی ہیں۔ سڑکوں‘ گلیوں اور چوراہوں میں لاشوں کے ڈھیر لگے نظر آتے ہیں جبکہ کرونا مریضوں کا بھی کوئی پرسان حال نہیں۔
اگر ہم دنیا بھر میں کرونا سے متاثرہ ممالک کی صورتحال کا جائزہ لیں تو اس میں انسانی بے بسی کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں کرونا سے مجموعی ہلاکتوں کی تعداد 32 کروڑ سے تجاوز کرچکی ہے اور امریکہ پانچ لاکھ 90 ہزار ہلاکتوں کے ساتھ کرونا سے متاثرہ ممالک میں سرفہرست ہے۔ بھارت کرونا متاثرین ممالک میں دوسرے نمبر پر آچکا ہے۔ جہاں اب تک 2 لاکھ 8 ہزار 909 ہلاکتیں ہو چکی ہیں اور کرونا سے متاثرہ افراد کی تعداد دو کروڑ تک پہنچ چکی ہے۔ اس وقت ترکی‘ جرمنی‘ بیلجیئم‘ اٹلی‘ سپین میں لاک ڈائون کیخلاف پرتشدد مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے چنانچہ دنیا میں افراتفری کا عجیب عالم پیدا ہو چکا ہے۔ اس صورتحال میں انسانی حیات کا کیا مستقبل ہوگا‘ اس کا دارومدار کرونا وائرس کے پھیلائو کی روک تھام کے اقدامات اور تدابیر پر ہی ہوگا۔
اس صورتحال میں ہمیں بہرصورت کرونا وائرس سے بچنے کے جو بھی ممکنہ اقدامات ہو سکتے ہیں‘ وہ بروئے کار لانا ہونگے اور قوم کے ہر فرد کو ایس او پیز پر عملدرآمد کا خود کو پابند کرنا ہوگا ورنہ کرونا کے پیدا کردہ بھارت کے حالات ہمارے گھروں پر بھی دستک دے رہے ہیں۔ بے شک قدرت نے ہمیں اب تک بھارت جیسی کرونا کی سنگینی سے بچایا ہوا ہے اور ہمارا شمار نسبتاً کم متاثر ہونیوالے ممالک میں ہوتا ہے تاہم کرونا کی تیسری لہر نے پنجاب اور سندھ کو زیادہ لپیٹ میں لیا ہے اور اس دوران ایک دن میں ریکارڈ دو سو سے بھی زائد ہلاکتیں ریکارڈ کی گئی ہیں۔ گزشتہ روز بھی کرونا سے 113‘ افراد جاں بحق ہوئے اور چار ہزار 411 نئے کیسز سامنے آئے‘ صرف لاہور میں 18 فیصد مثبت کیسز ہیں جبکہ پنجاب میں 90 فیصد مریض برطانوی وائرس سے متاثر ہوئے ہیں۔
یہ سنگین صورتحال ہم سے لاک ڈائون سمیت تمام احتیاطی اقدامات بروئے کار لانے کی متقاضی ہے۔ اس تناظر میں این سی او سی نے 20 مئی تک افغانستان اور ایران کی سرحد بند کرنے کا درست فیصلہ کیا ہے تاہم پڑوسی ملک بھارت سے ملحقہ سرحدیں بند کرنا بھی اشد ضروری ہے کیونکہ اس وقت بھارت ہی کرونا کے پھیلائو کا بڑا ذریعہ بن چکا ہے جہاں انسانی بے چارگی اپنی انتہائوں کو چھو رہی ہے اس لئے قوی امکان ہے کہ پاکستان بھارت سرحدوں پر آمدورفت کا سلسلہ جاری رہا جیسا کہ واہگہ بارڈر کے راستے بھارتی باشندوں کو کرتارپور راہداری استعمال کرکے دربار بابا گورونانک جانے کی اجازت ملتی رہی ہے تو ہمارے ملک میں بھی کرونا کی تباہ کاریوں کے معاملہ میں بھارت جیسے حالات پیدا ہونا بعیدازقیاس نہیں۔ ہمیں بہرصورت اپنے شہریوں اور قومی معیشت کو کرونا کے مضر اثرات سے بچانا ہے جس کیلئے ہمیں کرونا کا پھیلائو روکنے کے انتہائی اقدامات اٹھانا ہونگے۔ ہم اس معاملہ میں کسی نرمی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ حکومت کی جانب سے پنجاب کے مختلف شہروں بشمول لاہور میں ہفتہ اور اتوار کو دو روز کے لاک ڈائون کا فیصلہ کیا گیا مگر عملاً اس فیصلے کا مذاق ہی اڑایا گیا کیونکہ ان دو دنوں میں بھی ٹریفک بدستور چلتی رہی اور مارکیٹوں کے علاوہ ریستوران بھی کھلے رہے جبکہ اب بھارت سے ملحقہ سرحد بند کرنے سے بھی گریز کیا گیا ہے۔
ایسی گومگو والی پالیسیوں سے کرونا کی روک تھام میں تو شاید ہی کوئی مدد مل پائے البتہ کرونا کا پھیلائو ہمارے لئے مزید جان لیوا ہو سکتا ہے اس لئے مخصوص مدت تک ہمیں سخت گیر لاک ڈائون کی جانب بھی جانا پڑے تو دنیا کے حالات کے تناظر میں ہمیں اس سے گریز نہیں کرنا چاہیے۔ یہ بحیثیت قوم ہمارے لئے بے شک آزمائش کا مرحلہ ہے جو ہم سے رجوع الی اللہ اور خدا کے حضور گڑگڑا کر معافی مانگنے کا بھی متقاضی ہے۔ اور اسی طرح ہم نے احتیاط کا دامن بھی سختی سے تھامنا ہے۔ ہم قومی اتحاد و یکجہتی قائم کرکے ہی ان کٹھن مراحل میں سرخرو ہو سکتے ہیں اور کرونا سے مستقل نجات پا سکتے ہیں۔ اس کیلئے قوم کی سیاسی سول اور عسکری قیادتیں قوم کے ہم قدم ہیں۔ صرف عزم صمیم کی ضرورت ہے جس کا اس وقت قوم میں فقدان نظر آتا ہے۔