’’عمر رواں‘‘ میں عمرِ رفتہ کی یادیں
ڈاکٹر فرید پراچہ کی ’’عمررواں‘‘ میرے ہاتھ آئی تو ’’عمر رفتہ‘‘ کے کئی مناظر میری آنکھوں کے آگے گھومنے لگے۔ 1973ء میں گریجویشن کرنے کے بعد والد صاحب چودھری محمد اکرم مجھے لاہور لے آئے اور پنجاب یونیورسٹی اولڈ کیمپس میں ڈپٹی کنٹرولر امتحانات نثار صاحب کے حوالے کرتے ہوئے انہیں کہا کہ میرے بیٹے کو لاء کالج میں داخل کرادیں۔ نثار صاحب میرے والد صاحب کے دیرینہ دوست تھے‘ انہوں نے اپنے ایک اہلکار کو پنجاب یونیورسٹی لاء کالج سے داخلہ فارم لانے کیلئے کہا۔ لاء کالج کے اور نثار صاحب کے آفس کے مابین صرف سڑک پار کرنے کا ہی فاصلہ تھا چنانچہ اہلکار ’’یہ گیا اور وہ آیا‘‘ کے مصداق جھٹ پٹ داخلہ فارم لے کر آگیا۔ مجھے لاء کی تعلیم کا کوئی شوق نہیں تھا کیونکہ میں اپنی طبیعت کے میلان کے مطابق پوسٹ گریجویشن کی جانب جانا چاہتا تھا تاکہ لیکچررشپ حاصل کرکے علم و ادب کی خدمت کرسکوں۔ والد صاحب کا اپنی ڈیرہ داری کی بنیاد پر مجھے وکیل بنانے پر اصرار تھا اور انکے آگے چون و چراں کرنے کی مجھ میں ہمت نہیں تھی اس لئے انکی خواہش اور فرمائش پر میں نے یونیورسٹی لاء کالج میں داخلہ لے لیا جس کے تمام مراحل نثار صاحب نے خود ہی طے کرادیئے۔ میرا ایف ای ایل کے سیکشن سی میں داخلہ ہوا جو اولڈ کیمپس کے گیٹ کے بالکل سامنے تھا اور اسکے تھوڑے فاصلے پر انارکلی بازار کا آغاز ہو جاتا تھا۔ اس کلاس روم کے پچھوڑاے اورینٹل کالج اور اس سے ملحقہ لاء کالج کا ہوسٹل تھا۔ سیکشن سی کے اگلے بنچوں پر محمود مقبول باجوہ (سابق جج لاہور ہائیکورٹ)‘ ذوالقرنین ذوق‘ عبدالوحید خان‘ عبدالرشید مرزا اور رئوف طاہر کے ساتھ ہی میری نشست بھی نکل آئی چنانچہ ہم پانچوں کلاس فیلوز کی دوستی بھی پروان چڑھتے چڑھتے اٹوٹ بندھن میں بندھ گئی۔
اس وقت پنجاب یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کے انتخابات کی گہماگہمی چل رہی تھی اور صدر کے امیدوار فرید احمد پراچہ یونیورسٹی لاء کالج کے ہی سٹوڈنٹ تھے جو ہم سے ایک سال سینئر تھے۔ اس وقت کے سٹوڈنٹس یونین کے صدر مخدوم جاوید ہاشمی طلبہ کے ہردلعزیز قائد تھے جن کی جرأت و بہادری کے قصے میں نے گورنمنٹ کالج ساہیوال میں اپنی گریجویشن کی تعلیم کے دوران بھی سن رکھے تھے۔ فرید پراچہ کی انتخابی مہم کے دوران جاوید ہاشمی ہی اس مہم کو لیڈ کرتے رہے اور اسلامی جمعیت طلبہ کے مدمقابل طلبہ تنظیموں کے اتحاد پر اپنی دھاک بٹھاتے رہے۔ فرید پراچہ اس وقت بھی انتہائی سنجیدہ‘ مدبر اور سلجھی ہوئی شخصیت نظر آتے تھے جو اپنی تقریروں میں ناپ تول کر موزوں الفاظ کا استعمال کرتے اور تقریر کی روانی میں بھی کوئی جھول پیدا نہ ہونے دیتے۔ ہم پانچوں دوست اپنے ذہنی میلان کی بنیاد پر فرید پراچہ کے ہمقدم ہوگئے اور انتخابات میں انہوں نے ریکارڈ لیڈ کے ساتھ کامیابی حاصل کی۔ اس وقت امتیاز علی شیخ یونیورسٹی لاء کالج کے پرنسپل تھے جو بعد میں پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے منصبِ جلیلہ پر متمکن ہوئے جبکہ ہمارے اساتذہ میں وائس پرنسپل سردار اقبال مؤکل‘ خلیل رمدے‘ میاں آفتاب فرخ‘ حامد خان‘ چودھری محمد عارف‘ ڈاکٹر خالد رانجھا جیسی شخصیات شامل تھیں۔ اسی طرح اس دور میں چودھری اعتزاز احسن بھی یونیورسٹی لاء کالج کے اساتذہ میں شامل تھے۔
انتخابات میں اسلامی جمعیت طلبہ کے پینل کی کامیابی کا جشن منانے کیلئے پنجاب یونیورسٹی نیوکیمپس میں ایک بڑی تقریب کا اہتمام ہوا جس میں شرکت کے ناطے ہمارا نام بھی اسلامی جمعیت طلبہ کے متفقین کی فہرست میں آگیا چنانچہ ہمیں ذیلدار پارک اچھرہ میں ابوالااعلیٰ سید مودودی کی اقامت گاہ پر ہونیوالی تربیتی نشستوں میں بھی شرکت اور مولانا مودودی سے اکتساب فیض حاصل کرنے کا موقع ملتا رہا۔ ہمارے بنچ فیلو ذوالقرنین ذوق (جو راجہ ذوالقرنین کے عرفِ عام کے ساتھ آج بلند پایہ وکلاء میں شمار ہوتے ہیں اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سیکرٹری کے منصب پر بھی فائز رہ چکے ہیں) پنجاب یونیورسٹی لاء کالج میں اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم منتخب ہو گئے اور ہمارے دوسرے بنچ فیلو محمود مقبول باجوہ سیکشن سی کے ناظم مقرر ہوئے تو انکی معیت میں ہم بھی اسلامی جمعیت طلبہ کے ہر فنگشن کا حصہ بن گئے۔
یہ ذوالفقار علی بھٹو کا دور حکومت تھا جس کی سوشلزم پر مبنی پالیسیوں کی اسلامی جمعیت طلبہ ہی سب سے بڑی مخالف تھی چنانچہ فرید پراچہ کی قیادت میں سڑکوں پر ہونیوالے حکومت مخالف مظاہروں میں ہماری بھی شرکت ہوتی رہی۔ اس وقت میں نے ایک طویل نظم بھی لکھی جس کا ایک بند یہاں پیش کررہا ہوں…؎
چاہے دیس بھی ہو کنگال
بھٹو جئے ہزاروں سال
ایک معزز کا فرمان
ہم کو دے گا یہ انسان
روٹی کپڑا اور مکان
یہ منہ اور مسور کی دال
بھٹو جئے ہزاروں سال
یہ نظم میں نے خالقِ قومی ترانہ حفیظ جالندھری کو بھجوائی جن کے ساتھ میری فریدیہ کالج پاکپتن کے پرنسپل ایم سعید خان کے ناطے سے نیازی مندی تھی کیونکہ سعید خان صاحب جی بلاک ماڈل ٹائون لاہور میں حفیظ جالندھری صاحب کے کرایہ دار کی حیثیت سے رہ رہے تھے اور والد صاحب کے ساتھ دوستی کے ناطے سعید خان صاحب مجھے بھی اپنے بیٹوں میں ہی شمار کرتے تھے اس لئے لاہور آنے کے بعد انکی خدمت میں حاضری بھی میرا معمول بن چکا تھا۔ حفیظ جالندھری صاحب نے اپنے چار صفحات پر مشتمل مراسلے میں میری اس نظم کی خوب پذیرائی کی چنانچہ مزاحمتی شاعری کی جانب میرا زیادہ میلان ہوگیا۔
’’عمررواں‘‘ کی ورق گردانی کرتے ہوئے جہاں ڈاکٹر فرید پراچہ صاحب کے جدوجہد اور کٹھنائیوں والے سفرِ زندگی کے بعض نامعلوم راستوں سے آگاہی ہوئی وہیں یادوں کے چلتے جھکڑ مجھے اپنے طالب علمی کے دور میں واپس لے گئے اور مجھے فرید پراچہ صاحب اور اپنی عملی زندگی کے سفر کی شروعات ایک جیسی ہی لگیں۔
فرید پراچہ صاحب سرگودھا کے دورافتادہ علاقے سے اپنے والد صاحب مولانا گلزار احمد مظاہری کی خواہش کے برعکس لاہور آئے اور یونیورسٹی لاء کالج میں داخلہ لیا اور اپنے والد محترم کی یہ بات پلے باندھ لی کہ رہائش و تعلیم کے اخراجات آپ خود ہی اٹھائیں گے۔ فرید پراچہ صاحب کو تو اپنے شاندار تعلیمی کیریئر کے باعث سکالرشپ مل گئی جس سے انکے تعلیمی اخراجات کا بندوبست ہو گیا جبکہ مجھے اپنی رہائش و تعلیم کے اخراجات پورے کرنے کیلئے روزنامہ وفاق میں جزوقتی ملازمت اختیار کرنا پڑی کیونکہ والد صاحب نے لاء کالج میں داخل کرانے کے بعد تعلیم و رہائش کے اخراجات کی ذمہ داری مجھ پر ہی ڈال دی تھی۔ کچھ ایسا ہی معاملہ رؤف طاہر صاحب کا بھی تھا چنانچہ ہم اپنی طالب علمی کے زمانے میں ہی کٹھنائیوں والی عملی زندگی میں داخل ہوگئے تھے۔ ’’عمررواں‘‘ بھی ڈاکٹر فرید پراچہ کی ایسی ہی عملی زندگی کی داستان ہے جو انکی یادداشتوں کو پھیلاتے سمیٹتے چارسو سے زائد صفحات پر مشتمل ایک کتاب میں ڈھل گئی ہے۔ اس میں درج کئی واقعات کا میں عینی شاہد بھی ہوں جبکہ ایوب خان کے مارشل لائی دور میں سرکلر روڈ لاہور پر پیرمکی کے سامنے اکتوبر 1963ء میں جماعت اسلامی کے چار روزہ سالانہ اجتماع عام کی اس کتاب میں درج دلدوز داستان پڑھ کر مجھے مولانا مودودی کی اپنے مشن کے ساتھ استقامت اور انکی جرأت و بہادری پر رشک آنے لگا۔ غنڈوں نے اس اجتماع پر مسلح حملہ کیا‘ بے دریغ گولیاں برسائیں مگر مولانا مودودی نے اپنی تقریر جاری رکھتے ہوئے پورے اجتماع کو اپنی اپنی جگہ پر ڈٹ کر بیٹھے رہنے کا حوصلہ دیا۔ میں نے اس اجتماع میں کی گئی مولانا مودودی کی تقریر کی آڈیوکیسٹ پہلے بھی سن رکھی تھی جس میں وہ تڑتڑ برستی گولیوں کے دوران اجتماع کے شرکاء کو ثابت قدم رہنے کیلئے ڈھارس بندھاتے اور یہ کہتے ہوئے اپنے مشن پر جرأتوں کے کوہِ گراں بنے نظر آتے تھے کہ اگر میں بیٹھ گیا تو پھر کھڑا کون رہے گا۔ ڈاکٹر فرید پراچہ صاحب بھی جرأتوں کے اسی کوہِ گراں کا حصہ ہیں اور مجھے وہ جس طرح طالب علمی کے دور میں باوقار‘ مدبر اور سنجیدہ شخصیت نظر آتے تھے‘ آج بھی انکی مدبرانہ اور سنجیدہ شخصیت ہی انکی زندگی پر حاوی نظر آتی ہے اور انکی شخصیت کا تصور بھی یہ گواہی دیتا ہے کہ…؎
تیرا خیال بھی تیری طرح مکمل ہے
وہی شباب‘ وہی دلکشی‘ وہی انداز
ہمارے مقبول و محبوب پبلشر علامہ عبدالستار عاصم نے قلم فائونڈیشن کے زیراہتمام ’’عمررواں‘‘ کی دیدہ زیب فرنٹ اور بیک ٹائٹل کے ساتھ اشاعت کا بلاشبہ حق ادا کر دیا ہے جس سے مجھے بھی اپنی یادداشتیں قلمبند کرنے کا حوصلہ ملا ہے۔