شکست پر شکست اور اسکے اسباب
حلقہ 249دھاندلی اور بے ضابطگیوں کی حلقہ 75ڈسکہ کی طرح زد میں ہے، ہماری سیاسی ایلیٹ نے انتخابات میں شکست کے بعد دھاندلی دھاندلی کا شور مچانے کو وطیرہ اور پختہ عادت بنا لیا ہے مگر اس کے ساتھ غور اس پر بھی کرنا ہوگاکہ ایسے الزامات آخر لگتے ہی کیوں ہیں۔ این اے 75میں بھی یہی کچھ کیا گیا مگر (ن) لیگ کے دھاندلی کے الزامات درست ثابت ہوئے۔ ہمیں انتخابی سسٹم کی اصلاح کی طرف جانا ہوگا۔ الیکٹرانک ووٹنگ گو کہ فول پروف سسٹم نہیں ہے مگر باقی طریقوں سے زیادہ قابل اعتبار ہے۔ مگر اس کی کارفرمائی سے قبل ہی اسے بھی بغیر آزمائے متروک قرار دیا جا رہا ہے۔ ہماری سیاسی اشرافیہ موجودہ سسٹم کو ناکارہ قرار دیتی ہے مگر اس ’’کھوبے‘‘ سے نکلنے کے لیے تیار بھی نہیںہے۔
کراچی کے اس حلقے میں تحریک انصاف کو اپنی چھوڑی سیٹ جیتنا چاہیے تھی۔ 2018ء کے الیکشن میں کانٹے دار مقابلہ ہوا۔ شہبازشریف صرف سات سو ووٹوں سے واڈا سے ہارے تھے۔ پیپلزپارٹی تین میں نہ تیرہ میں مگر اب پی پی پہلے اور مسلم لیگ (ن) دوسرے نمبر پر ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی طرف سے دھاندلی کا واویلا سب سے زیادہ کیا گیا ہے۔ آج دوبارہ گنتی ہو رہی ہے۔ اس سے اول تو کوئی فرق نہیں پڑے گا ، پڑا بھی تو مسلم لیگ ن جیت جائے گی۔ تحریک انصاف پانچویں نمبر پر آئی ہے۔ اس حلقے میں وہ کہیں دھند اور دھول میں گم ہو گئی ہے۔ یہ زوال کہیں قومی سطح پر اس کے منظرنامہ سے غائب ہونے کا تو غماز نہیں ہے؟ اس کا جواب زورداریاں میں ہو سکتا ہے۔ پی ٹی آئی کو چاروں صوبوں میں نمائندگی ملی مگر اب حالات اس کے لیے دگرگوں ہو رہے ہیں۔ سندھ میں جیتی سیٹ ہار گئے ۔ کے پی کے میں بھی ایسا ہی ہوا پنجاب میں جیت کے دعوے دوبارہ ہونے والے ضمنی الیکشن میں جھاگ کی طرح بیٹھ گئے۔ 25سال کی جدوجہد کیا بے رنگ و نور ہو رہی ہے؟ تحریک انصاف کو بام عروج پر لے جانے والا عمران خان کا طلسم کیا ٹوٹ رہا ہے۔ میں سمجھتا ہوں ایسا نہیں ہے۔ مہنگائی کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے، بیروزگاری کا جن دندنا رہا ہے۔ اپوزیشن گو منتشر ہے مگر طاقتور ہے۔ ان حالات میں عمران خان کی ٹیم قوی ہونی چاہیے تھی مگر ٹیم ماٹھی ہے لیکن ان کے پاس ابھی اصلاح کا وقت کم ہی سہی مگر ضروری ہے کہ اپنے ساتھیوں پر بھروسا کریں۔ قارئین کرام دنیا بھر میں الیکشن ریفارمز ہوتی رہتی ہیں حتیٰ کہ امریکہ اور یورپ کے کئی ممالک میں الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم کے سو فیصد پراگرس نہ دکھانے کے باوجود اسی بائیومیٹرک سسٹم پر اکتفا کیا جا رہا ہے کیونکہ کرہ ارض پر جتنے الیکشن سسٹم موجود ان میں سب سے زیادہ بائیومیٹرک سسٹم اپنی پراگرس دے رہا ہے۔پاکستان میں ابھی اس سسٹم کو استعمال ہی نہیں کیا گیا مگر میرے محترم شہبازشریف اور ان کی پارٹی اس سسٹم کو آزمائے بغیر فرسودہ اور ناکام قرار دے رہے ہیں۔ اور ان کی یہی منطق مملکت کے پڑھے لکھے شہری کو سمجھ نہیں آ رہی۔ کیا مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے پاس اس بائیومیٹرک نظام کے متبادل کوئی سسٹم موجود ہے؟اگر ہے تو عظیم تر ملکی مفاد کی خاطر اپنے پراجیکٹ اور پالیسی کو موجودہ حکومت کے ساتھ بیٹھ کر کم از کم آنے والے الیکشن کو متنازعہ بنانے سے گریز کریں۔ قارئین ! اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ حکومت عوام سے کیے ہوئے وعدے ایفا نہیں کر سکی لیکن اگر ہم پاکستان کی 72سالہ تاریخ دیکھتے ہیں تو وہ کون سی ایسی پارٹی یا جماعت ہے جس نے پاکستان کے اندر دودھ اور شہد کی نہریں بہائی ہوں اور ان کے دورِ حکومت میں شیراور بکری ایک گھاٹ پر پانی پیتے ہوں ؟پنجاب نیشنل پارٹی پاکستان ایک نومولود سیاسی پارٹی ہے مگر اس کی مرکزی قیادت اور پالیسیاں بنانے کے پیچھے ملکی سیاسی تاریخ کے تجربہ کار اور اتالیق قسم کے لوگ موجود ہیں۔اور ہم یہ توقع کرتے ہیں کہ موجودہ حکومت کو پانچ سال دے دینے چاہئیں۔تاکہ بعدازاں حیل و حجت اور اسلام آباد میں دھرنا دینے کا آپشن باقی نہ رہے۔حکومتی پارٹی کے سوشل میڈیا پرایکیٹو ارکان کی حالت یہ ہے کہ وہ حکومتی اصلاح کے لیے مشورے دینے والوں پر بغیر دیکھے چڑھ دوڑتے ہیں۔کسی بھی پارٹی سے ایک سیاسی کارکن کا تعلق وطن سے مخلص ہونے پر مشروط ہوتا ہے۔لیکن مجھے انتہائی افسوس کے ساتھ پی ٹی آئی کی مرکزی قیادت کو یہ اطلاع دینا پڑ رہی ہے کہ ان کی وہ یوتھ جس پر وہ بڑا انحصار کرتے تھے۔ وہ یوتھ اب بے راہ رو ہو چکی ہے۔ کیونکہ حکومت زعما کے پاس اتنا وقت ہی نہیں کہ وہ اپنے نوجوان سیاسی ارکان کی تربیت کے لیے کوئی پروگرام ترتیب دیتے ۔اگر اس مقصد کے لیے کوئی معاونِ خصوصی اپوائنٹ بھی کیا گیا ہے تو وہ اپنی ذاتی پبلک سٹی پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔ پاکستان مسائلستان بنتا جا رہا ہے۔