کرونا کی وبا بلاشبہ ایک بھیانک خواب کی مانند ہے لیکن میں آج اس تصویر کے ایک دوسرے رخ کے بارے میں بات کروں گا جو آہستہ آہستہ شایداس وبا سے بھی زیادہ بھیانک صورت اختیار کر سکتا ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ کرونا کی بیماری اب ہماری زندگیوں کا حصہ بن چکی ہے۔ وبا تو جلد یا بدیر ختم ہو جائے گی (اللہ کرے جلد از جلد ختم ہو جائے) لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اب کرونا کی بیماری ڈینگی اور دیگر بیماروں کی طرح ہماری معاشرے میں ہی رہے گی اور وبا کے خاتمے کے بعد بھی ، دیگربہت سی بیماریوں کی طرح کرونا کے کچھ نہ کچھ مریض ہمارے درمیان رہا کریں گے۔ کیا ایسی صورت میں ان مریضوں کو اچھوت اور شجر ممنوع سمجھنا درست ہے یا ہو گا؟ میں یہ سوال اٹھانے پر مجبور اس لیے ہوا ہوں کہ گزشتہ کچھ دنوںمیں میں نے مختلف ہسپتالوںمیں( سرکاری اور پرائیوٹ دونوں) عام مریضوں کی حالت زار دیکھی ہے اور حیران رہ گیا ہوں۔ کرونا توکرونا ، بخار یا کھانسی کے کسی بھی مریض کے ساتھ جو سلوک اس وقت مختلف ہسپتالوں میں ہو رہا ہے وہ ڈاکٹر حضرات کے رویوں کے بارے میں سنجیدہ سوالات اٹھا رہا ہے۔ کرونا کا ایسا خوف چھایا ہے کہ کوئی بھی ایسا مریض جسے بخار یا سانس کا کوئی مسئلہ ہو ، اسے ہسپتال میں داخل کرنا ، یا معائنہ کرنا تو بہت دور کی بات کوئی اسے ہاتھ لگا نے کو بھی تیار نہیں۔ کیا ڈاکٹر، کیا نرس سب کی کوشش ہوتی ہے کہ بغیر کوئی ٹیسٹ کئے، بغیر مریض کا معائنہ کئے اور اسے ہاتھ لگائے بنا ہی کسی دوسرے ہسپتال ریفر کر دیا جائے، جہاں سے اسے مزید آگے بھیج دیا جاتا ہے۔ تنگ آ کر مریض اگر کسی مہنگے پرائیویٹ ہسپتال بھی چلا جائے تو مہنگی فیس ادا کرنے کے باوجود کوئی اس کا علاج معالجہ کرنے کو تیار نہیں۔اسے کہا جاتا ہے کہ آپ بس کرونا وارڈ چلے جائیں تاکہ اسے کرونا نہ بھی ہو تو بھی ہو جائے۔ یہ سب میں نے مختلف سرکاری اور مشہور اور بڑے پرائیویٹ ہسپتالوں میں خود دیکھا ہے اور مکمل ذمہ داری کے ساتھ تحریر کر رہا ہوں، اور یہ پوچھنے پر مجبور ہوں کہ ایسے مریض جو دمہ، پھیپھڑوں کی دیگر بیماریوں یا کسی بھی وجہ سے کسی بخار میں مبتلا ہوں وہ کہاں جائیں؟ موجودہ صورتحال میں تو ان کی بیماری کو مزید بڑھانے اور انکو اوپر پہنچانے کے مکمل انتظامات ہر ہسپتال میں نظر آ رہے ہیں۔ میرے خیال میں اتنے مریض ابھی تک کرونا سے نہیں مرے ہونگے جتنے ان حالات میں دیگر بیماریوں میں مبتلا مریضوں کو کرونا سے خوف سے ادھر ادھر ریفر کرنے اور جان چھڑانے کے دوران اوپر بھجوا دیا گیا ہو گا۔ مسیحا ہونے کا اعلان کرنے اور مسیحائی میں بہت فرق ہے۔ میری سمجھ سے بالا ہے کہ ڈاکٹر، نرسز اور دیگر پیرا میڈیکل سٹاف میڈیکل کا علم ہونے اور سب کچھ سمجھنے کے باوجود کیوں اس طرح کا رویہ اپنائے بیٹھے ہیں ؟ کیا جب انہوں نے اپنے شعبے میں کام شروع کرنے سے پہلے یہ حلف اٹھایا تھا کہ میں فلاں فلاں بیماری کا علاج کروں گا اور فلاں کا نہیں؟ یا اگر کوئی نئی بیماری آ گئی تو اسکا علاج معالجہ کرنا میری ذمہ داری نہیں ہو گی؟
احتیاطی تدابیر اختیار کرنا ضروری بھی ہے اور آپکا حق بھی لیکن جب آپ ڈیوٹی پرآ گئے ہیں تو ایمانداری اور انصاف کے ساتھ ڈیوٹی سر انجام دیں۔ آپ سے زیادہ یہ کس کو معلوم ہے کہ ہر کھانسی، ہر بخار یا ہر سانس کی بیماری کرونا نہیں ہے۔ کسی مریض کو ا چھوت قرار دینے سے قبل کم از کم اسکا کرونا ٹیسٹ تو کرو الیں۔ یہ میں نے محاورے کے طور پر کہہ دیا ورنہ تو ہر اچھوت مریض بھی علاج کا حق رکھتا ہے۔ اگر کسی کو کرونا یا کسی اور متعدی مرض کا اتنا ہی خوف ہے تو وہ یہ کام چھوڑ دے، جیسے اگر کسی کو موت کا خوف ہو تو اسکا فوج میں کوئی کام نہیں۔ ذہنی بیماری کی حد تک ڈوبنے کا خوف رکھنے والے کا کشتی رانی سے کوئی کام نہیں۔ اسی طرح کرونا یا دیگر امراض سے اس حد تک ڈرنے والے کا میڈیکل کی فیلڈ میں کوئی کام نہیں۔ وہ اس پروفیشن کو چھوڑ کر کوئی اور کام کر لیں۔ لیکن اگر آپ ایک تنخواہ پر ایک ڈیوٹی پر آ گئے ہیں تو پھر اپنے خدا کو حاظر اور ناظر جان کر اپنی ڈیوٹی سے انصاف کریں۔ٹھیک ہے کہ موجودہ وقت میںکرونا سے لڑنے کی تیاری اپنی جگہ۔ لیکن اس سب میں کسی نے سوچا ہے کہ ایسے تمام ہسپتال جہاں کرونا سے قبل کوئی بیڈ خالی نہیں ملتا تھا وہ اس وقت عملی طور پر خالی پڑے ہیں۔ کیا یہ سوال پوچھنا نہیں بنتاکہ دیگر بیماریوں میں مبتلا مریض اس وقت کہاں ہیں اور کس حال میں ہیں؟ زندہ ہیں یا بغیر علاج معالجے کے اللہ کو پیارے ہو رہے ہیں؟ سانس کی ہر بیماری میں مبتلا ہر مریض اور ہر قسم کے بخار میں مبتلا ہر شخص کو کرونا سمجھ کر کرونا یا آئیسولیشن میں بھیجنے کی کوشش کا نتیجہ کیا ہوگا؟ ایسے ہر مریض کو کہا جا رہا ہے کہ پہلے کرونا کا ٹیسٹ کروائیں پھر یہ فیصلہ ہو گا کہ کیا کرنا ہے ۔ ٹیسٹ کا رزلٹ آنے میں اگر تین چار وز لگتے ہیں تو ان تین چار دنوں کے دوران ان مریضوں کی زندگی کی کیا ضمانت ہے؟ اس دوران وہ مریض کہاں جائیں؟ اس درد کو صرف وہ لوگ سمجھ سکتے ہیں جن کے کسی پیارے کو کسی وجہ سے آجکل میں کسی ہسپتال جانا اور یہ سب کچھ سہنا پڑا ہے۔
حکومت کو اس صورتحال کا فوری نوٹس لے کر اس سلسلے میں کوئی سنجیدہ پالیسی بنانی چاہئیے۔ کرونا کی وبا اپنی جگہ، لیکن دیگر بیماریاں ختم نہیں ہوئیں، اور ان میں مبتلا مریض ہمارے ہر شہر ، گلی محلے میں موجود ہ اور ہماری توجہ اور علاج کے مستحق اور منتظر ہیں۔ سکول کالج اور شاپنگ مال تو بند کئے جا سکتے ہیں، لیکن آپ کسی مریض کا علاج کیسے بند کر سکتے ہیں؟ خدا کے لیے اس غیر اعلان شدہ ’’ لاک ڈائون‘‘ کو ختم کروائیںاور اذیت میں مبتلا عوام کے لیے کوئی راستہ کوئی پالیسی بنائیں۔ کرونا کے مریضوں کی تعداد اس وقت پچیس تیس ہزار ہے لیکن دیگر بیماریوں میں مبتلا مریضوں کی تعداد لاکھوں کروڑوں میں ہے۔
٭…٭…٭
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38