اپوزیشن واویلا کرتی ہے کہ موجودہ حکومت نے مہنگائی کی وجہ سے عوام کا جینا محال کر دیا ہے۔ بجلی ، گیس مہنگی کا رونا رویا جا رہا ہے۔ یہ باتیں درست ہیں مگر اتنی جلدی کیوں ہے؟ ملک چلانا کوئی آسان تو نہیں۔ وہ بھی ایسا ملک جسے سابقہ حکومتوں نے کرپشن، لُوٹ مار سے کھوکھلا کر دیا ہو۔ زرداری اور میاں صاحبان کی ’’کارکردگی‘‘ سب کے سامنے ہے۔ اربوں کے مقدمات ان پر بنے ہوئے ہیں۔ چالیس سال ملک کو دونوں ہاتھوں سے کھوکھلا کرنے والے آج آٹھ ماہ میں ہی دودھ کی نہریں بہتی ہو دیکھنے کے متمنی ہیں۔ پانچ سال تو صبر کرو حوصلہ کرو۔ پھر عوام خود فیصلہ کر دیں گے۔ خوشی کا باعث ہے کہ آج مریم اورنگ زیب ، خورشید شاہ ، بلاول زرداری، حمزہ شہباز کو بالخصوص اور دیگر متوالوں اور جیالوں کو بالعموم غریبوں کی یاد ستائے جا رہی ہے۔ ان سب کو وطن عزیز کے غریبوں کے ساتھ آج کل جو ’’ہمدردی‘‘ دیکھنے کو مل رہی ہے اس کی مثال بھی نہیں ملتی۔ یہ الگ بات ہے کہ اُنہوں نے اپنے دورِ حکومت میں غریبوں کی طرف سے آنکھیں اور کان بند رکھے۔ ’’مولانا‘‘ فضل الرحمن صاحب تو پہلے دن سے ہی حکومت گرانے کی جدوجہد میں ’’مست‘‘ ہیں ۔ مدت بعد ’’مولانا‘‘ صاحب کو کشمیر کمیٹی کے چیئرمین کا عہدہ نصیب نہیں ہوا۔ ورنہ آمر کی حکومت ہوتی یا ن لیگ اور PPP کی حکومت ہوتی ’’مولانا‘‘ کا عہدہ پکا ہوتا تھا۔PTI کا ایک کام بھی ان کو اچھا نہیں لگ رہا۔ بھئی آپ دونوں پارٹیوں نے عوام کو صحت ، تعلیم، دیگر بنیادی مسائل حل کر کے دئیے ہوتے تو آج یہ صورتحال بالکل نہ ہوتی۔ کیا آپ کے ادوار میں بجلی، گیس مہنگی کبھی نہیں ہوئی تھی؟ مہنگائی کبھی نہیں کی گئی تھی؟ ذرا اپنے گریبانوں میں جھانکیں جواب مل جائے گا۔ ہمیں یاد ہے کہ ن لیگ کو شاید زیادہ پیسوں کی ضرورت ہوئی تو فراڈ سے بجلی کے بھاری بل عوام کو بھیج کر اربوں روپے اکٹھے کر لئے۔ بعد میں بجلی کے وزیر نے اِس کی وجہ ’’مصومانہ‘‘ انداز میںیہ بتائی تھی کہ میٹر ریڈر کم تھے اس لئے ایسا ہوا۔ عوام کو بے وقوف بنانا آسان نہیں بلکہ ہم عوام تو شاید سِرے سے ہی بے وقوف ہیں۔ آج جب کرپشن زدہ حکمران مقدمات کے لئے عدالتوں میں حاضر ہوتے ہیں تو جیالے متوالے اُن پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کر رہے ہوتے ہیں اس سے بڑی بدنصیبی اور جاہلیت کیا ہو سکتی ہے؟ ہم نے 9 ویں جماعتکی انگریزی میں ایک سبق پڑھا تھا: ہندوئوں سے پوچھا گیا کہ آپ بتوں کی پُوجا کیوں کرتے ہو تو اُنہوں نے کہا کہ ہمارے باپ دادا بھی پُوجتے تھے ہم بھی پُوجتے ہیں اس طرح کسی بھی پارٹی کے ورکر سے آپ پُوچھیں کہ آپ اس پارٹی کو ووٹ کیوں دیتے ہیں تو وہ کہے گا کہ جی ہمارے بزرگ بھی اس پارٹی کو ووٹ دیتے تھے ہم بھی دیتے ہیں قطع نظر اس کے کہ یہ پارٹی عوام اور ملک کے مفاد میں بہتر ہے یا نہیں۔ زرداری صاحب کی صدارت کا دور ملک کا کرپٹ ترین دور تھا۔ اُس وقت سب اتحادیوں نے ppp کے ساتھ مل کر ملک کو لُوٹا تھا۔ سندھ کے آڈیٹر جنرل کی حالیہ رپورٹ پڑھئیے۔ کرپشن کے انبار نظر آئیں گے۔ خورشید شاہ اور جیالے بھٹو شہید اور محترمہ کی شہادت کے علاوہ بھی زرداری دور کا کوئی ’’کارنامہ‘‘ گنوایا کریں۔ بلاول زرداری موجودہ حکومت کو لات مار کر گِرانے سے قبل سندھ کا تعلیمی نظام بہتر کرنے کی کوشش کریں۔ دسویں اور انٹر کے امتحانات میں کوئی پرچہ ایسا نہیں جو آئوٹ نہ ہوا ہو اور نقل شاید پوری دنیامیں اتنی نہیںہوتی ہو گی جتنی کہ سندھ کے امتحانات میں ہو رہی ہے، بلاول اور جیالوں نے زرداری اور فریال تالپور کی کرپشن چُھپانے کے لئے تو ٹرین مارچ کر لیا ہے مگر جب محترم کو شہید کیا گیا تو اُس وقت محترمہ کے قاتل پکڑوانے کی جدوجہد تو کسی نے نہیں کی آج خورشید شاہ ہر وقت محترمہ کی شہادت کا ہی ذِکر کرتے نہیں تھکتے۔ اپنے ’’کارنامے‘‘ بھی بتایا کریں۔ ان کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی تو زلزلہ زدگان کو ملنے والا ہار بھی گھر لے گئے تھے اور حاجیوں کو بھی بے دریغ لُوٹا گیا تھا۔ عزت اور ذِلت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتی۔ آج اگر اللہ تعالی نے تیسری پارٹی کو عزت دی ہے اور کپتان کو وزیراعظم بنایا ہے تو برداشت کریں۔ صبر سے کام لیں عمران خان ذاتی مفادات اور اپنے عزیزوں کو نوازنے کیلئے کبھی کچھ نہیں کرے گا نہ ہی کبھی اپنے ہاتھ کرپشن سے آلُودہ کرے گا۔ ہمیں یقین ہے کہ آج اگر PPP اور ن لیگ کے مقدمات ختم کر دیئے جائیں اور مولانا صاحب کو کشمیر کمیٹی کا عہدہ سونپ دیا جائے تو سب کچھ ٹھیک لگنے لگے گا۔ کپتان نے دیکھا کہ جو لوگ کام ٹھیک نہیں کر رہے کسی کا لحاظ نہیں کیا میرٹ پر اُن کو بدل دیا۔ ’’مولانا‘‘ صاحب تین ادوار میں کشمیر کمیٹی کے چیئرمین رہے بلکہ اُس عہدے کے ساتھ چمٹے رہے۔ اپنی ’’کارکردگی‘‘ بھی عوام کو دکھائیں۔ منفی صفر سے زیادہ نہیں ہو گی۔ میڈیا اور اپوزیشن والے حوصلے سے کام لیں۔ پانچ سال حکومت کو کام کرنے دیں اگر PTI ڈلیور نہ کر سکی تو عوام خود Reject کر دیں گے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38