ناکارہ سڑکیں‘ مضر صحت پانی خطرناک بیماریاں بڑھنے لگیں
جام پور سے چھ کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع کوٹلہ دیوان کا قصبہ بہت سے مسائل کا شکار ہے۔ کوٹلہ دیوان کو ملانے والی سٹرک راجن پور روڈ سے شہر تک ناکارہ حالت میں موجود ہے۔ اسی طرح نہر کے کنارے سڑک پر جگہ جگہ گھڑھے پڑے ہوئے ہیں ۔ کئی مرتبہ روڈ پر رکشہ اور گاڑیاں الٹنے کی وجہ سے حادثات کے واقعات رونماء ہو ئے ہیں۔شہر میں ایک بنیادی مرکز صحت ہے جہاں پر عملہ کی من مانیوں کی وجہ سے لوگ شکوہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ رات کے وقت میٹرنٹی کے لیے مستقل بنیادوں پر سٹاف کی عدم تعنیاتی کی وجہ سے لوگوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ انسانی بچانے والے ادوایات اور تجربہ کار عملہ کی کمی کی وجہ سے لوگوں کو جام پور شہر کا رغ کرنا پڑتا ہے۔ہسپتال میں وومن میڈیکل افسیر کی تقرری کی وجہ مرد حضرا ت واپس مایوس لوٹ جاتے ہیں۔ سٹاف کے لیے مستقل بنیادوں پر رہا ئش کے لیے کوارٹر نہ ہونے سے ملازمین پریشان ہیںانہیں روزانہ چھ کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے۔ہسپتال میں لیبارٹری ایمرجنسی اور گیس سلنڈر نہ ہونے سے لوگ دیگر شہروں کو رخ کرتے ہیں۔ ایک ہائی سکول ہے جہاں سٹاف کی کمی کے علاوہ جدید کمپیوٹر لیبارٹری اور سائنس لیبارٹری نہ ہونے سے یہاں کے نوجوان آج کے جدید دور میں بھی جدید ٹیکنالوجی کی سہولت سے محروم ہیں۔تعلیمی اور سفری اخراجات برداشت نہ کرنے کی وجہ سے بہت سے نوجوان تعلیم کو خیر باردکہہ دیتے ہیں۔اسی طرح لڑکیوں کے لیے مڈل سکول قائم ہے جوکہ ناکافی ہے۔ یہاں کی طالبات مزید تعلیم کے حصول کے لیے کوٹلہ مغلان اور جام پور کا رخ کرتی ہیں ۔ سیکورٹی حالات ٹھیک نہ ہونے کی وجہ اکثر والدین اپنی بچیوں کو تعلیم ختم کرادیتے ہیں۔ حکومت پنجاب کی پالیسی کے مطابق ہر یونین کونسل میں ہائی سکول موجود ہے لیکن جام پور کی واحد یونین کونسل ہے جہاں طالبات کے لیے کوئی ہائی سکول نہیں ہے۔ یونین کونسل کے دفتر کی عمارت مخدوش ہو چکی ہے جو کسی وقت بھی مہندم ہو سکتی ہے۔ یہاں کے لوگ آج کے جدید دور میں کمپیوٹر کی تعلیم سے بالکل محروم ہیں۔ یہاں کے لوگوں کا زیادہ تر ز ریعہ معاش کھیتی باڑی اور محنت مزدوری ہے۔ تعلیم یافتہ نوجوان ڈگریاں ہاتھ میں لیے مستقل روز گار کے لیے پھر رہے ہیں ۔ خواتین کے لیے کوئی ووکیشنل دستکاری سنٹر نہ ہے ۔اگر اس علاقے میں دستکاری سکول کھولا جائے تو ہزاروںخواتین ہنر سیکھ کرکے ناصر ف باعزت روزگار کما سکتی ہیں بلکہ معشیت میں بھی اہم رول ادا کر سکتی ہیں۔2010کے سیلاب کے بعد یہاں کے علاقوں کا پانی ناکارہ ہو گیا ۔ پانی ٹھیک نہ ہونے سے ہر سال کئی افراد کالا یرقان کی بیماری میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔اور زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں۔ پانی ناکارہ ہو نے کی وجہ سے کالا یرقان کی بیماری کے علاوہ بعض لوگ گلہڑ کی بیماری میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ ان بیماریوں کی روک تھام کے لیے مقامی بنیادی مرکز صحت میں کوئی سنٹر نہ ہے۔ سب سے بڑی بد قسمتی اس شہر کی یہ ہے کہ کوئی ایم بی بی ایس ڈاکٹر نہیں ہے لوگ اتائی کے ہاتھوں لٹنے پر مجبور ہیں۔ صفائی کے لیے کوئی توجہ نہ ہے شہر جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ نالیوں کا پانی گلیوں میں تالاب کی شکل اختیار کر چکا ہے۔۔کئی بار ٹی ایم اے حکام کو اس مسلہ کی طرف توجہ دلائی لیکن کوئی عمل درآمد نہ ہو سکا۔ شہر کی بجلی کا تعلق محمد پور دیوان فیڈر سے ہونے کی وجہ سے کئی روز تک بجلی نہیں ہوتی۔ قبرستان تک جانے والی سٹرک خراب ہو نے کی وجہ قبرستان جانے والے لوگوں کو تکلیف ہو تی ہیں۔ قبرستان کی چاردیواری نہ ہونے سے گدھے گھوڑ ے اور جانوروں کا بسیرا قبرستان میں ہو تا ہے ۔ کئی بار قبریں منہدم ہو چکی ہیں۔ حکومت پنجاب اور ضلع حکومت نے ہر یونین کونسل میں قبرستانوں کی دیواریں مکمل کی ہیں لیکن اس شہر کی طرف توجہ نہ دی گئی ۔ کوئی سپورٹس گراونڈ نہیں ہے ۔ آج کے جدید دور میں لوگ اس سہولت سے بھی محروم ہیں۔اگر روز گارکے لیے فیکٹری لگائی جائے تو کئی لوگوں کو باعزت روزگار مل سکے گا۔