ریا ست‘ ادارے کمزور‘ افراد طاقتور ہو جائیں تو یہ صورتحال خطرناک ہے: خورشید شاہ
اسلام آباد(خصوصی نمائندہ) پارلیمنٹ کی پبلک اکائونٹس کمیٹی نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے اربوں روپے کے ٹیکسوں کے عدالتوں میں زیر التواء مقدمات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے فیصلہ کیا ہے کہ پبلک اکائونٹس کمیٹی اس سلسلے میں چیف جسٹس آف پاکستان کو خط لکھ کر استدعا کرے گی کہ ماتحت عدالتوں کو یہ مقدمات نمٹانے کی جلد از جلد ہدایت کی جائے جبکہ پی اے سی کے چیئرمین سید خورشید احمد شاہ کا کہنا تھا کہ ریاست اور ادارے کمزور ہو جائیں اور افراد طاقتور ہو جائیں تو یہ بڑی خطرناک صورتحال ہے‘ عدالتیں بھی اس معاشرے کا حصہ ہیں‘ عدالتوں کو حکم امتناعی دیتے وقت یہ دیکھنا چاہیے کہ اس سے ملک کا نقصان ہوگا۔ پارلیمنٹ کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کا اجلاس جمعرات کو پی اے سی کے چیئرمین سید خورشید احمد شاہ کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہائوس میں ہوا۔ اجلاس میں ایف بی آر کے 2015-16ء اور 2016-17ء کے آڈٹ اعتراضات کا جائزہ لیا گیا۔ آڈٹ حکام نے پبلک اکائونٹس کمیٹی کو بتایا کہ میسرز حبیب کنسٹرکشن کمپنی نے 2014ء سے ایک ارب 30 کروڑ کا ٹیکس قومی خزانے میں جمع نہیں کرایا۔ ایف بی آر کے چیئرمین طارق پاشا نے پی اے سی کو بتایا کہ اس کمپنی نے لاہور ہائیکورٹ سے حکم امتناعی لے رکھا ہے۔ کمیٹی نے ایف بی آر کو ہدایت کی کہ ایک اچھی لیگل ٹیم کے ساتھ عدالت میں اس کیس کی پیروی کی جائے۔ آڈٹ حکام نے بتایا کہ این ایل سی سمیت مختلف کنسٹرکشن کمپنیوں کے ذمے انکم ٹیکس بقایا جات ہیں۔ پی اے سی نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہے‘ دو سال سے اس معاملے میں کوئی پیشرفت کیوں نہیں ہوئی۔ ایف بی آر کے حکام نے کہا کہ این ایل سی سے مختلف منصوبوں کی کی مد میں جمع کرائے گئے ٹیکسز کی تفصیلات ہم نے طلب کی ہیں۔ این ایل سی نے حبیب کنسٹرکشن سے 245 ملین ٹیکس کی کٹوتی کی مگر کوئی خزانے میں جمع نہیں کرایا۔ ہم نے این ایل سی کو دو نوٹس دیئے مگر جواب نہیں آیا۔ ایف بی آر نے کہا کہ این ایل سی کو تیسرا اور آخری نوٹس بھی دیا گیا ہے، معلوم نہیں کیوں تین نوٹسز کا جواب نہیں دیا گیا ورنہ عموماً ایسا نہیں ہوتا۔ آڈٹ حکام نے بتایا کہ ایف بی آر کے 55 ارب روپے سے زائد کے بقایا جات ہیں ۔ ایف بی آر نے کہا کہ کیسز عدالتوں میں ہیں۔ چیئرمین کمیٹی سید خورشید شاہ نے کہا کہ آپ اپنی کھال بچانے کے لئے عدالتوں کا حوالہ دیتے ہیں۔ ہم بھی پھر یہ پیرے التواء میں ڈال دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہم کیا کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اربوں روپے کی وصولی رکوانے کے لئے دس لاکھ کا وکیل کرکے حکم امتناعی لے لیا جاتا ہے۔ عدالتوں کو بھی حکم امتناعی دیتے وقت دیکھنا چاہیے کہ ملک کا پیسہ ہے جس سے سب کو تنخواہیں ملتی ہیں۔ سید خورشید شاہ نے کہا کہ پبلک اکائونٹس کمیٹی ایف بی آر کے عدالتی مقدمات کی تفصیلات حاصل کرکے چیف جسٹس کو خط لکھے گی اور درخواست کریں گے کہ ماتحت عدالتوں سے جلد فیصلے کروائے جائیں۔ یہ بڑی رقم ہے جو سرکار کی پھنسی ہوئی ہے۔