مستعفی نائب وزیراعلٰی کوحقائق بیان کرنامہنگاپڑا
پروفیسر شہاب عنایت ملک
گزشتہ دنوں ریاست جموں و کشمیر کی کابینہ میں رد و بدل کیا گیا۔ اس ردو و بدل کا انتظار عوام کو کئی دنوں سے تھا۔ چودھری لال سنگھ اور چندر پرشاد گنگا کے کابینہ سے استعفیٰ کے بعد پی ڈی پی۔ بھاجپا اتحاد نے نئے چہروں کو سامنے لانے کا فیصلہ کیا تھا۔ بی جے پی کی طرف سے بڑے پیمانے پر ردو و بدل کیا گیا۔ پرانے چہروں کو ہٹا کر نئے چہروں کو سامنے لا کر بی جے پی نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ یہ ردو و بدل ریاست کو مزید خوشحال بنانے کے لئے کیا گیا ہے۔ ادھر پی ڈی پی نے بھی دو نئے وزراء کو کابینہ میں شامل کر کے ایک نئی ٹیم کااعلان کرتے ہوئے کہا کہ اتحادیوں کی یہ نئی ٹیم ریاست میں بڑے پیمانے پر تعمیر و ترقی کا موجب بنے گی۔ جموں کے کنونشن ہال میں حلف برداری کی تقریب منعقد ہوئی۔ نئے وزیروں کو ریاستی گورنر جناب این این دوہرانے وزیراعلیٰ محبوبہ مفنی اور رام مادھوکی موجودگی میں حلف دلایا۔ اس موقعہ پر رام مادھو نے کابینہ کے ردو و بدل کو معمول کا کام قرار دیتے ہوئے پرانے وزراء کے کام کی تعریف بھی کی اور نئے وزراء کو خوش آمدید کہہ کر اچھا کام کرنے کی امید بھی جتائی۔ رسانہ کیس کے بارے میں انہوں نے کہا کہ چونکہ معاملہ سپریم کورٹ آف انڈیا کے زیر سماعت ہے اس لئے اس پر کچھ کہنا فی الحال زیب نہیں دیتا۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد بی جے پی اپنے اگلے لائحہ عمل کو عوام کے سامنے لائے گی۔
ادھر حلف برداری کی تقریب ختم ہونے کے فوراً بعد نئے نائب وزیراعلیٰ جناب کویندر گپتا نے میڈیا کو ایک متنازعہ بیان دے کر سب کو حیرت زدہ کر دیا ہے۔ رسانہ معاملے پر پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے اس واقعہ کو معمولی قرار دے کر میڈیا کو یہ تلقین کی کہ وہ اس معاملہ کو زیادہ طول نہ دیں یہ بیان سن کر عوام میں جہاں ایک طرف ناراضگی پیدا ہوئی وہاں مختلف قسم کی چہ مگوئیاں بھی شروع ہوئیں اور یہ کہا جانے لگا کہ نرمل سنگھ کو نائب وزیراعلیٰ کی کرسی سے محض اس لئے چلتا کیا گیا کیوں کہ انہوں نے کرائم برانچ کی کارکردگی کو تسلی بخش قرار دے کر رسانہ کیس کی صحیح سمت تفتیش کرنے کے لئے کرائم برانچ کے اہلکاران کو مبارکباد بھی پیش کی تھی۔ کویندر گپتا کے اس پہلے ہی بیان سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ واقعے کو سرسری قرار دیتے ہوئے شائد ملزموں کے حق میں کوئی بڑا رول ادا کریں اسی لئے سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے سماجی ویب سائٹ ٹویٹر پر ٹویٹ کر کے یہ تحریر کیا ہے کہ ایسے حالات میں وزیراعلیٰ کبھی بھی رسانہ متاثرین کو انصاف فراہم نہیں کر سکتی ہیں۔ ان کا انصا ف فراہم کرنے کا وعدہ عوام کی آنکھوں میں آنکھیں دھول جھونکنے کے مترادف ہے۔
یہ بات صحیح ہے کہ رسانہ کیس کو مذہب کے ساتھ اس قدر جوڑا جا چکا ہے کہ ہم لاکھ اسے انسانی مسئلہ کہیں تو کوئی یقین نہیں کرے گا۔ بی جے پی سے ان کا ووٹ بڑی حد تک خفا ہے اس کا براہ راست فائدہ کانگریس اور پنتھرس پارٹی کو ہو رہا ہے یوں لگ رہا ہے کہ کہ کٹر آر ایس ایس بیک گرائونڈ کے نئے نائب وزیراعلیٰ نے اس قسم کا بیان دے کر اپنے ناراض ووٹروں کو خوش کرنے کی کوشش کی ہے ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ اقوام متحدہ میں گونجے ہوئے کیس کو نائب وزیراعلیٰ ایک معمولی واقعہ قراردیں۔
نئی کابینہ میں ایک ایسے ایم ایل اے کو بھی جگہ دی گئی ہے جو ہندو ایکتا منچ کے جلسے اور جلوسوں میں سب سے آگے تھا۔ وہ ہندوا یکتا منچ کی اس ریلی میں بھی لال سنگھ اور چندر پرکاش گنگا کے شانہ بشانہ تھا جس کا انعقاد ملزموں کے حق میں کیا گیا تھا۔ اس ریلی میں کٹھوعہ کے ایم ایل اے راجیو جسروعیہ نے بھی وہی کردار ادا کیا جو لال سنگھ اور چندر پرکاش گنگا نے کیا۔ یعنی سوسائٹی کو مذہبی بنیادوں پر بانٹنے کی کوشش۔ اس سلسلے میں وزیراعلیٰ کو عوام کی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے یہ بات بار بار دہرا رہے ہیں کہ وزیراعلیٰ جس انصاف کی بات کر رہی ہیں وہ آصفہ کے لواحقین کو شاندار اس لئے مل نہ سکے کیوں کہ وزیراعلیٰ ناگپور کے سامنے بالکل سرنڈر کر چکی ہیں۔ ورنہ وہ راجیو جسرونیہ کو کابینہ میں لینے پر احتجاج تو کرتیں اسی بات کو سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے سماجی ویب سائٹ ٹویٹر پر ٹیوٹ کر کے یہ تحریرکیا ہے کہ وزیراعلیٰ رسانہ متاثرین کو ان حالات میں کبھی بھی انصاف نہیں دلا سکتی ہیں۔ اس کی شاید ایک وجہ یہ بھی ہے کہ نئی کابینہ میں بی جے پی نے جن نئے وزراء کو شامل کیا ہے وہ سو فیصد آر ایس ایس کی بیگ گرائونڈ سے تعلق رکھتے ہیں یہ نئے وزراء آئندہ ہندو کارڈ کھیل کر ہر وہ کام کریں گے جس سے ان کا ووٹر خوش رہ سکتا ہے شاید یہی وجہ ہے کہ اب رسانہ عصمت ریزی کیس آہستہ آہستہ ٹھنڈے بستے کی نذر ہو کر رہ جائے گا ۔
پی ڈی پی بھاجپا اتحاد کو ریاست میں سرکار چلاتے ہوئے تین سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے۔ ریاست میں امن قائم کرنے اور ریاست کو ترقی کی راہوں پر گامزن کرنے کے جو بلند بانگ دعوے دونوںپارٹیوں کے لیڈران نے ابتداء میں گئے تھے وہ دعوے کھوکھلے ثابت ہو کر رہ گئے ہیں۔ یہ سرکار ایک ایجنڈا آف الائنس کے تحت وجود میں آئی ہے لیکن تین سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود ابھی تک اس ایجنڈا آف الائنس کے کسی ایک پہلو پر بھی سرے سے کام ہوا ہی نہیں ہے ۔جس کی وجہ سے دونوں اتحادیوں کی ساکھ عوام میں زیرو ہو کر رہ گئی ہے۔ جموں میں بی جے پی عوام کے نشانے پر ہے تو کشمیر میں پی ڈی پی دونوں جماعتوں نے اپنی ساکھ کو واپس بحال کرنے کے لئے کابینہ میں ردو بدل کر کے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ اب نئی ٹیم وہ سب کچھ کرے گی جو پرانی نہ کر سکی لیکن ایک بات کا اندازہ کویندر گپتا کے نائب وزیراعلیٰ بننے کے بعد دئیے گئے پہلے ہی بیان سے لگایاجا سکتا ہے کہ اب رسانہ کیس کے سلسلے میں وزیراعلیٰ کے لب بھی خاموش ہی رہیں گے۔
بشکریہ ’چٹان‘ سری نگر