افسوس!بے شمار سخن ہائے گفتنی
بات پھر ایک محاورے سے شروع کرتے ہیں’’چھاج توچھاج چھلنی بھی بولے‘ جس میں 2سو چھید‘‘ یہ اس موقع پر کہاجاتا ہے جب کالی بھینس کوے کو اس کی سیاہی پر لعن طعن کرے آج کل میدان سیاست میں الیکشن 2018ء کا طبل بج چکا ہے سیاستدان لائو لشکر سمیت ایک دوسرے کو دعوت مبازرت دے رہے ہیں للکارا جارہا ہے ایسے میں کچھ دوسروں کولوٹا ہونے کا طعنہ دے رہے ہیں اوروہ لوگ جو جدی پشتی’’وفا فروش‘‘ ہیں برطانوی عہد کے ’’ٹوڈی‘‘یونینسٹ‘بعد تقسیم کی ری پبلکن ‘کنونشن‘ پی پی‘ضیاء لیگ‘ جونیجو لیگ‘مشرف دور میں عہدے سنبھانے اورمال سمیٹنے والے کہتے ہیں؎
دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں
پاکستا ن میں کوئی اپوزیشن نہیں سب ٹریژری بنچز پر بیٹھے ہیں جماعت اسلامی ‘تحریک انصاف ‘عوامی نیشنل پارٹی‘ جے یو آئی ف‘ جے یو آئی س‘ قومی وطن پارٹی‘بلوچستان نیشنل پارٹی‘ ق لیگ‘ مسلم لیگ ن‘ پختونخواہ ملی عوامی پارٹی‘ پیپلز پارٹی سمت تمام جماعتوںکی چاروں صوبوں اوروفاق نیز گلگت بلتستان اورآزاد کشمیر میں حکمرانی ہے جو یہاں منصب نہ سمیٹ سکے وہ اضلاع میں بلدیات کے سربراہ ہیں اورشومئی قسمت جنہیں یہاں کچھ نہ مل سکا اس کیلئے 20برس کی تاریخ اٹھائیں تو وہ دو عشروں کی حکومت کا حصہ رہے ہیں یہ تک ہوا کہ وفاق میں فنکشنل لیگ پی پی کی اتحادی تھی تو سندھ میں حزب مخالف‘ پیر صدرالدین راشدی یونس سائیں وفاقی وزیر اور جام مدد علی قائد حزب اختلاف؎
چٹ بھی میری‘پٹ بھی میری
ایسا ہی ان دنوں سندھ میں دیکھاجارہا ہے متحدہ پاکستان پی آئی بی بند گلی میں ہے‘ ایم کیو ایم بہادرآباد کا یارانہ ن لیگ کے ساتھ چل رہا ہے اورسندھ میں صفدر عباسی ‘فنکشنل لیگ‘ قومی عوامی تحریک‘ ن لیگ کے منحرف اوربعض دیگر ایک پلیٹ فارم پر ایک نشان ایک منشور کے ساتھ ایک جھنڈے تلے انتخاب لڑنے کا اعلان کرچکے ہیں دوسری طرف علی گوہر مہر ہیں جو اپنی دکان علیحدہ سجا کر رابطے استوار اورراستے ہموار کررہے ہیں پھر شہباز شریف نے بھی کراچی کے یکے بعد دیگر دو دورے کرکے فعالیت کا اشارہ دیا ہے لیکن ن لیگ کے داخلی خلفشار پر ان کی نگاہ نہیں اسی ہفتے حیدرآباد میں جو کچھ ہوا اور عین صوبائی الیکشن کے وقت اسے کسی طور خوش گوار نہیں کہاجاسکتا پھرہمارا میڈیا ہے ایسا ہی پی پی ‘ تحریک انصاف یا جماعت اسلامی کے اجتماع میں ہوتا تو آسمان سرپراٹھالیاجاتا لیکن یہاں چپ سادھ لی گئی۔
جیسے کہ دور کا بھی اب
عشق سے واسطہ نہیں
الیکشن کی آمد آمد ہے عوام کیلئے اچھا موقع ہے کہ وہ دیکھیں‘سوچیں ‘پرکھیں کون ان کے لئے بہتر ہے‘کس کا منشور مشکلات کا حل‘ درد کا مداوا بن سکتا ہے۔ وہ کون تھے جو برے بھلے میں ساتھ رہے کون ہیں جو پانچ برس بعد حال احوال لینے پہنچے ہیں ہمیں دیکھتی آنکھوں کھلے کانوں فیصلے کرنے ہیں اندھے صرف عقل کے ہی نہیں ہوتے۔ مرحوم نثار عثمانی (پی ایف یو جے والے) کا تجزیہ تھا کہ جسے رات کو دکھائی نہ دے وہ نائٹ بلائنڈ نس‘جسے رنگ دکھائی نہ دیں وہ کلر بلائنڈ نس اورجسے اقتدار میں آکروہ کچھ دکھائی نہ دے جو جدوجہد کے دنوں میں سجھائی دیتا ہو وہ پاوربلائنڈ نس ہے اورسچ یہ ہے کہ رات میں اشیاء اوررنگوں میں امتیاز نہ کرنے والے تو قابل معافی ہیں کہ شناخت نہ کرنا ان کے بس کی بات نہیں لیکن جو اچھے دنوں میں مشقت کے ایام کی تلخیوں اورساتھیوں کو بھلادے وہ اعتماد کھو بیٹھتا ہے جمہوریت بلاشبہ انتقام لیتی ہے بھروسہ کھوجانے والے راندہ درگاہ ہوجاتے ہیں ووٹ کی پرچی بسا اوقات برچھی بھی بن جاتی ہے اوربننا بھی چاہیے جو پانچ برس ایوانوں میں نہ جائیں‘ ایک لفظ نہ بولیں‘چپ کی چادر اوڑھ لیں اورخیمہ عافیت میں گوشہ راحت تلاش کریں ان کو ووٹ کی پرچی سے شکست دینی چاہیے تاکہ ایوانوں میں صرف تنخواہ بڑھنے کے قانون ہی نہیں عوام کی مشکلات کے خاتمے کا بل بھی منظور ہو ہمارے قانون سازوں کو کتاب الحیلہ اور موضوع التاویل کے وہ تمام اسباق ازبر ہیں جو کبھی دینی مدارس کے نصاب کا حصہ ہوا کرتے تھے اورمنطق کا علم بھی مولانا فضل الرحمن اورعلامہ جاوید غامدی کی طرح‘ چینی کہاوت ہے اس آدمی سے بچو جو موضوع کی حمایت اور مخالفت میں بول سکتا ہو۔ دو منہ کا سانپ کسی بھی سمت سے نشانہ بنا سکتا ہے۔ کینجھر سے کارونجھراورکیماڑی سے کموں شہید تک دکھ بکھرے ہیں۔ ہزاروں لفظ لکھنے کا یارا اوربولنے کا حوصلہ ہے مگر؎
افسوس بے شمار سخن ہائے گفتنی
خوف فساد خلق سے ناگفتہ رہ گئے
٭٭٭٭٭