ہماری تاریخ کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم نے اپنی تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا ، ھر طرح کے اخلاقی یا معاشرتی اسباق کے لیے ہماری نظریں اقوام مغرب کی طرف اٹھتی رہی ہیں حالانکہ خود ہماری اپنی تاریخ میں ایسی درخشان مثالیں پائی جاتی ہیں جس سے متعد بہ مسائل کی گتھی سلجھائی جاسکتی ہے۔فتنہ و الزام تراشی تاریخ کا ایک ایسا حصہ ہے جس سے کوئی بھی محفوظ نہیں رہا دنیا کے عظیم بادشاہوں کو تو چھوڑیئے کیونکہ وہ بادشاہ تھے فتنہ گروں نے عظیم مصلحین کو بھی اس ضمن میں نہیں بخشا بائبل کے مطابق مالی کرپشن کا الزام ایک بدبخت اسرائیلی نے ہی حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسی شخصیت پر لگا دیا اور نتیجتاً عذاب خداوندی کا شکار ہوا ، ایک خداشناس بندے کے حق میں ایک نوزائیدہ بچے کو گواہی دینی پڑی کہ یہ بے قصور ہے اور واقعہ افک تو اس بات پر دلیل ہے کہ فتنہ گروں نے امی عائشہ ؓ جیسی پاکیزہ ہستی پر الزام تراشی کردی۔اگر ان الزام تراشیوں کے سلسلے کو غور سے دیکھا جائے تو واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ فتنہ گروں کا اصل مقصد کسی نام نہاد کرپشن کا خاتمہ نہ تھا بلکہ وہ ان لوگوں کے بلند کردار اور عوام میں قبولیت عامہ سے اس قدر خوفزدہ تھے کہ انکی شہرت کو داغدار کرنے کے لیے ان کے پاس جھوٹے الزامات لگانے کے اور کوئی چارہ کار نہ تھا اور وہ ان انسانی تاریخ کے ان عظیم رہنماوں کو اس مقام سے گرانا چاہتے تھے جو کے اللہ نے انہیں عطا کررکھا تھا ، تاریخ ہمیں یہ سبق سکھاتی ہے کہ الزام لگانے والوں کامطمع نظر ہمیشہ یہی رہا ہے کہ باکردار ہستیوں کو انکے مقام سے گرا دیا جائے نہ کہ انکا مقصد یہ تھا کہ کرپشن کا خاتمہ ہوجائے کیونکہ اخلاقی و مالی لحاظ سے دیوالیہ اشخاص سے یہ توقع رکھنا کہ وہ کرپشن کے خاتمے کے لیے سنجیدہ ہیں بذات خود ذہنی کرپشن کی ایک مثال ہے۔ الدالزم و باکردار لوگوں کا ہمیشہ سے یہ وطیرہ رہا ہے کہ انہوں نے کبھی بھی ان فتنہ گروں کے سامنے ہار نہیں مانی اور نہ کبھی اپنے عہدوں سے مستعفی ہوئے ایک بدو نے جب اٹھ کر حضرت عمرؓ پر کرپشن کا شبہ ظاھر کیا کہ جو کپڑا بانٹا گیا تھا اس سے آپ کی قمیض کیسے بن گئی تو انہوں نے کرپشن کے اس شبے کا ازالہ ایک عام مسلمان کے طور پر ضرور کیا لیکن خلیفہ کے عہدے سے استعفی نہیں دیدیا ، حضرت علیؓ پر جب ایک یہودی نے زرہ کے مسئلے پر دعوی دائر کیا اور حضرت علیؓ جوابا محض اپنے بیٹے کو ہی بطور گواہ پیش کرسکے اور قاضی نے اسلامی عدل و انصاف کا عظیم مظاھرہ کرتے ہوئے وہ گواہی رد کردی اور حضرت علی ؓ اپنے موقف کو سچا نہیں ثابت کرپائے تو اس پر امت کے کسی فرد نے ان سے استعفی کا مطالبہ نہیں کردیا کیونکہ امت کو حضرت علی ؓ پر یقین تھا چاہے ظاھری نظر میں وہ کوئی ثبوت پیش نہ کرسکے۔
تاریخ میں مالی کرپشن کے سب سے گھٹیا الزامات حضرت عثمان ؓ پر لگائے گئے اپنے اعزہ و اقارب میں مال بانٹنے ہیں اور اپنوں کو گورنر و اعلی عہدے دار مقرر کرتے ہیں اور ان الزام لگانے والوں کی چیرہ دستی اس حد تک پہنچی کہ حضرت عثمان ؓ کی واضح وضاحت کے باوجود وہ محض اسی بات پر مصر رہے کہ حضرت عثمان ؓ کو عہدہ خلافت چھوڑ دینا چاہیے ،اس سے واضح معلوم ہوتا ہے کہ انکا مقصد کرپشن کا خاتمہ نہ تھا بلکہ اپنے ذاتی اغراض و مقاصد کی تکمیل تھی چاہے اس کے لیے انہیں حضرت عثمانؓ جیسے شخص کے خون سے ہاتھ رنگنے پڑے اور پوری امت میں فتنہ ڈالنا پڑا۔
الزام تراشی و فتنہ گری کی اس تاریخ میں کئی امریکن صدور کا نام بھی آتا ہے جن پر انکے مخالفین مسلسل کرپشن کا الزام لگاتے رہے لیکن انہوں نے اس صورتحال کا ڈٹ کر مقابلہ کیا نہ استعفیٰ دیکر منصب چھوڑ دیا۔ تھامس جیفرسن امریکہ کے پہلے صدر جارج واشنگٹن پر مسلسل کرپشن اور غداری کا الزام لگاتے رہے تھامس جیفرسن کوئی معمولی شخصیت نہ تھے یہ بعد میں خود امریکہ کے صدر منتخب ہوئے اور شامت اعمال میں خود ہی ایک بے گناہ شخص کو کرپشن و غداری کے الزام میں پکڑنے کیوجہ سے اپنا سیاسی کیریر ہی ختم کروا بیٹھے ، ابراہام لنکن کے وزیر جنگ کو کرپشن کے الزامات کیوجہ سے مستعفی ہونا پڑا لیکن بذات خود ابراہام لنکن سے استعفیٰ طلب نہیں کیا گیا ، صدر روزویلٹ کے خلاف جب کوئی اوربات نہ ملی تو ری پبلکن نے انکی شہرت کو داغدار کرنے کے لیے یہ الزام لگادیا کہ انہوں نے اپنے کتے کو واپس لانے کے لیے جسکو وہ ایک جزیرے میں اپنے خاندان کے ساتھ ایک سیر سے واپس آتے ہوئے بھول آئے تھے ، ٹیکس کے پیسوں سے تیارشدہ ایک بحری جہاز کو بھیج دیا ، صدر روزویلٹ نے اس الزام کا بڑا خوبصورت جواب دیا اور کہا کہ ’’ری پبلکن رہنما الزام لگاتے ہوئے فقط مجھ تک ، میرے خاندان تک ہی محدود نہیں رہے بلکہ اب اس ضمن میں میرے کتے کو بھی گھسیٹ لائے ہیں !‘‘صدر روزویلٹ کا یہ جملہ فتنہ گروں کی ذہنیت کی مکمل عکاسی کردیتا ہے کہ اپنے موقف کو سچا ثابت کرنے کے لیے وہ کہاں تک گر سکتے ہیں۔پاکستانی سیاست جو کہ سپریم کورٹ کے فیصلے بعد سنبھل جانی چاہیے تھی ایسے ہی فتنہ گروں کے بے جا مطالبوں کی وجہ سے دن بدن اور الجھتی جارہی ہے اور اب تو بس یہی امید کی جاسکتی ہے کہ اگر وزیر اعظم صاحب اور انکا پورا خاندان سپریم کورٹ کی طرف سے تجویز کردہ کمیشن کی تحقیقات کا سامنا کرکے اگر بے گناہ قرار بھی پاگیا تو یہ انکے پالتو جانوروں کو اپنے مذموم مقصد کی بارآوری کے لیے کسی سیکنڈل میں مبتلا کردیں گئے!میری تو وزیر اعظم نواز شریف سے یہی درخواست ہے کہ حضرت عثمان ؓ نے باغی فتنہ گروں کی طرف سے مالی کرپشن کے الزامات اور استعفی کے مطالبہ کے باوجود بحکم رسول اس مطالبے کو ماننے سے انکار کردیا تھا کیونکہ اللہ کے رسول نے انہیں پہلے ہی بتا دیا تھا کہ اے عثمان تجھے ایک کرتہ پہنایا جائے گا اور پھر اسے اتارنے کا کہا جائے گا تو اسے مت اتارنا ،عوامی اعتماد اور الیکشن میں جیت ایک ایسا ہی کرتہ ہے جو کہ پاکستانی عوام نے میاں نواز شریف کو پہنایا ہے اور میاں نواز شریف نے اپنے آپ کو اور اپنے خاندان کو عدالت عظمی کے سامنے پیش کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ اس کرتے کے اہل ہیں اور کسی فتنہ گر کے کہنے پر یہ کرتہ نہیں اتارنا چاہیے جنکا مقصد کرپشن کا خاتمہ نہیں بلکہ اپنے مذموم سیاسی عزائم کی تکمیل ہے۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024