دس سالہ دور حکومت میں حضرت عمر فاروق ؓ نے نہ صرف روم اور ایران جیسی سپر طاقتوں سمیت 22 لاکھ مربع میل علاقہ فتح کیابلکہ کرپشن سے پاک ایسا منصفانہ نظام قائم کیا جس کی دنیا میں نظیر نہیں مل سکتی۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ جو حکمران عدل کرتے ہیں وہ راتوں کو بے خوف سوتے ہیں۔عمر ؓ دنیا کے واحد حکمران تھے جو کہتے کہ اگر فرات کے کنارے کوئی کتا بھی بھوک سے مر گیا تو اسکی سزا عمر(حضرت عمرفاروق ؓ) کو بھگتنا ہوگی۔ آپ نے باقاعدہ طور پر پو لیس اور عدالتی نظام کی بنیاد رکھی اور فرماتے تھے ظالم کو معاف کر دینا مظلوموں پر ظلم ہے۔ انسانی حقوق کے حوالے سے آپ اس حد تک دو ٹوک تھے کہ کہتے ’’ مائیں تو بچوں کو آزاد پیدا کرتی ہیں تم نے انہیںغلام کب سے بنا لیا،،۔آپ نے دنیا میں پہلی بار گورنر،سرکاری عہدیداراور والی سمیت حکمران طبقے کے احتساب کا نظام رائج کیا۔جسے سرکاری عہدے پر تعینات کرتے اسکے اثاثوں کا تخمینہ لگوا کر پاس رکھتے اور سرکاری عہدے کی مدت کے دوران اثاثے بڑھنے کے صورت میں بلا تخصیص احتساب کرتے۔ گورنروں کی تعیناتی پر انہیں واضح طور پر نصیحت کرتے کہ ان کیلئے ترکی گھوڑے پر بیٹھنا،باریک کپڑا پہننا ،چھنا ہوا آٹا کھانا، دروازے پر دربان رکھنا اور کسی فریادی پر دروازہ بند کرنا ممنوع ہے۔ ضابطہ اخلاق کی بعض خلاف ورزیوں پر آپ نے حضرت سعد بن ابی وقاص کو کوفہ کی گورنری سے فارغ کر دیا، حضرت عمرو بن العاص ؓ کا مال ضبط کر لیا اور حمص کے گورنر کو واپس بلا کر بیت المال کے اونٹ بکریاں چرانے پر لگا دیا۔آپ کا فرمان تھا کہ قوم کا سردار قوم کا سچا خادم ہوتا ہے وہ عوام کی مشکلات سے آگہی اور انکی خدمت کیلئے راتوں کو پہرہ دیتے۔ خود آرام کیلئے سر کے نیچے اینٹ رکھ کر زمین پر سو جاتے اور کبھی انکے دسترخوان پر دو سالن نہ ہوتے۔ موٹا کھردرا کپڑا پہنتے اور کرتے پر چودہ چودہ پیوند ہوتے ۔انکے نزدیک قوم کو ایسی مائوں کی ضرورت تھی جو کردار اور اسلامی احکامات پر پختہ یقین رکھتی ہوں۔ ماں کے اصرار کے باوجود دودھ میں پانی ملانے سے انکار کرنے والی جونپڑی کی رہائشی مگر صاحب کردار بچی کو اپنی بہو بنا کر آپ نے ثابت کر دیا کہ دولت شہرت خاندانی حیثیت کی بجائے کردار اور سچائی کوان کی ترجیحات میں کس قدر مقام حاصل تھا۔ واضح رہے کہ عمر بن عبدلعزیز جنہیں کرپشن سے پاک منصفانہ نظام بحال کرنے کی وجہ سے تاریخ میں عمرثانی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اسی جوڑے کی نسل سے پیدا ہوئے۔ عدل فاروقی کے معیار کا اندازہ اس واقعہ سے ہی ہو جاتا ہے کہ جب آپ کا انتقال ہوا تو آپ کی سلطنت کے دور دراز علاقے کا ایک چرواہا بھاگتا ہوا آیااور چیخ کر بولا ’’ لوگو! عمرؓ کا انتقال ہو گیا ،، لوگوں نے حیرت سے پوچھا ’’ تم مدینہ سے ہزاروں میل دور جنگل میں ہو تمہیں اس سانحے کی خبر کس نے دی،،۔چرواہا بولا’’ جب تک حضرت عمر ؓ زندہ تھے ،میری بھیڑیں جنگل میں بے خوف پھرتیں اور کوئی درندہ انکی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتا تھا ،لیکن آج پہلی بار ایک بھیڑیا میری بھیڑ کا بچہ اٹھا کر لے گیا ۔ میں نے بھیڑیے کی اس جرأت سے جان لیا کہ آج حضرت عمرؓ دنیا میں موجود نہیں،،۔شہادت کے وقت آپ مقروض تھے اور آپ کی وصیت کے مطابق 22 لاکھ مربع میل علاقے پر حکمرانی کرنیوالی اس عظیم ہستی کا واحد مکان بیچ کر یہ قرض ادا کیا گیا۔اگر ہم اپنے گریبانوں میں جھانکیںتو ہمیں اپنے دامن میں ندامت کے سوا کیا نظر آسکتا ہے۔ ہمارے درمیان آج کتنے لوگ ہیں جو دل پر ہاتھ رکھ کر کہہ سکیں کہ ہمارے اسلاف نے عدل و انصاف، ایمانداری، سادگی، کردار، سچائی اور احساس کا جو معیار قائم کیا اس کا عشر عشیر بھی ہماری ترجیحات میں شامل ہے۔ قوموں کی زندگی میں منزل کے تعین کا مرحلہ انتہائی اہم ہوتا ہے جو کہ ہمارے بزرگوں نے علامہ محمد اقبال ؒ کے تصورات کی روشنی اور قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی ولولہ انگیز قیادت میںنظریہء پاکستان کی شکل میں مسلمانان ہند کیلئے واضح کر دیا تھا۔ آزادی کے حصول پر قائد اعظم ؒ نے اپنے ابتدائی خطاب میں بھی کرپشن اور اقرباء پروری کی لعنت سے پاک عادلانہ نظام کی ضرورت پر زور دیکر منزل کے تعین کے حوالے سے کوئی ابہام باقی نہیں رہنے دیا۔ مگر قوم کی قسمت میں لاکھوں قربانیوں کے بعد بھی کئی امتحان ابھی باقی تھے جو قائد اعظم ؒ کی زندگی نے ساتھ نہیں دیا۔ قوم ابتداء میں ہی اپنے عظیم قائد کی قیادت سے محروم ہوگئی۔اب قوم کے پاس متعین شدہ منزل کی شناخت کا واحد ذریعہ اسلامی تعلیمات ، قائد اعظم ؒ اور علامہ اقبال ؒ کے افکار پر مبنی تمدن ہی رہ جاتا ہے جس سے نئی نسل کو روشناس کرانے کی اصل ذمہ داری بھی لامحالہ حکومت پر عائد ہوتی ہے اور ان تعلیمات سے نئی نسل کو روشناس کرانے کا مقصد نوجوان نسل کی کردار سازی اور قوم کو کرپشن اور اقرباء پروری سے پاک مساوی حقوق پر مبنی عادلانہ نظام کیلئے ایجوکیٹ کر نا ہوتا ہے تاکہ قوم کرپشن،اقرباء پروری اور دھونس کو مسترد کر کے قانون کی حکمرانی اور صحیح معنوں میں جزاء اور سزا پر مبنی منصفانہ نظام کیلئے دل و جان سے تیار ہوسکے جس میں شفاف اور بلا تخصیص احتساب کی ضمانت ہو۔جہاں کوئی ملکی دولت لوٹنے اور منی لانڈرنگ کرنے کی جرأت نہ کر سکے۔ کردار سازی کی مہم کے نتیجے میں یقینی طور پر مثبت ذہن کی نشوونما ہوتی ہے لہٰذا قانون شکن عناصر کی تعداد میں کمی واقع ہونا فطری امرہوتا ہے۔ پالیسی سازوں کی طرف سے تعلیمی نصاب کو با مقصد بنایا جا ئے تو نوجوان نسل کی کردار سازی جیسے ارفع مقصد میں کامیابی کی امید کی جا سکتی ہے ورنہ جہالت ،جھوٹ اور بد عنوانی سے لبریز معاشرے میںعا میانہ نظام ڈیلور کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوتا ہے۔ مگر سمجھ سے باہر ہے کہ معاشرے میں حد درجہ اخلاقی انحطاط کے ماحول کے باوجود نوجوان نسل کیلئے نصاب تعلیم کو مزید بہتر اور با مقصد بنانے کی بجائے مفید اور بامقصد مواد مثلاً نظریہء پاکستان،حضرت عمرفاروقؓ ، مسدس حالی،ایثار،فاطمہ بنت عبداللہ، شان تقویٰ، طلوع اسلام، رب کائنات، محسن انسانیت، ابوبکر صدیقؓ اورجہادجیسے اسلامی اور علامہ اقبالؒ کے افکار و اشعار پر مبنی قومی موضوعات کو تعلیمی نصاب سے خارج کر کے پرستان کی شہزادی، شہد کی مکھیوں کے ہاتھوں ہندو مالی کی موت جیسے موضوعات نصاب میں شامل کر کے نئی نسل کو کیا پیغام دیا گیا ہے اور قوم کی کیا خدمت کی گئی ہے حالانکہ تعلیمی نصاب اس طرح سے مرتب کرنے کی ضرورت ہے کہ ہر یونیورسٹی گریجوایٹ قرآن کے نمایاں موضوعات سے آشنا ہو۔انہیں اقبالؒ کے افکار سے بھی آگہی ہو۔مگر اسکے بر عکس یہاں تو بامقصد موضوعات کو نصاب سے ہٹانے کی کوشش کی گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہماری سمت درست ہے؟ ہمیں کیوں نظر نہیں آتا کہ ہم اپنی اصل منزل کی جانب محو سفر ہونے کی بجائے منزل سے کہیں دور بھٹکے ہوئے اس مسافر کی مانندہیں جس کو اپنی منزل کی تلاش سے کوئی دلچسپی نہیںرہی۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024