پاکستان کے سپہ سالار جنرل اشفاق پرویز کیانی کا یوم شہدا ءپر خطاب متوازن، مثبت اور فکر انگیز تھا البتہ خطاب کے کچھ پہلو ایسے بھی ہیں جن پر اختلاف رائے کی گنجائش موجود ہے۔ پاکستانی قوم مارشل لاءزدہ ہے اور ”میرے عزیز ہم وطنوں“ کی آواز کے خوف میں مبتلا رہتی ہے۔طالبان کی حالیہ دہشت گردی سے عوام کے ذہنوں میں انتخابات کے بروقت انعقاد کے بارے میں شک پیدا ہوگیا تھا۔ سپہ سالار نے دو ٹوک الفاظ میں یہ شک دور کردیا ہے اور یقین دلایا ہے کہ انتخابات ہر صورت میں 11مئی کو ہونگے اور افواج پاکستان آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے صاف، شفاف اور پر امن انتخابات کو یقینی بنائیں گی۔ سپہ سالار پڑھے لکھے کتاب دوست دانشور جرنیل ہیں۔ وہ اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ قومی مفاد کا تقاضہ یہ ہے کہ فوج سیاست سے الگ تھلگ رہے۔ اگر سپہ سالار محب الوطن نہ ہوتے تو سامراجی اشاروں اور جنرل پرویز مشرف جیسے عاقبت نا اندیش ریٹائرڈ جرنیلوں کی ترغیب پر حالات کا بہانہ بنا کر اقتدار پر قبضہ کرلیتے۔ سپہ سالار نے ”انتہائی دباﺅ“ کے باوجود اپنے اور قوم کیلئے آبرومندانہ راستے کا انتخاب کیا ہے اور گزشتہ پانچ سالوں کے دوران جمہوریت کے ساتھ اپنی لازوال کمٹمنٹ ثابت کی ہے۔ انہوں نے درست کہا ہے کہ ”جمہوریت کی کامیابی عوام کی خوشحالی سے منسلک ہے“۔ ہمارے سیاستدان اگر عملی طور پر اس نصیحت پر عمل شروع کردیں تو پاکستان میں جمہوریت تسلسل کیساتھ جاری رہ سکتی ہے۔ عوام خوشحال ہونگے تو جمہوری نظام پر انکا اعتماد مستحکم ہوگا۔
سپہ سالار نے اپنے خطاب میں کہا ”جمہوریت اور آمریت کی آنکھ مچولی کا اعصاب شکن کھیل جزا سزا نہیں بلکہ عوامی شعور اور انکی بھرپور شرکت سے ہی ختم ہوسکتا ہے۔ حکومت کا صحیح معنوں میں عوام کے صحیح نمائندوں کی امانت بن جانا ہی ہمارے تمام مسائل کے حل کا واحد راستہ ہے“۔ سپہ سالار کا یہ تجزیہ درست ہے کہ عوام کو اپنے نمائندوں کا انتخاب سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے اور اقتدار ایسے نمائندوں کے حوالے کرنا چاہیے جو قومی اور اجتماعی مفاد کو ذاتی مفاد پر ترجیح دیں البتہ جزا اور سزا کے بارے میں سپہ سالار کا تجزیہ درست نہیں ہے۔ اسلامی نظام کی بنیاد ہی جزا اور سزا کے فلسفے پر رکھی گئی ہے‘ جس سماج میں جزا اور سزا پر مبنی موثر احتسابی نظام اور قانون کی حکمرانی نہ ہو اس سماج میں عوامی شعور کبھی پروان نہیں چڑھ سکتا۔ آئین اور قانون پر مبنی صاف اور شفاف نظام ہی عوام کے شعور کو بیدار کرنے اور اس میں اضافے کا سبب بنتا ہے‘ اگر جنرل پرویز مشرف کو این آر او (2) کے ذریعے چھوڑ دیا جائے تو عوام میں مایوسی پیدا ہوگی۔ آئین اور قانون پر ان کا اعتماد ہی مجروح ہوجائیگا۔ ان کا شعور زوال پذیر ہوگا۔ آمر کو انصاف کے کٹہرے میں لانے سے ہی عوام میں یہ اعتماد پیدا ہوگا کہ پاکستان میں قانون کا اطلاق سب پر یکساں ہوتا ہے۔ مارشل لاءکا نفاذ آرمی چیف کا ذاتی فیصلہ ہوتا ہے۔ اس میں فوج کے ادارے کی مرضی اور منشا شامل نہیں ہوتی۔ ایسے آمر جرنیل کیلئے فوج کے اندر کوئی نرم گوشہ نہیں ہونا چاہیئے جبکہ وہ خود ہی مکافات عمل کے اصول کے تحت قانون کی گرفت میں آچکا ہو‘ اگر دانشور سپہ سالار اپنے خطاب میں آئین توڑنے والے آمر جرنیلوں کے احتساب کے بارے میں نرم دلی کا اظہار نہ کرتے تو ان کا یہ فکر انگیز خطاب عسکری نصاب کا حصہ بنانے کے قابل ہوتا۔ ایک رپورٹ کیمطابق امریکی کانگرس کے وفد نے جنرل (ر) پرویز مشرف سے خفیہ ملاقات کی ہے۔ اگر امریکہ نے آمر کو قانون سے بچانے کی کوشش کی تو پاکستانی عوام پر اس مداخلت کے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
سپہ سالار نے درست کہا ہے کہ دہشت گردی کیخلاف جنگ پاکستان کی جنگ ہے۔ کسی گروہ کو آئین اور قانون کو توڑ کر ریاست کیخلاف بغاوت اور مسلح کارروائیوں کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ اس سلسلے میں سپاہی کے ذہن کو مشکوک نہیں بنانا چاہیے۔ دہشت گرد معصوم اور بے گناہ پاکستانیوں، مساجد، مزاروں اور امام بارگاہوں کو نشانہ بنارہے ہیں‘ اس لیے عوام اب اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ ہماری بہادر اور غیور افواج پاکستان کی جنگ لڑ کر بے مثال قربانیاں دے رہی ہیں۔ اگر فوج کے جرنیل بارہ سال کے بعد امریکی اتحاد سے الگ ہونے کا فیصلہ کرلیں تو دہشت گردی کیخلاف جنگ کے بارے میں شکوک و شبہات ختم ہو سکتے ہیں۔ جب تک پاکستان امریکی اتحاد سے الگ نہیں ہوگا پاکستان کے دشمنوں اور انتہا پسندوں کو قومی جنگ کے بارے میں غلط فہمیاں پیدا کرنے کا موقع ملتا رہے گا۔جس طرح ریاست کے آئین اور قانون کیخلاف بغاوت کرنیوالوں کی سرکوبی لازم ہے اسی طرح حلف اور آئین توڑنے والے جرنیل بھی کسی نرمی کے مستحق نہیں ہونے چاہئیں‘ جب تک یہ تضاد دور نہیں ہوگا ‘اس وقت تک پاکستان کا قبلہ درست نہیں ہوسکتا۔ جرنیلوں اور سیاستدانوں پر قانون کا اطلاق یکساں ہونا چاہیے۔ دانشور سپہ سالار نے شہداءکو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے تقریب میں سویلین کو بھی شامل کیا ۔ یہ قابل تحسین اقدام ہے جس سے موجودہ جرنیلوں کی دانش اور بلوغت کا اندازہ ہوتا ہے۔ سیاستدانوں کو بھی شہداءکو نذرانہ¿ عقیدت پیش کرنے کیلئے پروقار تقریب کا اہتمام کرنا چاہیے تھا تاکہ پاکستان کا دفاع کرنے والے سپاہیوں کی حوصلہ افزائی ہوتی کہ عوام کو ان کی قربانیوں کا پورا احساس ہے۔
انتخابات کے قریب سپہ سالار کا قوم کو یہ انتباہ بھی برموقع اور برمحل ہے کہ وہ لسانی، سماجی اور فرقہ وارانہ تعصبات سے بلند ہوکر صرف اہلیت، ایمانداری اور نیک نیتی کی بنیادوں پر ووٹ کا استعمال کرے تو پھر نہ آمریت کا خوف ہوگا اور نہ ہی جمہوری نظام کی خامیوں کا شکوہ ہوگا۔ کاش 11مئی کو ووٹ کا حق استعمال کرنیوالے رائے دہندگان اپنے سپہ سالار کی اس نصیحت کو پلے باندھ لیں تو ان کا مقدر سنور جائے۔ عوام قطار میں لگ کر آنکھیں بند کرکے کرپٹ اُمیدواروں کو ووٹ دے دیتے ہیں اور پھر پانچ سال حالات کا ماتم کرتے رہتے ہیں۔ جب تک عوام اچھے نمائندے منتخب نہیں کرینگے ان کو کبھی اچھی حکومت نہیں مل سکے گی۔ سپہ سالار نے اپنے خطاب میں انتہا پسندوں کو قومی دھارے میں واپس آنے کی دعوت دی ہے۔ مذاکرات کا دروازہ کھلا رہنا چاہیے۔ سپر پاور امریکہ بھی آخر کار افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے پر راضی ہوا ہے۔ پاکستان کو بھی تحریک طالبان پاکستان کو مذاکرات کی میز پر لانے کی منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔ انتہا پسندی کو بندوق سے نہیں بلکہ گفتگو اور افہام و تفہیم سے ہی ختم کیا جاسکتا ہے۔
نوجوان دانشور صحافی سلمان عابد نے اپنی معیاری، مستند اور پڑھنے کے لائق کتاب ”پاکستان میں جمہوریت کے تضادات“ میں آمریت کے بارے میں یہ تجزیہ پیش کیا ہے جو جرنیلوں اور موقع پرست سیاستدانوں کے غوروفکر کا متقاضی ہے۔”ہر آمر اپنے سیاسی استحکام کیلئے ایک نیا سیاسی نظام تشکیل دیتا ہے جیسے ایوب خان نے بنیادی جمہوریتوں کو متعارف کروایا تاکہ اسکے ذریعے وہ اپنے اقتدار کو مستحکم کر سکیں۔ ضیاءالحق نے معاشرے کو اسلامی بنانے کی کوشش کی جبکہ پرویز مشرف نے اعتدال پسندی اور روشن خیالی کا نعرہ لگایا لیکن آمرانہ حکومتوں میں تبدیلی کا عمل اوپر سے ہوتا ہے جس میں لوگوں کی شمولیت نہیں ہوتی اور نہ ہی لوگوں کو ذہنی طور پر اس کیلئے تیار کیا جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آمر کے ساتھ ہی اس کا وژن بھی رخصت ہوجاتا ہے اور اس کو بروئے کار لانے میں جو وسائل خرچ ہوتے ہیں وہ سب ضائع جاتے ہیں۔ آمرانہ حکومت کی یہی خرابی ہوتی ہے کہ اس میں ریاست اور اسکے ادارے عوام کی فلاح و بہبود کی بجائے آمر کی شخصیت کو اُبھارنے اور اسکی حفاظت میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ چونکہ آمر کی ذات میں تمام اختیارات مرتکز ہوجاتے ہیں اس لیے لوگوں کو یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ وہی ملک کے حالات کو سنبھال سکتا ہے اور اسے بحرانوں سے نکال سکتا ہے۔ اس کا اثر لوگوں کی نفسیات پر یہ ہوتا ہے کہ وہ جمہوری اداروں اور انکی کارکردگی سے مایوس ہوجاتے ہیں اور آمر کی شخصیت میں انہیں مسیحا نظر آنے لگتا ہے“۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38