بدی کی سلطنت
1998 میں پال وو لفووٹز کا ایک مقالہ شائع ہوا تھا جس میں یہ موقف اختیار کیا گیا تھا کہ مغربی بالادستی کو یقینی بنانے کیلئے ” بدی کی اس ایمپائر “ کو بنیادوں میں ہی کچلنا ضروری ہے جو کسی بھی مرحلے پر اپنی ” فطری توانائی “ کے بل بوتے پر ابھر کر سامنے آسکتی ہے۔ پال وولفووٹز کا اشارہ ” اسلام “ کی طرف تھا ۔ ان ہی دنوں نیو کون تحریک کے سرکردہ مفکروں کا ایک خفیہ اجلاس بھی ہوا جس میں رچرڈ پرل نے ” اسلام “ کو کمیونزم سے کہیں بڑا خطرہ قرار دیا۔ اس نے کہا!
” ہم نے فاشزم کو شکست دینے میں کامیابی اس لئے حاصل کی کہ فاشزم کے پاس کوئی روحانی مکینزم نہیں تھا ۔ کمیونزم بھی بالآخر اس لئے ہماری تہذیب کے سامنے ڈھیر ہوا کہ اس میں روحانی فائر پاور موجود ہی نہیں تھی۔ ہمیں کسی بھی قیمت پر اسلامی خطرے سے چشم پوشی اختیار نہیں کرنی چاہئے۔ بیلاک نے 1938ءمیں بغیر کسی بنیاد کے یہ پیشگوئی نہیں کی تھی کہ اکیسویں صدی اسلام کی واپسی کی صدی بن سکتی ہے۔ اس سے پہلے کہ اسلام ایک سیاسی قوت بن کر سامنے آئے اور مغربی تہذیب کی بالادستی کو چیلنج کرے ¾ ہمیں اپنی فیصلہ کن اور ہلاکتِ آفرین عسکری قوت کو بے دریغ اسلام کیخلاف استعمال کرنا چاہئے۔ میں پانچ ہلالی ممالک کو خطرناک سمجھتا ہوں۔“
یہ جواز نائن الیون کی بدولت پیدا ہوگیا بلکہ کردیا گیا ۔ اسکے بعد جو کچھ افغانستان‘ عراق اور خود پاکستان میں ہواہے اس پرروشنی ڈالنا ضروری نہیں۔
میں ان لاکھوں انسانی جانوں کے بہیمانہ اتلاف کا ذکر نہیں کروں گا جو مغربی تہذیب کی بالادستی کو یقینی بنانے کا خواب دیکھنے والوں کے جنگی جنون کی نذر ہوگئیں۔ یہاں میرا زور صرف اس حقیقت پر ہے کہ ” نائن الیون “ کا نشانہ نہ تو افغانستان تھا اور نہ ہی عراق۔ اس کا اصل نشانہ ”اسلام “ تھا ۔ پروپیگنڈے کی قوت سے اور نہایت کامیاب منصوبہ بندی کے ذریعے ” اسلام “ کو ایک متبادل ” نظامِ حیات “ کے مقام سے ہٹا کر اس الزام کے کٹہرے میں کھڑاکردیا گیاکہ یہ ” دین “ دہشت گردی کی ماں ہے ¾ اس کی کوکھ سے فیض اور امن کو جنم مل ہی نہیں سکتا۔
لیکن تاریخ کبھی ایک مقام پر نہیں رکتی۔ تاریخ آگے بڑھ چکی ہے۔ ترکی میں ایک ایسی حکومت مضبوطی کے ساتھ قدم جما چکی ہے جس کی جڑیں اسلام میں ہیں۔ ایران کا انقلاب آج بھی مغربی استعمار کے سامنے سینہ سپر ہے۔ عراق اجڑ گیا ۔ افغانستان برباد ہوگیا۔ پاکستان تباہی کے کنارے تک پہنچایا جاچکا۔ لیکن مصر تیونس اور لیبیا ناقابلِ یقین انداز میں اچانک اسلام کی گود میں جاچکے ہیں۔
مغربی تہذیب کے علمبرداروں نے ایک سبق ضرور سیکھا ہے اور وہ یہ ہے کہ جو جنگ توپوں بموں‘ میزائلوں اور ڈرون طیاروں سے نازل کی جانے والی بربادی سے نہیں جیتی جاسکی‘ وہ پروپیگنڈے کی اثر آفرین قوت کے ذریعے ضرور جیتی جاسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے متحرک اور فعال میڈیا پر ان آوازوں کا غلبہ بڑھتا چلا جارہا ہے۔
یہ بات یقینی ہے کہ واشنگٹن کے حکمران اپنے کانوں سے ایسی آواز سننا پسند نہیں کرتے جو اسلام کا نام لیتی ہو۔ (ختم شد)