امن و امان کی صورتحال پر موثر اقدامات نہ ہونے پر الیکشن کمیشن کا ایک بار پھر تحفظات کا اظہار
نگران حکومت ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے سے کیوں قاصر ہے؟
چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) فخر الدین جی ابراہیم نے واضح کیا ہے کہ امن و امان کی بہتر صورتحال کے بغیر شفاف انتخابات نہیں کرائے جا سکتے۔ قیام امن قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے شفاف انتخابات کو سازگار پرامن فضا سے مشروط کرتے ہوئے کہا شفاف انتخابات کی ر اہ میں سب سے بڑی رکاوٹ امن و امان کی صورتحال ہے، حکومت اپنی ذمہ داری پوری کرے، عام انتخابات کیلئے تیاری مکمل کر چکے ہیں، منصفانہ، غیر جانبدارانہ انتخابات کے انعقاد کے ذمہ دار ہیں حکومت امن و امان کے بارے میں اپنی ذمہ داری ادا کرے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے الیکشن کمیشن کے ہیڈکوارٹر میں کمیشن کے غیر معمولی اجلاس کے دوران کیا۔ الیکشن کمیشن کے اس اجلاس میں پرامن اور محفوظ انتخابات کیلئے اقدامات کا جائزہ لیا گیا۔ مو¿ثر اقدامات میں پیشرفت نہ ہونے پر الیکشن کمیشن نے ایک بار پھر تحفظات کا اظہار کیا۔
جمہوریت دشمن قوتیں شفاف اور منصفانہ انتخابات کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ بن کر حائل ہو رہی ہیں۔ انہوں نے انتخابی ماحول کو تہس نہس کرکے رکھ دیا ہے۔ تین صوبوں میں تو انتخابی مہم کیلئے سیاست دانوں کا گھروں سے باہر نکلنا مشکل بنا دیا گیا۔ دہشت گردی کی وارداتوں میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ شدت پسند بائیں بازو کی جماعتوں کو ٹارگٹ کرنے کی کھلی دھمکیاں دے چکے ہیں‘ جن پر وہ عمل بھی کرتے ہیں اور بڑی دیدہ دلیری سے ذمہ داری قبول بھی کرلیتے ہیں۔ اطلاعات و نشریات کے وزیر عارف نظامی نے برملا کہا کہ انتخابات کو سبوتاژ کرنے کی اعلانیہ کوششیں کی جا رہی ہیں، امن و امان بنیادی طور پر صوبائی معاملہ ہے لیکن وفاقی حکومت صوبائی حکومتوں کی مدد کو یقینی بنا رہی ہے۔ انتخابات کو سب سے بڑا خطرہ امن و امان سے ہے۔
امن و امان کے موجودہ مخدوش حالات میں عسکریت پسندوں کا نشانہ بننے والی پاکستان پیپلز پارٹی‘ متحدہ قومی موومنٹ اور سب سے زیادہ زخم خوردہ عوامی نیشنل پارٹی انکے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر تیار نہیں ہیں۔ ان پارٹیوں کا مو¿قف ہے کہ ان کو انتخابی عمل سے دور رکھنے کی سازش ہو رہی ہے لیکن وہ انتخابات میں حصہ لینے کیلئے پرعزم ہیں۔یہ مو¿قف انکی جرا¿ت اور جمہوریت سے خلوص کا ثبوت ہے۔ شدت پسند انتخابات کو سبوتاژ کرنے کے ساتھ ساتھ قوم کو تقسیم کرنے کیلئے بھی کوشاں ہیں۔ انکی طرف سے یہ کہنا اسی سلسلہ کی کڑی ہے کہ انہوں نے باقاعدہ فیصلہ کیا ہے کہ مسلم لیگ (ن)‘ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی پر حملے نہیں کرینگے۔
شدت پسندوں کے علاوہ بھی ملک میں ایسے حلقے موجود ہیں جو حیلوں بہانوں سے انتخابی عمل کو برسوں تک مو¿خر کرانا چاہتے ہیں۔ انکی خواہش کو شاید پذیرائی مل جاتی لیکن قوم‘ عدلیہ‘ فوج اور الیکشن کمیشن مقررہ وقت پر انتخابات کرانے کیلئے کمٹڈ پائے گئے ہیں۔ انکے عزم و ارادے میں ذرا لغزش پیدا نہیں ہوئی‘ الیکشن کمیشن شیڈول کے مطابق اپنی تیاریاں جاری رکھے ہوئے ہے‘ پاکستان کا ہر ادارہ شفاف الیکشن کے انعقاد میں الیکشن کمیشن سے تعاون کا پابند ہے۔ الیکشن کمیشن نے فوج سے مدد مانگی تو فوج نے اس پر لبیک کہا۔ آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت انتخابی عمل اور انتخابات کے دوران سکیورٹی اور امن و امان کی صورتحال پر قابو پانے کیلئے 70 ہزار فوجیوں کی تعیناتی کا عمل شروع ہو گیا ہے۔ فوجیوں کی یہ تعداد گزشتہ عام انتخابات میں تعینات ہونیوالوں سے دگنا ہے۔ آئی ایس پی آر کے سربراہ میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ کے مطابق الیکشن کے حوالے سے فوج کو تین اہم ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں۔ پہلی یہ کہ امن و امان اور سکیورٹی کے حوالے سے سول انتظامیہ کی مدد کی جائے۔ بیلٹ پیپرز کی چھپائی اور چھاپہ خانوں کی سکیورٹی دوسری اہم ذمہ داری ہے جبکہ بیلٹ پیپرز کی صوبوں اور متعلقہ مقامات تک ترسیل تیسری اہم ذمہ داری ہے۔ فوج کی نگرانی میں بیلٹ پیپروں کی چھپائی 19 اپریل سے جاری ہے۔ بیلٹ پیپرز کی فضائی اور زمینی، دونوں راستوں سے ترسیل ہو رہی ہے۔ اس کام کیلئے سی ون تھرٹی جہازوں کے علاوہ بلوچستان میں ہیلی کاپٹرز بھی استعمال کئے جا رہے ہیں۔ سکیورٹی پاک فوج کی ہو گی، بیلٹ پیپرز کی تعداد اور درستگی کو الیکشن کمیشن کا عملہ یقینی بنائے گا۔ ہر جگہ فوج مقامی انتظامیہ کے ساتھ رابطہ میں رہے گی۔ پولیس، رینجرز اور دیگر ادارے پولنگ سٹیشنون پر متعین ہونگے، فوجی دستے سریع الحرکت فورس کے طور پر قریب ہی موجود رہیں گے اور طلب کرنے پر مطلوبہ مقام پر پہنچیں گے۔ دوسری طرف حکومتی سطح پر بھی انتخابات کو پرامن بنانے کیلئے بھی کچھ اقدامات کئے گئے ہیں۔ نگران وزیراعظم میر ہزار خان کھوسو کی سربراہی میں نگران کابینہ کے اجلاس میں 11 مئی کو ملکی سرحدیں بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا‘ افغان سرحد تین دن سیل رہے گی جبکہ افغان مہاجرین کو اس دوران اپنی نقل و حرکت محدود رکھنے کی تنبیہہ کی گئی ہے۔ بلاشبہ ہر ادارہ انتخابی عمل کو شفاف اور پرامن بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ شفاف انتخابات کا انعقاد الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے‘ لیکن وہ دوسرے اداروں کے تعاون کے بغیر اس ذمہ داری سے عہدہ برا¿ نہیں ہو سکتا۔ نگران حکومت کی اولین ذمہ داری شفاف اور پرامن انتخابات کے انعقاد میں الیکشن کمیشن سے تعاون ہے‘ اس کا اعتراف نگران حکومت نے یہ کہہ کر بھی کیا تھا کہ مشرف پر آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ چلانا اس کا مینڈیٹ نہیں ہے۔ اس کا مینڈیٹ پرامن انتخابات کا انعقاد ہے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ نگران حکومت کماحقہ اپنی ذمہ داری پوری کرتی دکھائی نہیں دے رہی‘ اپنی اپنی جگہ پر اچھل کود کو اعلیٰ کارکردگی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ الیکشن کمیشن اور نگران حکومت کے مابین مثالی کوآرڈی نیشن کی ضرورت ہے الیکشن کمیشن کی طرف سے تحفظات کے اظہار سے جس کا فقدان نظر آتا ہے۔ ملک میں امن و امان کی فضا کو برقرار رکھنا نگران حکومت کی ذمہ داری ہے‘ انتخابی مہم کے آغاز کے بعد سے وہ اس ذمہ داری کو ادا کرنے سے قاصر نظر آئی۔ خودکش حملوں‘ بم دھماکوں‘ فائرنگ اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات سے پورا ملک عمومی اور پنجاب کے سوا تین صوبے خصوصی طور پر لرز کر رہ گئے ہیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ صورتحال انتظامیہ کے کنٹرول سے باہر ہو رہی ہے۔ انتخابات کے روز امن قائم رکھنے کے اقدامات کی کوششوں کا یہ مطلب نہیں کہ انتخابی مہم کے دوران دہشت گردوں کو کھلی چھٹی دے کر سیاست دانوں اور عوام کو انکے رحم و کرم پر چھوڑ دیاجائے۔ وہ جس کو چاہیں‘ دھمکیاں دیں اور ٹارگٹ کرکے گھروں میں مقید رہنے پر مجبور کر دیں۔ نگران حکومت کو پورے ملک میں امن کی بحالی اور قیام کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنا ہونگے۔ الیکشن کمیشن امن و امان کی صورتحال پر بار بار اپنے تحفظات کا اظہار کر رہا ہے‘ نگران حکومت کو دن رات ایک کرکے الیکشن کمیشن کے تحفظات دور کرنا ہونگے‘ یہ خود انکی اپنی ساکھ کا بھی مسئلہ ہے۔