نوائے وقت اور پاکستان

Mar 04, 2025

اسد اللہ غالب

اس میں کوئی شک نہیں کہ تحریک پاکستان میں اخبارات نے اہم کردار ادا کیا۔اور اس حوالے سے نوائے وقت کا کردار بہت نمایاں رہا۔ 1940ء کا دور نہ صرف مسلمانوں کے لیے بلکہ مسلم لیگ اور مسلم پریس کے لیے بھی بے حد نازک تھا۔ مسلمانانِ برصغیر نے مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں ہندوستان میں علیحدہ وطن کا مطالبہ پیش کیا۔ یہ مطالبہ برطانوی حکومت اور ہندو کانگرس کو ہلانے کے لیے کافی تھا۔ ہندو پریس نے قرارداد لاہور کی انتہائی مخالفت کی اور قیامِ پاکستان کے مطالبے کو ہر طرح سے سبوتاڑ کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ یہی وہ پْرآشوب دور تھا جب مسلم صحافت کو اپنے جوہر دکھانے کا موقع ملا‘ اسی دور میں اور عین اسی روز 23مارچ‘ 1940ء کوجب قراردادِ پاکستان منظور ہوئی‘ ’’نوائے وقت‘‘ لاہور سے‘ ایک درد مند اور بے دارمغز مسلمان نوجوان حمید نظامی کی زیرادارت ایک پندرہ روزہ اخبار کی شکل میں میدانِ صحافت میں اترا۔ اس اخبارنے مسلمانوں اور ان کی جماعت آل انڈیا مسلم لیگ کے نقطہ نظر کی کامیابی کے ساتھ موثر ترجمانی کی۔
نوائے وقت کے اجراء کا تمام علمی‘ ادبی اور سیاسی حلقوں میں خیر مقدم کیا گیا۔ قائداعظم محمد علی جناح نے اس موقع پر اپنے پیغام میں کہا کہ ’’مجھے یہ سن کر خوشی ہوئی کہ آپ پنجاب سے اْردو کی خدمت کے لیے ایک اخبار جاری کررہے ہیں۔ میری مصروفیات مجھے اس امر کی اجازت نہیں دیتیں کہ میں آپ کی خواہش کے مطابق کچھ لکھ سکوں لیکن میں آپ کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ میری دلی دعائیں آپ کے ساتھ ہیں۔ اْردو زبان کی ترقی ہماری قوم کی ترقی ہے اس لیے میں اْردو کی خدمت کو قوم کی خدمت سمجھتا ہوں۔ یہ زبان ہندوستان کی ملکی زبان ہونے کی حیثیت سے ہندوستان اور مسلمانوں پر برابر حق رکھتی ہے لیکن کچھ عرصہ سے بعض سیاسی مصلحتوں کے پیش نظر اسے محض مسلمانوں کی زبان قرار دیا جارہا ہے اس سے مسلمانوں کی ذمہ داری اور بڑھ گئی ہے۔ اس امر کے پیش نظر مجھے اْمید ہے کہ ہندوستان کے مسلمان اْردو کو فروغ دینے کے لیے بیش از بیش جدوجہد کریں گے۔ میں آپ کی کامیابی کے لیے دست بہ دعا ہوں‘‘۔
جب مسلم لیگ نے لاہور میں قراردادِ پاکستان منظور کی اور پاکستان کی شکل میں ایک علیحدہ مسلم ریاست کی تشکیل مسلمانانِ برصغیر کی منزل قرار پائی تو حمید نظامی نے مسلمانانِ برصغیر‘ خاص طور پر مسلمانانِ پنجاب کو اس نصب العین کی تحصیل کے لیے آمادہ عمل کرنے کے لیے پندرہ روزہ ’’نوائے وقت‘‘ جاری کیا جسے 15نومبر‘ 1942ء کو ہفتہ وار کردیا گیا۔ اگرچہ اس وقت لیگ کا ترجمان انگریزی ہفت روزہ ’’ایسٹرن ٹائمز‘‘ بھی نکل رہا تھا جو مردانہ وار مسلم لیگ کی حمایت کررہا تھا لیکن اْردو کا کوئی ایسا روزانہ اخبار نہ تھا جو ببانگ دہل لیگ اور قائداعظم کی پالیسیوں کی حمایت کرتا۔ اس ضرورت کے پیش نظر قائداعظم کے ارشاد کے مطابق ’’نوائے وقت‘‘ کو ہفت روزہ سے روزنامہ بنانے کا پروگرام عمل میں لایا گیا۔ قائداعظم نے حمید نظامی کو فرمایا: ’’میں چاہتا ہوں کہ لاہور سے ایک روزنامہ اخبار جاری کیا جائے جو سو فیصد مسلم لیگ اور تحریک پاکستان کی ترجمانی کرے اور میں چاہتا ہوں کہ یہ اخبار تم نکالو‘‘۔ لہٰذا ضروری انتظامات اور لوازمات کی تکمیل کے بعد قائداعظم کی دعا اورپیغام کے ساتھ ’’نوائے وقت‘‘ 22جولائی‘ 1944ء سے روزنامہ کی شکل میں شائع ہونے لگا۔
 پاکستان اور ہندوستان کی تاریخ میں ’’نوائے وقت‘‘ واحد اخبار ہے جسے قائداعظم نے تین مرتبہ کامیابی کے پیغامات بھیجے یعنی پندرہ روزہ کی اشاعت کے موقع پر‘ پھرہفتہ وار ہونے پر اور آخر میں روزنامہ کی شکل میں ابھرنے پر۔ نہ صرف قائد نے کامیابی کے پیغامات بھیجے بلکہ بارہا مختلف بزرگوں کی موجودگی میں نوائے وقت کی شاندار خدمات کا زبانی اعتراف فرماتے ہوئے صرف حوصلہ افزائی ہی نہیں کی بلکہ اْنہوں نے نوائے وقت کے بارے میں اپنے دست مبارک سے لکھ کر ایسے حوصلہ افزا خیالات کا اظہار فرمایا کہ شاید ہی کسی اخبار کے بارے میں اْنہوں نے ایسے خیالات ظاہر کیے ہوں۔
 حمید نظامی ایک اچھے مقرر بھی تھے لیکن صحافی بننے کا فیصلہ کرنے کے بعد اْنہوں نے خطابت کو صحافت کے لیے خیرباد کہہ دیا۔ اْنہوں نے سیاست بھی بذریعہ صحافت کی۔ حمید نظامی نے جلد ہی ’’نوائے وقت‘‘ کو مسلمانوں کا ایک مقبول اخبار بنا دیا۔ اْنہوں نے اخبار کو مقبول عام بنانے کے لیے روایتی انداز کی مشکل پسندی ترک کرکے سادہ زبان اور براہِ راست ابلاغ کا طریقہ اختیار کیا۔ حمید نظامی نے ایک اچھا ادیب ہونے کے باوجود سادہ اور عام فہم زبان کو اپنے اخبار کا طرہ امتیاز بنایا۔ اْنہوں نے اداریہ نویسی میں سادہ زبان اور براہ راست ابلاغ کا انداز اختیار کیا اور بلاشبہ اخباری انداز تحریر میں ایک انقلابی تبدیلی کا آغاز کیا۔ وہ کم از کم اداریہ نویسی میں آج کے اْردو اخبارات کے پیشرو تھے۔ 
’’نوائے وقت‘‘ کی تحریک پاکستان میں سیاسی و ملی خدمات تو مسّلم ہی ہیں‘ ان کی اختیار کردہ یہ طرح اْردو صحافت کی تاریخ میں بھی بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ اْنہوں نے جو تجربہ کیا وہ بعد میں اْردو اخبارات کا معمول بن گیا اور بلاشبہ اس انداز تحریر نے اخبارات کا حلقہ اشاعت بڑھانے میں مدد دی۔ نوائے وقت چونکہ تحریک پاکستان کا ترجمان تھا، اس لیے تحریک پاکستان اور اس کے قائدین کے بارے میں معلومات کا ایک اہم ماخذ و ذریعہ متصور ہوتا تھا اور اس کی یہ اہمیت نظر انداز نہیں کی جاسکتی۔
 تحریک پاکستان اور بعد از قیامِ پاکستان کی تاریخ اور نوائے وقت لازم و ملزوم ہیں۔ جس طرح نوائے وقت کو اس تاریخ سے الگ نہیں کیا جاسکتا‘ اسی طرح اس تاریخ کو نوائے وقت کے بغیر مکمل تصور نہیں کیا جاسکتا۔ پنجاب میں سیاسی شعور کو بیدار کرنے اور تحریک پاکستان میں گرانقدر خدمات کے ضمن میں نوائے وقت کے دوست تو دوست دشمن بھی معترف تھے اور ہیں۔ درحقیقت پنجاب کے مسلمانوں نے مسلم لیگ اور تحریک پاکستان کو صرف دو قوتوں کے ذریعہ جانا اور سمجھا۔ پہلی قوت قائداعظم کی تھی اور دوسری نوائے وقت کی۔ یہ کہنا بھی مبالغہ نہ ہوگا کہ نوائے وقت تو بجائے خود ایک تحریک تھا جس کے خمیر سے نہ صرف جدید مسلم صحافت کے سوتے پھوٹے بلکہ بجا طور پر پنجاب کے مسلم عوام کو سیاسی شعور سے آگہی بھی ہوئی۔
………………… (جاری) 

 1944ء سے قیامِ پاکستان کے عرصے میں برصغیر میں مختلف النوع سیاسی واقعات کے حوالے سے مسلمانوں کا نقطہ نگاہ جس انداز سے پیش کیا وہ محض اور محض نوائے وقت ہی کا حصہ ہے۔ 1946ء کے عام انتخابات میں مسلم لیگ کو جو محیر العقول کامیابی حاصل ہوئی اس میں نوائے وقت نے تاریخ ساز کردار ادا کیا جو کسی سے مخفی نہیں۔ اگر نوائے وقت یہ دعویٰ کرے کہ انتخابی مہم میں نوائے وقت کے مجموعی کام کا پلڑا تمام مسلم لیگی لیڈروں سے بھاری تھا تو یہ مبالغہ آرائی نہ ہوگی۔ یاد رہے پاکستان انہی انتخابات کے نتائج کی بنا پر قائم ہوا۔ اگر مسلم لیگ یہ انتخابات ہار جاتی تو انگریز کبھی ہندوستان کو تقسیم کرنے کا فیصلہ نہ کرتا اور ہندو کانگریس کبھی تقسیم ہند پر آمادہ نہ ہوتی۔نوائے وقت نے یونینسٹ پارٹی‘ نیشنلسٹ مسلمانوں اور کمیونسٹوں کے بارے میں بڑے واضح اور کھلے الفاظ میں اظہار خیال کرنے سے کبھی دریغ نہیں کیا۔ ہندو اخبارات اور ہندو کانگرسی لیڈروں کا محاسبہ کرنے میں بھی نوائے وقت نے جرات و بیباکی کا مظاہرہ کیا اور یہاں تک کہ مسلم لیگ کا زبردست حامی ہونے کے باوجود جب کبھی لیگ نے کوئی غلط طرز عمل اختیار کیا تو اسے بھی ہدفِ تنقید بنانے سے نہ ہچکچایا۔ 

تحریک پاکستان کے علمبردار کی حیثیت سے ’’نوائے وقت‘‘ نے متوسط طبقہ کی نمائندگی کی‘ سیاسی طالع آزما?ں سے پنجہ آزمائی کی اور پنجاب کے جاگیرداروں کے غرور کو خاک میں ملایا۔ ’’نوائے وقت‘‘ وہ واحد اور تنہا اخبار تھا جو یونینسٹ پارٹی کی پالیسیوں کا مکمل طور پر مخالف تھا۔ جب مسلم لیگ عوامی تحریک بن گئی تو ’’نوائے وقت‘‘ اس عوامی تحریک کا سب سے بڑا عکاس اور داعی بن کر ابھرا۔1947ء￿  کے شروع میں پنجاب‘ سرحد اور دوسرے صوبوں میں لیگ کی سول نافرمانی کی تحریکوں میں بھی ’’نوائے وقت‘‘ پیش پیش رہا اور اس ساری تاریخ میں جو شخصیت درپردہ کار فرما تھی وہ حمید نظامی کی شخصیت تھی۔ نوائے وقت اور حمیدنظامی اصل میں ایک ہی چیز کے دو نام بن کر رہ گئے تھے۔ 
قیامِ پاکستان کے بعد تحریکِ پاکستان ختم نہیں ہو گئی تھی۔ یعنی پاکستان حاصل کر لینے کے بعد اسے اسلامی ریاست بنانے کے جملہ تقاضے پورے ہونا باقی تھے۔ اس طرح نہ مسلم لیگ کا کام ختم ہوا تھا نہ نوائے وقت کا۔ نوائے وقت نے اپنے کام کو جاری رکھا۔ اس کے مالک و مدیر حمید نظامی اپنے فہم و علم کے مطابق پاکستان کی صحافتی خدمات ادا کرتے رہے۔ نوائے وقت کی پالیسی کا محور نظریہ پاکستان اور اسلام رہا۔ دراصل نظریہ پاکستان اسلام سے الگ کوئی بات نہیں ہے۔ نظریہ پاکستان یہ تھا کہ برصغیر میں مسلمانوں کے لیے ایک اسلامی ریاست تشکیل دی جا سکتی ہے۔ چنانچہ نوائے وقت نے پاکستان میں ہر اسلامی تحریک کی بھرپور تائید و حمایت کی۔ پاکستان میں جمہوریت کے فلسفے کی وکالت میں بھی نوائے وقت پیش پیش رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قیامِ پاکستان کو ممکنہ آمریت کے خطرے سے بچانے کے لیے نوائے وقت نے فلسفہ جمہوریت کی سب سے زیادہ تبلیغ کی۔ اس حوالے سے پاکستان میں آئین اور سیاست کی گذشتہ تاریخ بھی نوائے وقت کے صفحات پر نسبتاً زیادہ محفوظ ہے۔ نوائے وقت نیپہلیتحریکِ پاکستان اور پھرتعمیرِ پاکستان کے لیے کام کیا جس میں مجید نظامی کے دور سے نوائے وقت نے مقبولیت کے تمام مراحل رفتہ رفتہ عبور کر لیے۔
 نوائے وقت کا دوسراجس کے سرخیل میرے مرشد مرحوم مجید نظامی بنے ،پہلے دور سے کسی طرح کم نہیں کیونکہ یہ دور پہلے دور سے زیادہ کٹھن اور صبر آزما تھا جس میں آمریت نے صحافت کا گلا گھونٹ کر رکھ دیا تھا۔ ایوب سے لے کرپرویز مشرف کے دورِ آمریت تک وہ کون سی آزمائش ہے جس سے یہ اخبار اور اس کا مدیر آزمائش سے نہیں گذرا۔ مجید نظامی نے اخبار کو پہلے سے بھی بہت بہتر اور مقبولِ عام بنایا‘ ان کے دور میں اخبار کی پالیسی صرف اور صرف پاکستان کے استحکام پر محیط رہی۔ اس کے علاوہ اس اخبار نے نظریہ پاکستان کی تشکیل اور اس کے فروغ میں نہایت عمدہ نقوش رقم کئے ہیں۔ مجید نظامی کا دور1962ء￿ سے شروع ہوتا ہے جس دوران اخبار نے دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کی۔ پاکستان کا کوئی ایسا موضوع نہیں جس پر ثابت قدمی سے اپنے خیالات کا برملا اظہار نہ کیا ہو۔ مسئلہ کشمیر ہویاپاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کی تقسیم کا تنازعہ، کالا باغ ڈیم کی تعمیریاپاکستان کی طرف سے ایٹمی دھماکے،ان تمام اہم موضوعات پر بھی ان کی رائے کبھی ڈھکی چھپی نہ رہی۔میرے مرشد مجیدنظامی وہ واحد سینئر صحافی تھے جو کسی بھی حالت میں بھارت کی سرزمین پر بھارت سے تنازعات خاص طورپر مسئلہ کشمیرکے حل کئے بغیر قدم نہیں رکھنا چاہتے تھے۔
یہاں یہ ذکر کردینا بھی بے جانہ ہوگا کہ پاکستان کے بیشتر صحافی حضرات بھی ان سے رہنمائی حاصل کرتے رہے اور پاکستان کی حکومتیں بھی وقتاً فوقتاً ان سے رائے لیتی رہیں۔ الغرض مجید نظامی کا دورِ صحافت حمید نظامی کے دورِ صحافت سے قدرے مشکل اور پیچیدہ رہا۔ جس میں 30سالہ مارشل لائی ادوار نے ان کے لیے قدم قدم پر مسائل کھڑے کئے رکھے لیکن آفریں ہے کہ اس مردِ آہن کے پایہ استقامت میں لغزش نہ آئی اور انہوں نیمرتے دم تک ’’اپنوں‘‘ اور ’’غیروں‘‘ کے حملوں کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے نوائے وقت کو پاکستان کی صحافت کا مضبوط قلعہ بنا دیا تھا جو اللہ کے فضل و کرم سیتادیر ناقابل تسخیر رہے گا۔

مزیدخبریں