حفیظ اللہ خان
عربی زبان فصاحت و بلاغت کا ایسا شاہکار ہے جس میں الفاظ کے مختصر ہونے کے باوجود معنی کی گہرائی اور وسعت بے مثال ہے۔ یہ وہ زبان ہے جس میں ایک ہی لفظ کے کئی مفاہیم ہو سکتے ہیں اور جس کی ترکیب و اظہار میں ایسی روانی اور تاثیر ہے کہ سننے والا اس کے سحر میں کھو جاتاہے۔آپ کو علم ہے لفظ ''قرآن'' عربی زبان کا لفظ ہے جو ''قرء '' سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے پڑھنا، جمع کرنا یا تلاوت کرنا، کا ہے اس کے مختلف لغوی اور اصطلاحی معانی ہوسکتے ہیں۔(قرا ئة) یعنی پڑھنا، چونکہ قرآن کریم تلاوت کے ذریعے پڑھا جاتا ہے اس لیے اسے ''قرآن'' کہا گیا۔اور''صیام'' عربی زبان کا لفظ ہے، جو ''صَوم'' سے ماخوذ ہے اور اس کا لغوی معنی رک جانا، باز رہنا، خود کو کسی چیز سے روکنا ہے۔ شریعت میں ''صیام'' کا مطلب ہے فجر سے مغرب تک کھانے پینے اور دیگر مخصوص چیزوں سے رک جانااللہ کی رضا کے لیے۔اور لفظ رمضان رمض سے لیا گیا ہے یعنی شدید گرمی اور تپش یا زمین کی گرمی سے پا¶ں کا جلنا۔ اس ماہ کی عبادت گناہوں کو جلا دیتی ہے جس کی مناسبت سے اسے رمضان کہاجاتا ہے۔
رمضان ہجرت مدینہ کے بعد ۲ ہجری میں فرض کیا گیا۔ رمضان المبارک ایک مقدس مہینہ کے ساتھ ساتھ ایک تربیتی نظام بھی مہیا کرتا ہے جو انسان کو صبر، تقویٰ اور اللہ کی قربت کا درس دیتا ہے۔ روزہ جہاں ظاہری طور پر بھوک اور پیاس برداشت کرنے کا نام ہے وہیں یہ ایک باطنی ریاضت بھی ہے جو انسان کی روح کو پاکیزہ بناتا اور اس کے نفس کو قابو میں رکھتا ہے۔ قرآن کی تعلیمات انسان کو صبر، برداشت، عاجزی اور اللہ کی رضا کے حصول کا درس دیتی ہیں۔ روزہ ان تمام صفات کو عملی جامہ پہناتا ہے۔ بھوک اور پیاس کی شدت ایک روزہ دار کو احساس دلاتی ہے کہ اللہ کے بغیر وہ کچھ بھی نہیں اور جب وہ اس احساس کے ساتھ دن گزار کر افطار کرتا ہے تو ایک نئی روحانی تازگی اس کے اندر جنم لیتی ہے۔ یہی کیفیت اس کے دل کو قرآن کے نور سے منور کرنے کے لیے تیار کرتی ہے۔ جب انسان کی طبیعت نفسانی خواہشات کے بوجھ سے آزاد ہو اس کے دل پر دنیاوی معاملات کی سختی نہ ہو تو وہ اللہ کی کتاب کو زیادہ بہتر طریقے سے سمجھنے اور اس پر غور کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رمضان میں مسلمانوں کو قرآن سے جڑنے اس
کی تلاوت کرنے اور اس پر تدبر کرنے کی خاص تاکید کی گئی ہے۔
روزہ رکھنے والا انسان اپنی خواہشات پر قابو پانے کی مشق کرتا ہے اور جب وہ اپنی بھوک و پیاس پر قابو پا لیتا ہے تو اس کے لیے گناہوں سے بچنا آسان ہو جاتا ہے۔ اسی ضبط نفس کی مشق اسے قرآن کے احکامات پر عمل کرنے کے لیے تیار کرتی ہے۔ ایک عام دن میں جب انسان کھانے پینے اور دیگر مصروفیات میں مگن ہوتا ہے تو وہ اللہ کی کتاب پر اتنا غور نہیں کر پاتا لیکن رمضان میں روزے کے ساتھ اس کی توجہ دنیا سے ہٹ کر اللہ کی طرف ہو جاتی ہے۔ اس لیے یہ مہینہ نہ صرف قرآن کی تلاوت بلکہ اس کے احکامات پر عمل کرنے کا بھی بہترین موقع ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ رمضان میں قرآن کی تلاوت کا اثر عام دنوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوتا ہے۔ دل کی کیفیات زیادہ نرم ہوتی ہیں آنکھیں زیادہ جلدی اشکبار ہوتی ہیں اور انسان زیادہ آسانی سے قرآن کے الفاظ کو اپنے دل میں اتار سکتا ہے۔ اسی لیے رمضان کو ہدایت حاصل کرنے کا مہینہ بھی کہا جاتا ہے۔ اس مہینے میں نہ صرف روزے رکھے جاتے ہیں بلکہ راتوں کو قیام کیا جاتا ہے تراویح میں قرآن سنا جاتا ہے اور دلوں میں اس کی تعلیمات کو جگہ دی جاتی ہے۔ رمضان کا حقیقی مقصد صرف صیام و تلاوت تک مقید نہیں بلکہ ایک ایسی تبدیلی پیدا کرنا ہے جو سال کے باقی مہینوں میں بھی قائم رہے۔ اگر رمضان میں ہم نے روزے رکھے قرآن کی تلاوت کی اس کے احکامات کو سمجھا لیکن اس کے بعد دوبارہ اپنی پرانی زندگی میں لوٹ گئے تو اس مہینے کی اصل روح ہم نے نہیں پائی۔ رمضان ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ اگر ایک مہینہ ہم اپنی خواہشات پر قابو پا سکتے ہیں اگر ایک مہینہ ہم قرآن سے جڑ سکتے ہیں تو باقی سال بھی یہ عمل جاری رہ سکتا ہے۔
قرآن اور صیام کا تعلق محض ایک وقتی عبادت کا نہیں بلکہ ایک طرزِ زندگی کا ہے۔ قرآن ہمیں راستہ دکھاتا ہے اور روزہ اس راستے پر چلنے کی طاقت عطا کرتا ہے۔ جب کوئی شخص روزے کی حالت میں بھوک و پیاس سہتا ہے غصے کو قابو میں رکھتا ہے جھوٹ اور برائیوں سے بچنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ خود کو اللہ کی رضا کے قریب پاتا ہے۔ اور جب وہ قرآن پڑھتا ہے تو اسے احساس ہوتا ہے کہ یہی تو وہ ہدایت ہے جسے پانے کے لیے اس نے روزے رکھے اسی ہدایت کو اپنانا اس کی زندگی کا اصل مقصد ہونا چاہیے۔
یہی وجہ ہے کہ رمضان محض ایک عادت بدلنے کا مہینہ نہیں بلکہ ایک مکمل انقلاب برپا کرنے کا موقع ہے۔ اگر ہم اس مہینے کو صرف رسمی عبادات تک محدود رکھیں اور اس کے اصل پیغام کو نظر انداز کر دیں تو ہم وہ فیض نہیں پا سکتے جو اس مبارک مہینے میں پوشیدہ ہے۔ ہمیں چاہیے کہ رمضان کو قرآن کے نور سے منور کریں اس کی آیات پر تدبر کریں اس کے پیغام کو سمجھیں اور پھر اسے اپنی زندگی میں نافذ کریں۔ جب روزہ اور قرآن ساتھ مل جائیں تو ایک ایسی شخصیت کی تعمیر ہوتی ہے جو دنیا و آخرت میں کامیاب ہونے کے لیے تیار ہو جاتی ہے۔ یہی وہ درس ہے جو رمضان ہمیں دیتا ہے اور یہی وہ پیغام ہے جو ہمیں قرآن سے ملتا
ہے۔