ڈاکٹرعارفہ صبح خان
تجا ہلِ عا رفانہ
دنیا جہاں اسرار و رموز سے بھری ہوئی ہے۔ وہاں زندگی خوبصورت جذبات، احساسات اور محبتوں سے بھی لبریز ہے۔ یہ کائنات اس قدر دلچسپ ،حسین ،انہونی، دلکش اور خوشیوں سے معمور ہے کہ جو زندگی جینے کے آدا ب سیکھ لے اُس کی زندگی بامعنی، بامقصد اور خوبصورت ہو جاتی ہے۔ ہمیں اس دنیا میں صرف ایک بار آنا ہے اور ہندومت کے نظریے آوا گون پر یقین نہیں رکھتے کہ ہم سات جنم لیں گے یا پھر دوبارہ پیدا ہوں گے۔ ہمارے مذہب کے حساب سے یہی ہماری اولین اور آخری زندگی ہے۔ ہندو¶ں کا فلسفہ ہے کہ انسان دوبارہ دنیا میںآئے گا ۔اگردیگر مذاہب کا مطالعہ کیا جائے تو وہاں بھی زندگی دوبارہ ملنے کے اشارے ملتے ہیں۔زمانہءقدیم میں لوگ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ جو انسان مر جاتا ہے وہ ایک بیج کی طرح مٹی میں جا ملتا ہے۔ پھر اُس کی نمو ہوتی ہے۔ وہ پھر دوبارہ پیدا ہوتا ہے۔ یہ فلاسفی پوری شدت سے قدیم زمانوں میں پائی جاتی ہے مثلا اگر آپ اہرا م مصر کو دیکھیںتو تمام فراعین اور متمول مصریوں نے اپنی زندگی میں اپنے مقبرے اور وسیع تررقبے میں اپنی قبروں اور تابوت کے انتظام کیے تھے۔ اپنے لیے ان مقبروں میں ضروریات زندگی کا تمام سامان رکھا تھا اور اپنی ممییاں بنوانے کے لیے بہترین قسم کا بیش قیمت مصالحہ اور کیمیکلز رکھوائے تھے تاکہ جب وہ زندہ ہوں تو ان کے اعضاءصحیح سلامت ہوں۔ ہزاروں سال پرانی ممیاں آج بھی مصر میں اسی حالت میں موجود ہےں۔ اس بات کو سعید جاوید نے اپنی کتاب ”مصریات“ میں بڑی خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔ اسی طرح ڈاکٹر وزیرآغا نے اپنی کتاب” تخلیقی عمل“ میں کافی چا بکدستی سے ہندو فلاسفی اور قدیم فلسفے سے انسان کے دوبارہ نمو پانے پر روشنی ڈالی ہے۔ روم مصر یونان ایران اور قدیم تر مہذب ریاستوں میں یہ فلسفہ عام تھا کہ انسان کو زندگی دوبارہ ملے گی ۔انسان کے دنیا میں دوبارہ آنے کا فلسفہ کافر و ں،مشرکوں، ملحدوں، لادین قوموں میں یقین کامل کی حد تک آج بھی موجود ہے ۔اگر اس فلسفے میں سچائی کی ذرا برابر رمق ہوتی تو ہم میں سے بہت لوگ سب سے پہلے حضرت آدم اور اماں حوا سے مل چکے ہوتے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت موسی علیہ السلام، حضرت عیسی علیہ السلام اور حضرت یعقوب علیہ السلام کی زیارت کر چکے ہوتے۔ اگر انسان دوبارہ پیدا ہوتا تو ناکام، تشنہ، کچلی ہوئی خواہشات کو دوسرے جنم میں پوری کر کے آسودگی سے موت کی پناہوں میں چلا جاتا۔ اگر انسان کا دوسرا جنم دیگر مذاہب کے مطابق ممکن ہوتا تو ہم قارون، نمرود، فرعون شداد کو شاید دیکھ سکتے۔ طارق بن زیاد، محمد بن قاسم ،صلاح الدین ایوبی ،جنگیز خان، ہلاکو خان، مسولینی ،ابراہیم لنکن،نپولین، ہٹلر، چرچل ،واسکوڈے گاما ،ابن بطوطہ، سکندر اعظم، قلوپطرہ، افلاطون ،ارسطو،شیکسپیئر ،چاند بی بی غرضیکہ کسی سے تو ملتے ۔لیکن ان سب کو مرے ہوئے ہزاروں اور سینکڑوں برس بیت چکے۔آج تک کوئی مرکر واپس نہیں لوٹا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ موت کے شکنجے میںپھنس کر کوئی شکار واپس نہیں آتا ۔جیسے منہ میں چبایا جانے والا نوالہ معدے کے تابوت میں دفن ہو جاتا ہے اور معدے سے نکل کر معدوم ہو جاتا ہے ٹھیک اسی طرح مرنے کے بعد واپسی کا ہر راستہ بند ہے۔ موت کے بعد زندگی سے ہمیشہ کے لیے رشتہ منقطع ہو جاتا ہے۔ مرنے کے بعد دنیا میں آنے کے لیے دوبارہ زندگی دستیاب نہیں ہوتی ۔پہلے زمانے میں لوگ سو ڈیڑھ سو سال کی زندگی بھی جی لیا کرتے تھے لیکن آج کل 70 سال کی عمر تک جی لینا بھی کمال ہے اور ہمارے ہاں تو ویسے بھی 62 سال اوسط عمر ہے۔تو سمجھنے کی بات یہ ہے کہ آپ نے اگر سوسال بھی نہیں جینا اور ہم تو شاید 70 سال سے اوپر جی لیں گے لیکن اگلی جنریشن کی اوسط عمر 50 برس سے زیادہ نہیں ہوگی۔ یہ بات نئی جنریشن کو سمجھنے کی شدید ضرورت ہے۔ بلکہ ہماری جنریشن کے لیے بھی یہ جاننا اور سمجھنا ضروری ہے کہ ہم سب اب وقت کے مدار میں گھوم رہے ہیں ۔ہماری زندگی کی میوزیکل چیئر کبھی بھی رک سکتی ہے اور ہم زندگی کے کھیل سے باہر نکل سکتے ہیں۔ تو جب ہمارے پاس اس قدرجو تھوڑا وقت ہے، زندگی کی سانسیں چند سالوں پر محیط ہیں تو کیوں شر پھیلاتے ہیں ۔لوگوں کی زندگیوں میں زہر گول دیتے ہیں اور دوسروں کا جینا دوبھر کر دیتے ہیں ۔یہ دنیا بہت رنگین ،حسین اور دل نشین ہے ۔ لیکن لوگ اپنی قدورتوں،بغض ،عناد، شر، مکاریاں، ریاکاریاں اور بد اعمالیاں سے اس حسن و جمال کے مرقع میں زہر گھول کر اسے زہر آلود بنا دیتے ہیں۔ زندگی میں کچھ آزمائشیں اللہ کی طرف سے آتی ہیں مثلا کسی کو کینسر ہو جائے، کسی کا ایکسیڈنٹ ہو جائے یا کسی بھی وقت کوئی مر جائے ۔لیکن کسی کی زندگی میں دکھ اذیتیں ، نفرتیں ،جہالتیں اور خباثتیں لوگ اپنے گٹرزدہ ذہن کے مطابق بھرتے ہیں ۔ پاکستان جیسے معاشرے میں ہمارے ہاں سب سے زیادہ گھناﺅنے افعال جاہل اور حاسد عورتیں کرتی ہیں ۔ جب وہ دوسروں کی خوشی سے حسد اور جلن میں اتنے آگے نکل جاتی ہیں کہ جا کر پیروں فقیروں عا ملوں اور نام نہاد مکار بابوں سے جادو ٹونے تعویز دھاگے کراتی ہیں تاکہ دوسروں کے گھروں کی خوشیاں، خوشحالی، دولت، صحت ،اولاد ،حسن جوانی پر گندے عمل کر کے ان سے یہ سب چھین لیتی ہیں ۔یہ شیطان صفت پیر فقیرد س بیس ہزار کی خاطران عورتوں کی مذموم خواہش پر کالے علم کر کے دیتے ہیں جس سے اچھا بھلا صحت مند، خوش باش اور خوشحال گھرانا مصیبتوں، بیماریوں اور تکلیفوں میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ کوئی صحت مند ،ہنستا مسکراتا خوشحال انسان اچانک کیسے بیمار ،لاغر، بدحال ہو جاتا ہے۔ ایسی سفلہ پرور عورتیں قبرستان میں جا کر دوسری عورتوں کے پتلے قبروں میں دبا کر آتی ہیں اور اپنے حسد و رقابت کی آگ بجھانے کے لیے دوسری عورتوں کی زندگیاں اجیرن بنا دیتی ہیں۔ یہ چیزیں ہمارے ہاں بہت عام ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر وہ فقیر یا بابا اللہ والا اور پہنچا ہوا ہے تو وہ کسی معصوم و شریف عورت پر ناحق کا لا علم کیوں کرتا ہے جسے اس نے دیکھا بھی نہیں۔ اس کے علاوہ ہمارے ہاں لوگ دوسروں کے رزق سے کھیلتے ہیں۔ اکثر لوگوں کی نوکریاں اور کاروبار دا¶ پر لگ جاتے ہیں کیونکہ لوگ حسد میں دوسروں کے رزق کوملیامیٹ کر دیتے ہیں۔ بد زبانی ،بد اخلاقی اور گالی گلوچ ایسا فعل ہے جو زیادہ تر نچلے طبقے کے لوگوں میں پایا جاتا ہے ۔ پڑھے لکھے لوگ اپنی ناپسندیدگی یااختلاف کے لیے ہمیشہ اپنی دلیل ،منطق اور جواز بیان کرتے ہیں ۔مگر جاہل اور گھٹیا لوگ بد زبانی اور گالی گلوچ استعمال کر کے دوسروں کی دل آزاری کرتے ہیں ۔دولت کی ہوس نے بھی انسان کو انسان کی سطح سے نیچے گرایا ہے ۔ دولت کی دوڑ میں جائز ناجائز کی تفریق ختم ہو گئی ہے ۔ دولت حاصل کرنے کا ایک طریقہ دوسروں کا حق مارنا بھی ہے۔ دوسروں کی حق تلفی کرنا، رشوت، سفارش،اقربا پروری سے کسی مستحق امیدوار کی جگہ خود قابض ہو جانا شدید ترین گناہ ہے ۔ انسان کے عمل میں ریاکاری، مکاری، فریب ،دھوکہ اور جھوٹ اس کے کردار کو پلید بنا دیتے ہیں۔ انسان کی خام خیالی ہے کہ وہ نماز روزہ حج زکوة کے ذریعے اپنے کردار کی بدعمالیوں، حق تلفیوں، نہ انصافیوں اور زیادتیوں کو ڈرائی کلین کر لے گا۔ بے سکونی کی سب سے بڑی وجہ بے ضمیر ی ہے ۔کسی کا دل دکھا کر آدمی گنا ہوں کی کالک سے نہیں بچ سکتا ۔انسان تو مر کر دنیا میں واپس نہیں آتا لیکن قدرت کا ایک اٹل قانون ”مکافات عمل “ہے کہ آپ جیسے کسی کے ساتھ زیادتی ،ظلم ،نہ انصافی ،بدسلوکی کرتے ہیں جو چلاکیاں جو ہوشیاریاں دکھاتے ہیں وہ پلٹ کر آپ کے منہ پر قدرت دے مار تی ہے وہ بھی سُود کے ساتھ۔ روزہ نماز تطہیر کی علامت ہے اگر آپ کے کردار میں یہ سب برائیاں ہیں تو روزہ محض فاقہ ہے اور آپ کی نماز صرف اٹھک بیٹھک ہے۔ کسی کے ساتھ زیادتی اور بدسلو کی کرنے سے پہلے اگر آدمی یہ سوچ لے کہ ملک الموت کا پنجہ کسی بھی وقت آپ کی گردن دبوچ سکتا ہے اور یاد رکھیں کہ اپنی بدعمالیوں کی معافی کے لیے آپ دوبارہ دنیا میں نہیں بھیجے جائیں گے۔ ندامت کے آنسو بہانے کے لیے زندگی دوبارہ نہیں ملے گی!
زندگی پھر نہ ملے گی دوبارہ
Mar 04, 2025