گوہرِ نایاب … مجید نظامی

مجید نظامی پاکستانی صحافت کی شان تھے۔ 40ء کی دہائی میں جب تحریکِ پاکستان زوروں پر تھی، حمید نظامی مرحوم نے ’’نوائے وقت‘‘ کے ذریعے آزادی کی اِس تحریک میں نئی روح پھونکی اور اِسے زندہ و جاوید بنا دیا۔ ’’نوائے وقت‘‘ نے اس تحریک کو جِلا بخشنے کے لیے جو کردار ادا کیا، دنیا کی تاریخ لکھنے والا مؤرخ اُسے کبھی فراموش نہیں کر سکے گا۔
قریباً پندرہ سال پہلے کی بات ہے جب میں نے ایک بینک کی ملازمت کے بعد کالم نویسی کا آغاز کیا۔رہائش وزیر آباد میں تھی لیکن لاہور کا ایک مؤقر نیشنل اخبار میری ابتداء بنا۔ تاہم میری مقدور بھرکوشش اور خواہش تھی کہ کسی طرح ’’نوائے وقت‘‘ کے ایڈیٹوریل پینل میں بطور کالم نویس شامل ہو جائوں ۔ اِس کے لیے کوشش اور بہت ساری جدوجہد کی، پھر وہ دن بھی آ یا جب ’’حساس‘‘ کے عنوان سے میرا کالم ’’نوائے وقت‘‘ میں چھپنا شروع ہوا اور اِسی کالم کی بدولت مجھے مجید نظامی سے ملاقات کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔ دن گیارہ بجے کے قریب انہیں ملنے گیا تو وہ اپنے آفس میں براجمان اور دفتری امور میں بہت ہی زیادہ مصروف تھے تاہم مجھے ملاقات کا وقت ملا۔ ملاقات اگرچہ بہت ہی مختصر دورانیے پر محیط تھی لیکن اس ملاقات میں انہوں نے میرے ذہن پر اپنی شخصیت کے گہرے نقوش چھوڑے۔ دوران گفتگو جب مجیب الرحمان شامی صاحب کا ذکر آیا تو انہوں نے شامی صاحب کی بہت تعریف کی۔ وہ ایک اعلیٰ اور انمول شخصیت کے مالک تھے۔ دس منٹوں پر محیط اس ملاقات کا تاثر میں آج تک نہیں بھولا۔ میرے لیے سب سے اہم بات یہ رہی کہ زندگی میں جن شخصیات سے ہمیشہ ملنے کی خواہش رہی اُن میں سے ایک شخصیت مجید نظامی مرحوم کی بھی تھی۔
مجید نظامی کا پاکستانی صحافت کو باوقار اور سربلند کرنے میں جو کردار رہا، وہ کسی سے چُھپا ہوا نہیں، اُسے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ’’نوائے وقت‘‘ کے ذریعے انہوں نے تحریک پاکستان کے بہت سے گوشے اُجاگر کئے اور کشمیریوں کی جدوجہدِ آزادی میں بھی اپنا حِصّہ ڈالا۔ پرنٹ میڈیا کی تاریخ دیکھی جائے تو ان دونوں تحریکوں میں ’’نوائے وقت‘‘ اور مجید نظامی کا نام سرفہرست نظر آئے گا۔ مجید نظامی نے صحافت کو کاروبار سے زیادہ ایک اعلیٰ مقصد اور مشن کے لیے استعمال کیا۔ اپنے اعلیٰ مقاصد کی تکمیل کے لیے انہوں نے جو اہداف مقرر کر رکھے تھے ، اُن سے کبھی پیچھے نہیں ہٹے۔ اگرچہ لاکھ مشکلات آئیں لیکن وہ بہت ہی باہمت تھے۔ ان مشکلات سے گزر ہی گئے اور کئی روشن مثالیں قائم کر گئے۔
وہ 86برس کے تھے ۔ جب سینے میں شدید انفیکشن کے باعث اُن کا انتقال ہوا۔ انہوں نے دل کے تین بائی پاس آپریشن بھی کرا رکھے تھے۔ مجید نظامی کو ایشیاء کے سب سے بڑے قبرستان میانی صاحب لاہور میں دفن کیا گیا۔ اُن کی یاد میں ہر سال اُن کی برسی کے موقع پر خصوصی ایڈیشن شائع کئے جاتے ہیں اور تقریبات کا انعقاد ہوتا ہے۔ اُن کے لاکھوں چاہنے والے اِس عزم کا اعادہ کرتے نظر آتے ہیں کہ مجید نظامی نے صحافتی اقدار میں جو روشن مثالیں قائم کیں وہ تاریخِ صحافت کا روشن باب ہیں، جنہیں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
مجید نظامی 3اپریل 1928ء کو سانگلہ ہل میں پیدا ہوئے۔ میٹرک کے بعد اسلامیہ کالج لاہور میں داخلہ لیا۔ وہ چارٹرڈ اکائونٹنٹ بنناچاہتے تھے۔ اس لیے انہیں ہیلی کالج آنا پڑا، جہاں کامرس کی تعلیم دی جاتی تھی۔ بعد ازاں گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہوئے جہاں سے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی۔ پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے لندن چلے گئے۔ جہاں سے 1962ء میں واپس لاہور آئے۔ اِسی سال 25فروری کو حمیدنظامی کی وفات ہوئی جس پر انہیں ’’نوائے وقت‘‘ کی ذمہ داریاں سنبھالنا پڑیں۔
مجید نظامی مرحوم نے ’’ندائے ملت‘‘ کے نام سے بھی ایک اخبار کا آغاز کیا۔ انگریزی اخبار ’’ دی نیشن‘‘، ہفت روزہ ’’فیملی میگزین‘‘ بچوں کے لیے ’’پھول ‘‘رسالہ بھی شائع کئے۔ ’’وقت‘‘ کے نام سے ٹی وی چینل کا بھی آغاز کیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مجید نظامی سیاسی جماعتوں کے لیے بھی ناگزیر بن گئے۔ کئی سیاسی رہنما اپنے تنازعات اور بہت سے حل طلب معاملات میں مشوروں کے لیے مجید نظامی صاحب کے پاس آتے اور مجید نظامی اُن کے تنازعات اور دیگر معاملات بہت ہی احسن طریقے سے حل کر دیتے۔
شریف فیملی کے ساتھ اُن کے خصوصی مراسم تھے۔ نواز شریف اور شہباز شریف سیاسی مشوروں کے لیے اکثر مجید نظامی مرحوم کے پاس دیکھے جاتے تھے ۔ مجید نظامی مرحوم مختلف اخباری فورمز اور ایڈیٹروں کی تنظیم میں بھی بہت متحرک اور فعال تھے۔ وہ آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی کے صدر رہے۔ اُنہیں کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز کے صدر ہونے کا بھی اعزاز حاصل رہا۔ انہوں نے ہر فورم، ہر مقام پر اپنی خداداد صلاحیتوں کا لوہا منوایا ۔ صحافت اور دیگر فورمز پر اپنی گرانقدر خدمات کے ایسے انمٹ اور اعلیٰ نقوش چھوڑے کہ آنے والا کل انہیں کبھی فراموش نہیں کر سکے گا۔
’’نوائے وقت‘‘ پاکستانیوں کے لیے مجید نظامی مرحوم کا ایک گرانقدر تحفہ ہے جو یاد دلاتا ہے کہ ’’نوائے وقت‘‘ کا تمام تر سفر صرف پاکستان کے لیے تھا اور اب بھی یہ سفر پاکستان کے لیے جاری ہے۔ مجید نظامی کے انتقال کے بعد اُن کی بیٹی رمیزہ نظامی اب ’’نوائے وقت‘‘ کی ادارت سنبھالے ہوئے ہیں اور اپنے فرائض منیجنگ ایڈیٹر کی حیثیت سے انجام دے رہی ہیں۔ اُن کی زیرِ قیادت ’’نوائے وقت‘‘ ناصرف قائم و دوائم ہے بلکہ روز بروز ترقی کی منازل طے کر رہا ہے۔محترم سعید آسی صاحب کی خدمات اور روزنامہ نوائے وقت کے ساتھ اُن کی وفاداری ایک مثال ہے۔اُن کا لکھا ہوا ایڈیٹوریل بہت ہی جاندار ہوتا ہے۔ مجید نظامی مرحوم اور حمید نظامی مرحوم نے’’ نوائے وقت ‘‘ کی صورت میں مختلف تحریکوں کی جو شمع روشن کی تھی، رمیزہ نظامی نے اُس کی لو کو مدھم نہیں پڑنے دیا۔ ’’نوائے وقت‘‘ آج بھی مجید نظامی اور حمید نظامی مرحوم کا نصب العین لیے اپنے سفر کی طرف پہلے کی طرح رواں دواں ہے۔
٭…٭…٭