کرونا نے انسانی زندگی کو جس طرح متاثر کیا ہے اس سے پہلے شاید کسی وباء نے پچھلے ایک عشرے میں نہیں کیا۔ اس کا دورانیہ بھی طویل ہے اور اس کی دہشت بھی زائد، کرونا کے حوالے سے فیس بک اور وٹس ایپ پہ لطیفہ مزاحیہ جملے، مزاحیہ اشعار اور ویڈیوکلپز دیکھنے کو ملتے ہیں ۔کہیں افسوسناک خبریں دل چیر کے رکھ دیتی ہیں اور انسانی فطرت ہے کہ وہ ہر بات میں سے نئی باتیں نکالتاہے لیکن ہربات سے قطع نظر کرونا نے انسانی نفسیات، انسانی محبت وزندگی اوربین الاقوامی طور پر معیشت کو شدید متاثرکیاہے۔ اسکی پہلی لہر میں ہزاروں افراد موت کے منہ میں چلے گئے اوراکثر ایک ہی خاندان کے کئی افراد اس کا شکار ہوئے۔ لاک ڈائون میں معاشی بدحالی، بے روزگاری نے سراٹھایا، بیماری واموات کے ساتھ ساتھ جرائم نے زور پکڑلیا، بڑے پیمانے پہ صنعت اور بزنس کو پہلی بار شدید دھچکا لگا۔جائیدادوں کی قیمتیں کم ہوگئیں اور گاڑیوں کی قیمتیں انتہا کو پہنچ گئیں۔مضافات اور دیہات کے علاقوںمیں لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ امیروں کی بیماری ہے شاید یہ بات ہمیں مضحکہ خیز لگے لیکن اس میں حقیقت کا عنصربھی پایا جاتا ہے۔ میرے بہت سے قریبی جاننے والوں کو کرونا ہوا مگر انکے گھر میں کام کرنیوالے ملازمین جوکہ انکی خدمت پہ معمور تھے اس مرض سے محفوظ رہے، میری نند کو کرونا کی انتہائی تکلیف دہ اثرات سے گزرنا پڑا مگر اسی گھر میںاسکے شوہر اور بچوں کو جو ان کی خدمت کررہے تھے اس وباء نے متاثر نہیںکیا۔ آپ سب لوگوں نے بھی دیکھا ہوگاکہ انتہائی احتیاط کرنے والے افراد بھی اس کا شکار ہوئے میرے بہنوئی جوکہ خود بھی ڈاکٹر ہیں اس وباء میں جکڑے گئے انکے کمرے میں ہسپتال میں انکی اٹینڈنٹ میری بڑی بہن جو چوبیس گھنٹے اسی کمرے میں رہتی رہیں وہ اس وباء کی لپیٹ سے محفوظ رہیں۔ احتیاط کرنا محتاط رہنا بے شک بہت ضروری ہے ویسے بھی جس طرح پبلک ہیلتھ والوں کے مربوط اشتہارات اور موبائل رنگ کے میسجز نے ہر انسان کو آگہی دی ہے اس کو سن سن کر انسان احتیاط کرنے پرمجبور ہوجاتاہے۔ مگر کوڑا کرکٹ کے ڈھیر سے بوتلیں،ڈبے اور کچرا اٹھانے والے تو محتاط نہیں، بڑے شہروںمیں بھی کھلے میدانوںمیں غریبوں کے بچے کرکٹ کھیلتے نظرآتے ہیں انہیں تو کرونا نے متاثرنہیںکیا، جلسے جلوسوںمیں جو لوگ شریک ہوتے ہیں ہزاروںمیں سے چند ہی کی کوئی خبر سننے کو ملتی ہے کہ وہ کرونا کی زد میں آیا۔اس لیے کرونا نے جہاں ہمیں انتہائی پریشان کیاہے وہاں پہ حیرانی میں بھی مبتلا کردیاہے یا اللہ ماجرا کیا ہے؟کرونا اور اعتکاف میں ایک چیز مماثل ہے کہ زاہد وعابد اور مریض ایک کمرے میں رہنے کے پابند ہوتے ہیں اس وباء کی دہشت میں آکر مریض اپنوں سے معافی مانگنے اور اپنے گناہوں سے توبہ کرتے ہیں۔ اس بیماری نے بہت سے پیاروں کو اپنوں سے جدا کردیااس جدائی میں انسانی جنازے بھی اداس رہے لوگ اپنے پیاروں کے آخری دیدار کرنے کو ترستے رہے مگر انہیں آخری دیدارکرنے کی اجازت نہیں ملی۔ انسان اپنے دوست سے فاصلہ رکھنے پہ مجبور ہے راقمہ نے اسی حوالے سے ایک فریاد لکھی ہے۔
فریاد
اے جمیل الشمیم اے شفیع الامم
رحمت ہر جہاں، شاہ عرب وعجم
مائیںمجبور ہیں باپ رنجور ہے
ہم ہیں زندہ مگر زندگی دورہے
بھائی بھائی سے ملنے سے معذور ہے
ماں کے سینے سے لخت جگر دورہے
گنبدوں کی صدا بے نور ہوگئی
سدرۃ النتہیٰ انتہا ہوگئی
ہیں اذانیں ہماری خشوع سے تہی
ہیں نمازیں ہماری خضوع سے تہی
ہم ندامت کے مارے خطاکار ہیں
نیکیوں کی نمائش کابیوپار ہیں
یانبیﷺ باب رحمت کشا کیجئے
بخت انسان پھر سے جگادیجئے
اپنی کملی میں ہم کوچھپالیجئے
یہ وبا ہوفناحوصلہ دیجئے
اپنے روضے کادرپھر سے وا کیجئے
صحن کعبہ میں سجدے سجادیجئے
ابتلائے کرونا سے پاکے نجات
نورحق سے فروزاں ہوپھر شش جہات
مسلمان تو خدا کے خاص بندوںمیں شمار ہوتے ہیں توپھر ایساکیاہے کہ ملک بھر میں ایک انتشار وبا اور تنزلی کی سی کیفیت ہے۔اللہ نے انسان کو اشرف المخلوقات بناکر بھیجا لیکن وہ نفس کے ذریعے وہ اپنے اوپر ہی ظلم کررہاہے آج بھی اسکی آنکھیں نہیں کھلیں ،ناگہانی آفات میںزمینی اور آسمانی آزمائشیں ، آج بھی بھی ہمارے اعمالوں کی وجہ سے ہمارے لیے آزمائش بنی ہوئی ہیں۔ لگتاہے کہ یقیناخداہم ناراض ہوگیا جبکہ حکم ہے کہ اللہ کی ناراضی سے ڈرو جسم کانپ جاتاہے۔ جب ہم سوچتے ہیں کہ اللہ ناراض ہوگیا تو دنیا بھی جہنم اور آخرت بھی جہنم۔حالانکہ خداتعالیٰ سریع الرضا(جلد راضی ہونیوالاہے) اکثر لوگ کہتے ہیں کہ خدا رحیم ہے وہ اپنے نبیؐ کی امت کو معاف کردے گابے شک اس میں کوئی شک نہیں لیکن ایسے لوگوں کے پاس ہے کوئی جواز کہ آخر مظلوم کی فریاد کہاں جائے گی فریاد تو رد نہیں ہوئی پھر ہم کیوں نہیں سوچتے کہ ہمیں اپنی زندگیوں کو ایمان کی رسی کو مضبوط تھام کر گزارنی ہے اور ہمارا دین انسانیت کا پیغام دیتاہے تو خدارا اپنے اپنے گریبانوںمیں جھانکئے اور خدا کے حضور سجدہ ریز ہوجائیے۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024