پاکستان چین لازوال دوستی کے 70 سال پورے ہونے پر دفاتر خارجہ میں مشترکہ جشن

دونوں ممالک کی قیادتیں اور عوام باہمی دفاع اور سٹریٹجیکل تعاون کی لڑی میں پروئے ہوئے ہیں
پاکستان چین کی شہد سے میٹھی‘ سمندروں سے گہری اور ہمالیہ سے بلند لازوال دوستی کے 70 برس مکمل ہوگئے۔ اس موقع پر دونوں ممالک نے باہمی تعلقات مزید مضبوط بنانے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ پاک چین دوستی کے 70 سالہ جشن کے موقع پر گزشتہ روز وزارت خارجہ میں خصوصی تقریب کا انعقاد کیا گیا جبکہ ایسی ہی تقریب اسی وقت چینی دفتر خارجہ میں بھی منعقد کی گئی۔ اس تاریخی موقع پر پاکستان اور چین کے وزرائے خارجہ نے ورچوئل انداز میں یادگاری ویڈیو جاری کی۔ دفتر خارجہ پاکستان میں منعقد ہونیوالی تقریب میں چینی وزیر خارجہ وانگ زی نے بذریعہ ویڈیو لنک شرکت کی۔
وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک کی دوستی عظیم اور تاریخی ہے‘ دونوں ممالک ایک دوسرے کا لازمی جزو ہیں۔ چین نے ہمارے کلیدی سٹرٹیجک معاملات اور معاشی و ترقیاتی ترجیحات میں ہماری مدد کی ہے۔ دونوں ملکوں کے تعلقات خطے میں امن و استحکام کے ضامن ہیں۔ انہوں نے کہا کہ قومی ترقی کیلئے سی پیک کے ناگزیر ہونے پر پاکستان میں مکمل سیاسی اتفاق ہے۔ پاکستان چین اقتصادی راہداری کا یہ مشترکہ منصوبہ اس خطے میں گیم چینجر کی حیثیت رکھتا ہے۔ آج چین دنیا کی دوسری بڑی اقتصادی طاقت ہونے کے ساتھ ساتھ عالمی تجارت اور آرٹیفیشل انٹیلی جنس میں اپنا لوہا منوا چکا ہے۔ انکے بقول چیئرمین مائوزے تنگ اور وزیراعظم چواین لائی نے دونوں ممالک کے تعلقات کو مضبوط بنانے میں تاریخی کردار ادا کیا۔ چینی وزیر خارجہ نے اپنے ویڈیو لنک خطاب میں کہا کہ گزشتہ 70 برسوں میں چین اور پاکستان نے مل کر تمام مشکلات پر قابو پاتے ہوئے منفرد آہنی دوستی قائم کی ہے۔ یہ دوستی دونوں ممالک کا سب سے قیمتی سٹرٹیجک اثاثہ بن چکی ہے اور اسکی جڑیں عوام کے دلوں میں گھر کرچکی ہیں۔ دونوں ممالک نے ہمیشہ اعلیٰ سطح کے قریبی تبادلوں کو برقرار رکھا ہے۔
سات دہائی قبل اس خطہ میں لانگ مارچ کی شکل میں مائوزے تنگ کی طویل اور کٹھن جدوجہد کے نتیجہ میں عوامی جمہوریہ چین کے نام سے نئی مملکت معرضِ وجود میں آئی تو اسکی اقوام متحدہ کی رکنیت کیلئے پاکستان نے سب سے پہلے اسکے حق میں ووٹ دیا۔ پھر عوامی جمہوریہ چین اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے درمیان 21؍ مئی 1951ء کو باضابطہ سفارتی تعلقات قائم ہوئے جو روزبروز نہ صرف مستحکم ہوتے گئے بلکہ لازوال دوستی میں بھی بدل گئے۔ اس تناظر میں پاک چین دوستی اس خطے اور دنیا میں ضرب المثل بن چکی ہے اور دونوں ممالک باہمی اقتصادی تعاون ہی نہیں‘ ایک دوسرے کے دفاع کیلئے دفاعی تعاون کے بندھنوں میں بھی بندھ چکے ہیں اور ایک دوسرے کی سٹریٹجیکل ترجیحات بھی مشترکہ ہیں۔ اس حوالے سے آزمائش کی ہر گھڑی میں برادر چین نے پاکستان کی معاونت کی اور اس کا ساتھ نبھایا جبکہ قدرتی آفات میں بھی پاکستان کے متاثرہ علاقوں کی بحالی کیلئے امدادی کاموں میں کبھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ہمیں توانائی کے بحران کا سامنا کرنا پڑا تو چین نے فراخدلی کے ساتھ اپنے چھ ایٹمی ری ایکٹر ہمارے علاقوں میں نصب کردیئے۔ اسی طرح زراعت کے شعبہ میں ترقی کیلئے بھی چین نے بڑھ چڑھ کر ہماری مدد کی۔
چونکہ اس خطے میں بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم سے چین اور پاکستان کو بیک وقت خطرات لاحق ہوئے اور بھارت نے اسی تناظر میں 60ء کی دہائی میں چین کے علاقے اروناچل پردیش میں چینی فوجوں کے ساتھ چھیڑچھاڑ کا سلسلہ شروع کیا جبکہ بھارت اس متصل جموں و کشمیر پر پہلے ہی اپنا فوجی تسلط جما چکا تھا اور پاکستان کی سلامتی کے درپے تھا جس کیلئے وہ اپنے زیرتسلط کشمیر ہی کے راستے پاکستان پر آبی دہشت گردی کا مرتکب ہو رہا تھا اس لئے چین اور پاکستان کے مابین دفاعی تعاون کا بھی فطری اتحاد قائم ہو گیا۔ چین کی پیپلز لبریشن آرمی نے اروناچل پردیش میں بھارتی سورمائوں کو ناکوں چنے چبوا کر انہیں پسپائی پر مجبور کر دیا اور پھر جب بھارت نے ستمبر 1965ء میں پاکستان پر جنگ مسلط کی تو چین پاکستان کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہو گیا۔ اس نے ہر علاقائی اور عالمی فورم پر پاکستان کے کشمیر موقف کا دوٹوک ساتھ دیا اور کشمیریوں کو چین آنے جانے کیلئے ویزہ فری سہولت فراہم کی۔
اسی طرح چین پاکستان کی نیوکلیئر سپلائرز گروپ کی رکنیت کیلئے بھی اسکی بے لوث حمایت کرتا رہا اور پاکستان کی سلامتی کونسل میں مستقل رکنیت کیلئے مضبوط آواز اٹھانے کے ساتھ ساتھ چین نے بھارت کی مستقل رکنیت کی ہمیشہ ڈٹ کر مخالفت کی۔ منموہن سنگھ کے دور میں جب اس وقت کے بھارتی آرمی چیف ایس کے سنگھ نے بھارت کے ایٹمی جنگی سازوسامان کے نشے میں بیجنگ اور اسلام آباد کو 96 گھنٹے میں بیک وقت ٹوپل کرنے کی بڑ ماری تو پاکستان اور چین کے مابین دفاعی تعاون مزید مضبوط ہوگیا جو خطے کے امن و سلامتی کی بھی ضمانت بنا۔ اسی تناظر میں چین اور پاکستان کے مابین گوادر پورٹ سے منسلک اقتصادی راہداری کے مشترکہ منصوبے کا معاہدہ ہوا جو آج خدا کے فضل سے اپریشنل ہونے کے قریب ہے اور پاکستان اور چین ہی نہیں اس پورے خطے کی اقتصادی ترقی کے دروازے کھول رہا ہے اور سی پیک سے منسلک ممالک کی عالمی منڈیوں تک رسائی ہوگی تو اسکے ذریعے عالمی اقتصادی ترقی کے امکانات بھی روشن ہو جائینگے۔
امریکہ اور بھارت کو اس حوالے سے سی پیک ایک آنکھ نہیں بھا رہا کہ اس سے امریکہ کا اپنے تئیں سپرپاور ہونے کا زعم ٹوٹ سکتا ہے جبکہ بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم پر زد پڑ سکتی ہے چنانچہ امریکہ اور بھارت دونوں نے سی پیک پر تحفظات کا اظہار کرکے اسے متنازعہ بنانے کی کوشش کی مگر چین نے ان دونوں کے تحفظات کا دوٹوک جواب دیا اور پاکستان کے ساتھ تعاون بڑھاتے ہوئے سی پیک کی مرحلہ وار تکمیل کا کام جاری رکھا۔ بھارت کی مودی سرکار نے دو سال قبل پانچ اگست 2019ء کو پاکستان اور چین کی سلامتی پر شب خون مارنے اور اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی بدنیتی کے تحت ہی اپنے غیرقانونی زیرتسلط جموں و کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کرکے اسے بھارتی سٹیٹ یونین میں شامل کیا تو اس پر چین نے ہی سب سے پہلے سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کرایا اور کشمیریوں کے حق خودارادیت کی کھل کر حمایت کی۔ اسی دوران جب بھارتی فوجوں نے لداخ کے راستے اروناچل پردیش میں چینی فوج کے ساتھ دوبارہ چھیڑ چھاڑ کی کوشش کی تو چین نے فی الواقع بھارت کو چھٹی کا دودھ یاد کرادیا۔ اور پھر دوسری بار ایسی ہی بھارتی کوشش پر اسے پھر انتہاء درجے کی ہزیمت اٹھانا پڑی۔
آج ضرب المثل پاک چین دوستی ایک دوسرے کے دفاع کیلئے عملاً سیسہ پلائی دیوار بن چکی ہے جس سے ٹکرانے والی کوئی بھی بیرونی قوت پاش پاش ہو جائیگی۔ پاکستان کی سول اور عسکری قیادتیں اور پوری قوم آج پاک چین دوستی کے 70 سال مکمل ہونے پر عوامی جمہوریہ چین کی قیادتوں اور عوام کے جذبات کے ساتھ ہم آہنگ ہے اور ایک دوسرے کے دفاع کیلئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا جائیگا۔ پاک چین دوستی زندہ و پائندہ باد۔