سینٹ‘ سینیٹرزاور سینٹ الیکشن

ملک بھر میں گزشتہ روز سیاست کے ایوانوں میں ہلچل مچا کر گزر تو گیا‘ کیا برس ہا برس سے منتخب سینٹرز جو عوام اور ملکی بہتری کے بلند و بانگ دعوے کرکے ایوان بالا میں آتے ہیں منتخب ہوتے ہی پرٹوکول خود نمائی اور مراعات سمیٹنے کے بعد اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں کیا نومنتخب سینٹرز اس مرتبہ تحریک انصاف کے نعرے تبدیلی کیمطابق خدمات انجام دے سکیں گے یا ایک مرتبہ پھر عوام اور ملک کے حصے میں وعدے ہی آئیں گے سینٹ کا وجود کس طرح عمل میں آیا اور اسکا تاریخی پس منظر کیا رہا پر آج لکھنا چاہتا ہوں جس طرح آپ کو معلوم ہے کہ سینیٹ (ایوان بالا) پاکستان کا وہ واحد ادارہ ہے جو تحلیل نہیں ہوسکتا۔ ایوان بالا کے انتخابات کا انعقاد الیکشن کمیشن ہر3 سال بعد کرتا ہے۔ارکان سینیٹ کی مدت 6 سال کیلیے ہوتی ہے۔ وفاق اور تمام صوبوں میں سینیٹ کی جنرل نشستوں کی کل تعداد 58 ہے۔ ٹیکنوکریٹس کی 17، خواتین 17 اوراقلیتوں کی 4 نشستیں ہیں۔جنرل نشستوں کی تقسیم دیکھی جائے تو وفاق میں ارکان کی تعداد 2، پنجاب، بلوچستان، سندھ اور خیبرپختونخوا میں 14،14 رکھی گئی ہے۔علما اور ٹیکنوکریٹس کی نشستوں کی وفاق میں تعداد ایک اور صوبوں میں 4،4 ہے۔ خواتین کی مخصوص نشستوں میں وفاق کا حصہ ایک اور صوبوں کا 4،4 ہے۔اقلیتوں کیلیے اسلام آباد سے کوئی نشست نہیں ہے اور صوبوں سے ایک ایک اقلیتی رکن کو ایوان بالا میں نمائندگی دی جاتی ہے۔سینیٹرزکی آئینی مدت 6 برس ہے اور ہر 3 برس بعد سینیٹ کے آدھے ارکان اپنی مدت پوری کرکے ریٹائر ہوجاتے ہیں اورآدھے ارکان نئے منتخب ہوکر آتے ہیں۔سینیٹ کے 52 ارکان11 مارچ2021 کو اپنی مدت پوری کرکے ریٹائرڈ ہورہے ہیں۔ریٹائر ہونے والے ارکان میں پیپلزپارٹی کے 7، مسلم لیگ ن 16، تحریک انصاف7، ایم کیو ایم 4، جے یو آئی 2، بلوچستان عوامی پارٹی 4، پی کے میپ 2 اور5 آزاد سینیٹرز بھی ریٹائرڈ ہو جائیں گے۔
جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق اور بی این پی مینگل کے جہانزیب جمالدینی بھی ریٹائر ہورہے ہیں۔ اے این پی کی سینیٹر ستارہ ایازاپنی ریٹائرمنٹ سے پہلے ہی استعفیٰ دے چکی ہیں۔ ایک سینیٹر یا ایوان بالا کے ممبر کے اختیارات اور ذمہ داریاں رکن قومی اسمبلی سے مختلف ہوتی ہیں۔سینیٹر کے انتخاب کا طریقہ کار رکن قومی اسمبلی سے مختلف ہے۔ رکن قومی اسمبلی کو عوام براہ راست ووٹوں کے ذریعے منتخب کرتے ہیں۔ سینیٹ کا رکن چاروں اسمبلیوں سے منتخب نمائندوں کے ووٹوں سے جیت کرآتا ہے۔سینیٹ کا الیکشن جیت کر ایوان بالا کا حصہ بننے والے رکن سیاسی وابستگی رکھتے ہیں۔ ایوان بالا میں بننے والے قوانین پربحث کرتے ہیں اور بل کی منظوری میں حصہ لیتے ہیں۔سینیٹرایوان بالا کا حصہ بن کر عوامی مفادات کو اجاگر کرتے ہوئے قانون سازی میں تجاویزدیتے ہیں۔ایوان بالا کے ممبر حکومتی کارکردگی پرنظر رکھتے ہیں۔ قانون سازی کا حصہ بننا، اداروں کی کارکردگی جانچنا اور مسائل کی نشاندہی ان کی اہم ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ایک سینیٹرکی تنخواہ دیگرمراعات کے علاوہ 76 ہزار 802 روپے ہے۔ سینیٹرکو پارلیمنٹ لاجز میں رہائش دی جاتی ہے۔ٹرین پر سفر کی صورت میں ایئرکنڈیشنڈ کلاس اور ایک دوئم درجے کے سفری ٹکٹ کی مد میں ادائیگی کی جاتی ہے۔ ہوائی سفر کی صورت میں ایک بزنس کلاس ٹکٹ کی رقم دی جاتی ہے۔ایوان بالا کے ممبر کو 3 لاکھ روپے سالانہ کے سفری اور 90 ہزار روپے سالانہ نقد لیو آف ٹریول وائوچرزکی مد میں ادا کیے جاتے ہیں۔ بذریعہ سڑک سفر کے دوران ارکان کو ڈیلی الائونس کی مد میں 1750 روپے سے 3 ہزار روپے یومیہ دیئے جاتے ہیں۔ سینیٹ انتخابات کا الیکٹورل کالج قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیاں ہیں ہیں۔صوبائی کوٹے سے آنے والے سینیٹرز اپنے اپنے صوبے کی اسمبلی کے ارکان کے ووٹوں سے منتخب ہوکر آتے ہیں اور اسلام آباد سے سینیٹرز کا انتخاب قومی اسمبلی کے ارکان کرتے ہیں۔پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے سینیٹرز کے انتخاب کیلئے پولنگ چاروں متعلقہ صوبائی اسمبلیوں میں جبکہ اسلام آباد اور فاٹا کی نشستوں کے لیے پولنگ قومی اسمبلی میں ہوتی ہے۔
الیکشن قوانین میں طے شدہ فارمولے کے مطابق ایک نشست جیتنے کیلئے لازم قرار پانے والے ووٹوں کی تعداد کے گولڈن فگر کے لیے متعلقہ صوبائی اسمبلی کے ارکان کی کْل تعداد کو مذکورہ صوبے کے حصے میں آنے والی سینیٹ کی موجود خالی نشستوں سے تقسیم کیا جائے گا۔گولڈن فگرحاصل نہ کرنے پرکسی بھی نشست پر انتخاب لڑنے والا امیدوار اس نشست کے تمام امیدواروں میں سب سے زیادہ ترجیحی ووٹ حاصل کرنے کی صورت میں بھی کامیاب قرار پائے گا۔دوسری صورت میں گولڈن فگر سے زائد حاصل کیے گئے ووٹ اس سے اگلے ترجیحی امیدوار کو منتقل ہوجائیں گے اورایسے ہی یہ سلسلہ آگے بڑھتا جائے گا۔ووٹوں کے اس انتقال کے باعث سینیٹ انتخابات کو منتقل شدہ ووٹوں کا انتخاب بھی کہا جاتا ہے۔ (جاری)