تین نکات مکمل کرنے کی ایک اور مہلت

جس روز سے میرے بائی لنگول سینئر بزرگ کیپٹن (ر) مسٹر فریڈ Zeneca Astra لگوا کر آئے ہیں‘ ٹیلی فون پر بڑی ہشاش بشاش گفتگو کر رہے ہیں۔ لاک ڈائون کیا ہوا ہماری Face to face ملاقاتیں تک تعطل کا شکار ہو گئیں۔ موبائل ہی اب ہمارا واحد ذریعہ ہے جس سے Covid-19‘ لاک ڈائون میں نرمی اور دنیا میں روزانہ رونما ہونیوالے واقعات و حالات پر اظہار خیال کر رہے ہیں۔ متعدد بار پہلے بھی آپ کو آگاہ کر چکا ہوں کہ کیپٹن (ر) فریڈ اپنی کپتانی کا ایک مخصوص وقت پاکستان گزار چکے ہیں اس لئے پاکستان کے حوالے سے برطانوی میڈیا میں شائع یا نشر ہونیوالی کوئی نہ کوئی خبر مجھ سے اکثر و بیشتر وہ شیئر ضرور کرتے ہیں کہ بقول انکے ’’ولایت نامہ‘‘ پڑھنے میں انہیں مزہ آتا ہے۔ ایف اے ٹی ایف پر لکھے میرے حالیہ کالم پر ان کی تجربانہ رائے یہ تھی کہ فروری میں بھی پاکستان کو شاید گرے لسٹ سے نہ نکالا جائے کیونکہ 27 نکات میں سے 21 پر عمل یا پھر 24 پر عملدرآمد کرنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہوگا کہ پاکستان نے تمام نکات تقریباً پورے کر دیئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ 37 اراکین پر مشتمل فنانشل ایکشن ٹاسک فورس پاکستان کی جانب سے بہترین مطلوبہ کارکردگی کی یقیناً تعریف کی جائیگی کیونکہ پاکستان نے دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے عملی اقدامات ہی نہیں کئے قربانیاں بھی دی ہیں جن کا ذکر دنیا کے ہر مہذب ملک میں کیا جا رہا ہے مگر! رکاوٹ اگر ہے تو وہ یہ کہ پاکستان سنجیدہ کاوشوں اور اپنے مسائل زدہ حالات کے باوجود پورے 27 نکات پر ابھی تک عمل درآمد نہیں کر سکا۔
فریڈ کے اس نقطہ نظر پرمیں نے اس وقت ان سے اس لئے اختلاف کیا تھا کیونکہ حکومت کے بیانیہ میں یہ بات واضح ہو چکی تھی کہ فروری کے اجلاس میں ایف اے ٹی ایف کے مطلوبہ چار نکات پر اس بار یقیناً کامیابی ہوگی اور اس بارے میں وزیراعظم عمران خان بھی گہرے اعتماد کا اظہار کرچکے تھے۔ مگر! افسوس۔ اس حالیہ اجلاس میں بھی چار نکات میں سے محض ایک نقطے کو تسلیم کیا گیا جبکہ تین نکات پر عملدرآمد کرنے کیلئے پاکستان کو اب پھر جون تک کی مہلت دی گئی ہے۔ مجھے حیرت ہے اس بات پر ہے کہ وزیراعظم خود جب اعتماد کا اظہار کرچکے تھے تو پھر مطلوبہ چار نکات پر عملدرآمد کرنے کے راستے میں یکدم رکاوٹ کیسے پیدا ہو گئی؟ رکاوٹ کی وجہ اگر معلوم ہو چکی تھی تو پھر مزید تاریخ آگے کروانے میں کیا مضائقہ تھا… کہیں یہ سازش تو نہیں کی گئی؟ایسے فیصلے کے پس پردہ مزید کیا عوامل ہو سکتے ہیں۔ اس بارے میں فریڈ سے مزید جاننا چاہتا تھا۔ فریڈ کا کہنا تھا کہ پہلی بات تو یہ ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ جو ممالک ایک بار ایف اے ٹی ایف کے شکنجے میں آجاتے ہیں‘ انہیں باہر نکلنے کیلئے ایک طویل تگ و دو کرنا پڑتی ہے۔ پاکستان نے تین پوائنٹس کو مکمل طور پر حل کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے۔ اس لئے اسے بلیک لسٹ میں نہیں ڈالا جا سکتا مگر پاکستان کیلئے اب لازم ہے کہ اس بار ایکشن پلان کو وہ ہر حال میں مکمل کرے۔
مگر آپ کیا سمجھتے ہیں کہ پاکستان کو دیا گیا ایکشن پلان زیادہ سخت نہیں؟ مودی سے بڑا دہشتگرد کون ہو سکتا ہے۔ میرے اس سوال پر فریڈ نے ایک ہلکا سا قہقہ لگایا۔ مجھے اندازہ تھا کہ آپ مودی کو ہرگز نہیں چھوڑو گے‘ مگر یہاں بھارت کا رول قطعی مختلف ہے۔ وہاں گو انسانی حقوق کی پامالی کی جا رہی ہے‘ ظلم و تشدد کے واقعات بھی ہو رہے ہیں‘ مگر سب کچھ ہونے کے باوجود بھارت گرے لسٹ میں نہیں اور اسی سہولت کا وہ بھرپور فائدہ اٹھا رہا ہے۔ اس کی تو بھرپور کوشش ہو گی کہ پاکستان کو وہ اپنے حمایتی ممالک کی سپورٹ سے بلیک لسٹ میں ڈلوائے۔ مگر ایف اے ٹی ایف کی توجہ اپنے ان نکات پر ہے جن پر پاکستان کو اب عملدرآمد کرنا ہے۔ آپ نے کہا کہ بھارت اور اسکے بعض حمایتی دوست ممالک پاکستان کیخلاف ووٹ دے سکتے ہیں۔ آخر وہ کونسے ایسے ممالک ہیں؟ میں نے پوچھا۔
فریڈ نے مسکراتے ہوئے کہا۔ لو سنو! اب تک کی جو اطلاعات سامنے آئی ہیں‘ ان سے تو یہی ظاہر ہو رہا ہے کہ انڈیا کے ساتھ اب اسے دفاعی آلات فراہم کرنیوالا فرانس بھی پاکستان کو مبینہ طور پر گرے لسٹ سے نکالنے کی مخالفت کرنے لگا ہے۔ ہو سکتا ہے اسکی ایک وجہ گزشتہ مہینوں میں پیغمبر اسلام کے توہین آمیز خاکوں کی نمائش پر حکومت پاکستان اور عوام کا ردعمل بھی ہو۔ رہا سوال مزید حمایتی ممالک کا! تو دستور زمانہ ہے کہ ملکوں میں بھی مفادات کے کھیل کھیلے جاتے ہیں اسلئے بھارت کی بھی یہ کوشش ہے کہ اپنی علاقائی چودھراہٹ کو دوام بخشنے کیلئے وہ ہر اس ملک سے ہاتھ ملائے جو ایف اے ٹی ایف کے حوالہ سے پاکستان کا نقاد ہو حالانکہ 13 ممالک نے پاکستان کے نکات پورے کرنے کے عمل کی حالیہ اجلاس میں تعریف کی ہے۔ ضرورت اب اس امر کی ہے کہ پاکستان جون میں مطلوبہ تین نکات پورا کرنے کیلئے انتہائی سنجیدگی کا مظاہرہ کرے۔ ایسا اگر نہیں ہوتا تو ممکنات میں ہے کہ پاکستان کو Do More کی ایک بار پھر پرچی پکڑا دی جائے جو اس ایٹمی قوت کیلئے ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہوگا۔ منگولیا اور آئس لینڈ کا نام گرے لسٹ سے اگر نکل سکتا ہے تو پاکستان کا نام کیوں نہیں؟