طلاق کی بڑھتی وجوہ
معاشرہ انسان کے مجموعے کا نام ہے اور خاندان کا وجود معاشرے کا بنیادی اکائی ہے ۔مضبوط خانداتی نظام بہترین معاشرے کی عکاسی کرتا ہے ۔خاندانی نظام کا وجود رشتہ ازدواج سے ہوتا ہے ۔جسے اسلام نے مضبوط رکھنے کے لئے نکاح کا تصور پیش کیا ۔نکاح وہ رشتہ ہے جس سے دو مخالف جنس ایک منظم معاشرہ وجود میں لاتے ہیں ۔دوسری طرف اس تعلق کا ٹوٹ جانا طلاق کہلاتا ہے ۔پچھلے کچھ سالوں کے دوران شرح طلاق کا تناسب 60 % ہے ۔حدیث نبوی ؐ کے مطابق حلال چیزوں میں سے اللہ کے نزدیک سب سے نا پسندیدہ چیز طلاق ہے ماہرین عمرانیات کے مطابق اگر شرح طلاق میں یونہی اضافہ ہوتا رہا اور 2050 میں خطرہ ہے کہ پاکستان میں خاندانی نظام ختم نا ہو جائے۔بدقسمتی سے مغربی تہزیب کے اثرات اور مادر پدر آزاد معاشرے کی اندھی تقلید اب ہمارے ہاں ماضی کے مقابلے میں طلاق سماجی مسئلہ بن چکی ہے ۔جو خاندانی نظام کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہی ہے ۔طلاق کا مطلب دو لوگوں میں جدائی نہیں بلکہ طلاق کے بعد دو خاندانوں کے درمیان نفرت کی آگ بھڑک جاتی ہے ۔جسکا نتیجہ خطرناک حد تک خاندان کے بچوں کو بھی متاثر کرتا ہے ۔2018 میں لاہور کے فیملی عدالتوں میں خلع کے کیسز کے انبار لگ گئے ۔ میاں بیوی کے درمیان عدم اعتماد ۔عدم برداشت اور شک کی بنا پر غصے میں طلاق دے دینا جو عمر بھر کے لیئے پچھتاوے کے سوا ایک روگ بن جاتا ہے ۔یہ نوبت آتی ہی چور دروازوں سے ہے جس کا آلہ کار شیطان ہے جو میاں بیوی میں لڑائی ڈلوا کر خوش ہوتا ہے اور یہ ان سے منسلک رشتہ داروں کو ہی ہتھیار بنا کر استعمال کرتا ہے ۔میاں بیوی میں طلاق کی بے شمار وجوہات ہیں جن میں صبر کا نا ہونا ۔ذہنی اور نفسیاتی مسائل ۔بے جوڑ رشتے ۔اسلامی اقدارو علم کی کمی ۔شادی بیاہ کے معاملات میں بچوں کی پسند اور ناپسند کا خیال نا رکھنا انہیں زبردستی رشتہ داروں کی خوشی کی خاطر رشتے کی نظر کر دینا ۔تعلیم کی کمی ۔جوائنٹ فیملیسسٹم ۔دین سے دوری ۔اگر معاشرہ دینی تعلیمات پر عمل پیرا ہو اور شریعت کو سامنے رکھے تو طلاق کے رجحان میں کمی واقع ہو گی ۔اس کے علاوہ مادیت پرستی کا رجحان ،لوگ ظاہری اشیاء کو مدنظر رکھتے ہیں کون کتنا کیسا جہیز لائی کسی کے اخلاقی صفات،کپڑے جوتے ،رہائش ۔گھر مادیت پرستی کی اس دوڑ نے انسان سے اس کے رشتوں کو دور کر دیا ۔ ایسے میں لڑکی کی اچھی تربیت اور بہترین پرورش کوئی معنی نہی رکھتی ۔اس کے علاوہ غربت و بے روزگاری کے باعث انسانی نفسیات پر بے پناہ اثر ہوتا ہے مرد کم آمدن کے باعث نان نفقہ نہی دے پاتا جس کے باعث نوبت طلاق تک آ جاتی ہے ۔ایک اندازے کے مطابق 8 فیصد سے زیادہ کیسز نان نفقہ کی ذمہ داری ادا نا کرنا ہے ۔ معاشرے پر اثرات کا جائزہ لیں تو ایک بڑی وجہ میڈیا ہے میڈیا ذہن سازی کرتا ہے میڈیا میں دکھائے جانے والے ڈراموں میں جس طرح فنڈڈ موضوعات زیر بحث لائے جاتے ہیں ان سے متاثر ہو کر نوجوان نسل اور خصوصاً عورتیں وہی کچھ کرنا چاہتی ہیں ۔ان ڈراموں میں آزادی اظہار کے نام پر کسی کو کچھ بھی کہہ دینا ۔خاندانی سازشیں ،تعلقات گو کہ اس میڈیا نے معاشرے کی صورت کو مسخ دکھایا جا رہا ہے اس کے علاوہ نمودو نمائش کا عنصر حد سے بڑھ جانا ۔اس سال کے دوران شوبز سے وابستہ پڑھے لکھے معروف ایکٹر بھی خلع کے ذریعے علیحدگی ہوئی ۔طلاق کی شرح میں اضافہ کی ایک اور بڑی وجہ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ہیں ۔پاکستان جیسے پسماندہ ملک میں ایسے بے شمار واقعات رپورٹ ہوتے ہیں جس کے مطابق موبائل۔انٹرنیٹ کی وجہ سے خاندان اجڑ چکے ہیں ۔گزشتہ دو برسوں میں دنیا میں ہونے والی طلاقوں میں ایک تہائی طلاقوں کا سبب فیس بک ہے ۔قرآن پاک میں اعلیٰ اسلامی اقدار آہستہ آہستہ معاشروں سے رخصت ہو رہی ہیں ۔اسکی جگہ مغربی مادر پدر آزاد معاشرے میں ترویج جس کے سب خلع اور طلاق میں بے پناہ اضافہ ہوتا ہے ۔ان وجوہات کے سبب جو اثرات پیدا ہوتے ہیں اگر ہم ان کا جائزہ لیں تو میاں بیوی میں طلاق کی وجہ سے بچوں پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔بچے نفسیاتی شکار ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے معاشرے کو ملنے والی نسل انتشار کا شکار ہوتی ہے ۔ایسے بچے معاشرے کے ئے سود مند نہی ہوتے بلکہ بوجھ بن جاتے ہیں ۔ ایک سروے کے مطابق معاشرے میں ہونے والے جرائم کے پیچھے محرکات کا جائزہ لیا گیا تو یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ یہ پیشہ ور مجرم بروکن فیملیز کے بچے ہیں ۔جن کے دماغ نے بچپن ہی سے نفرت کرنا سیکھا ہے ۔والدین کو چاہئے کہ اپنے بچوں کی تربیت پر خاص توجہ دیں۔خاص طور پر بچیوں کو صحابیات کی زندگی سے روشناس کروائیں ۔حضرت خدیجہ ؓ،حضرت عائشہ ؓ ،حضرت فاطمہ ؓکو رول ماڈل کے طور پر اپنائیں۔دنیا چونکہ ایک گلوبل ولیج بن گئی ہے اس نے رشتوں کو ایک دوسرے سے دور کر دیا ہے والدین اور بچوں میں جنریشن گیپ کو ختم ہونا چاہئے۔والدین بچوں کو پروفیشنل تعلیم کے ساتھ امورخانہ داری میں بھی سکھائیں ۔ایسے مسائل پر قابو پانے کے لئے عملی اقدامات کی ضرورت ہو ہے۔قاضی اور مصنفین کی ذمہ داری ہے کہ ان کے پاس آنے والے میاں بیوی میں جھگڑوں میں صلح صفائی کروائیں جس سے باہمی اتفاق جنم لے ۔میاں بیوی ایک دوسرے کی نفسیات کو سمجھیں ۔کیونکہ چھوٹی چھوٹی لڑائیاں علیحدگی تک لے آتیں ہیں ۔ اصلاحی اور اسلامی کتب کا مطالعہ کریں ۔اندر سے کینہ بغض انا پرستی کا خاتمہ کریں ۔اس سلسلے میں میڈیا کو اپنی روش تبدیل کرنا ہو گی خاندانی نظام کو بچانے کے لئے ریسرچ ورک پالیسیز بنانا ہونگی ۔عورتوں اور مردوں کو ان کے فرائض سے آگاہی دینے کی اشد ضرورت ہے ۔جب عورتیں اپنے حقوق کا مطالبہ کرتی ہیں حقوق بھی وہ جو اسلام نے اسے دیئے ہیں