پنشنرز کے جائز مطالبات

پنشن کا نظام انگریز سرکارنے بنایا تھا تاکہ جب ایک آدمی اپنی ساری زندگی سرکار کی خدمت میں گزار کر عُمر کے اُ س حصے میں پہنچ جائے جہاں وہ ریٹائرمنٹ کے بعد گھر بیٹھے باعزت طریقے سے ماہانہ سرکار کی طرف سے پنشن کی شکل میں رقم حاصل کرئے جس سے وہ باآسانی ماہانہ بجٹ دیکھ سکے۔پنشن کے قوانین کے تحت ہر سرکاری ملازم کی پہلی تنخواہ سے اُس کی تنخواہ کے مطابق تیس فیصد رقم بطور پنشن خزانہ فنڈ میں جمع ہوتی ہے یہ رقم ریٹائرمنٹ ہوتے وقت گریجویٹی اور ماہانہ تاحیات پنشن کی شکل میں دی جاتی ہے ۔ دوران ملازمت انتقال ہونے کی صورت میں ادارہ اُس کی فیملی کی مالی اعانت بھی کرتاہے اور پنشن اُس کی بیوہ کے نام پر بن جاتی ہے تاکہ وہ اپنی فیملی کی کفالت آسانی سے کرسکے ۔ریٹائرمنٹ کے بعد بھی سرکاری ملازم فوت ہونے کی صورت میں پنشن قانون کے مطابق اُس کی زوجہ کے نام ٹرانسفر ہوجاتی ہے پنشنرز اِس وقت پریشان ہیں۔مہنگائی کی اِس لہر میں وہ تن وتنہا لڑرہے ہیں ۔پنشنرز کو نہ تو کوئی سالانہ بونس ملتاہے ۔نہ عید پر کوئی سپشل اضافی رقم ملتی ہے مگر وہ پھر بھی وہ سرکار سے ناراض نہیں ہوتے ہیں۔آج مہنگائی نے ہر پاکستانی کی زندگی کو اجیرن کردیاہے۔مہنگائی کنٹرول کرنے میں حکومت مکمل طور پر فیل نظر آتی ہے۔کوئی مہنگے داموں چیزیں بیچنے والوں کو کنٹرول کرنے والا نظر نہیں آتا۔بجلی گیس و پانی کا ہر ماہ کا بل اب وہ دور گیا کہ آپ کو معلوم ہو کہ آپ نے بجلی گیس پانی جو استعمال کیا ہے اتنا ہی بل آئے گا۔اچانک آپ کا بل آپ کی توقعات سے زیادہ تھما دیا جاتاہے ۔عملے سے پوچھا جائے کہ ہم نے تو اتنی بجلی گیس وپانی استعمال ہی نہیںکیا تو یہ اتنا بل کیوں تو ایک ہی جواب آتا ہے کہ پہلے یہ بل جمع کروائیں پھر بات کریں اور پھر کچھ بھی محکمہ نہیںکرتا۔یہ ریاستی کرپشن ایک عام آدمی کے لیے زندگی کتنی مشکل بنا دیتی ہے کہ کئی بار تو اُس عام پاکستانی کے ذہن میں خیال آتا ہے کہ مجھے بجلی گیس مستقل طور پر کٹوا لینی چاہیے ۔لاٹین اور لکٹریوں پر گھر کا کچن چلانا ٹھیک ہوگا ۔ایک پنشنرز کی زندگی اِس وقت کی پنشن کے مطابق بہت مشکل ہوگئی ہے۔جو دو سال پہلے بجلی گیس بل نرخ اور روزمرہ اشیاء کی قیمتیں تھیں وہ بالکل بدل گئی ہیں اور اُن کی قیمتوں میں اِضافہ سے اَب پنشنرز کے لیے ہر ماہ کی فکس رقم سے اپنا بجٹ ماہانہ مشکل ہو گیاہے ۔چند ہفتے پہلے وزیر اعظم نے سرکاری وفاقی ملازمین کی تنخوائوں میں اِضافہ کیا ہے مگر پنشنرز کو وہ بھول گئے اور اُن کی پنشن میں کوئی اضافہ نہیں ہوا جس پر پنشنزرسخت نالاں ہیں۔پنشنرز عُمر کے اِس حصے میں ہوتے ہیں جب زیادہ تر کسی نہ کسی بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں اُن کے لیے ادویات واچھی خوراک کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔کیا ہی اچھا ہوتا کہ سرکا رپنشنزز کے لیے یہ اعلان کرتی کہ اُن کے لیے سرکاری فارمیسی سے ادویات چاہے جنتی مہنگی ہوں ڈاکٹرکی تجویز پر مفت دی جائیں گے۔۔پچیس فیصد سرکاری ملازمین کی تنخوائوں میں اضافہ تو اُن کے دھرنے سے دُور ہوگیا مگر کیا یہ سینیر سیٹیزن بھی احتجاج کے لیے پورے مُلک میں نکلیں تو اِن کی بازگشت ایوانوں میں سُنی جائے گی اور اِن کی پنشن میں اضافہ ہوگا۔ہونا تو یہ چاہیے کہ پنشنرز کے نمائندگان سے مل کر اُن کے تمام جائز مطالبات کو بھی مانا جائے تاکہ اُن کے لیے زندگی آسان ہو جائے ۔ہر سال ایک پنشنرز بجٹ والے مہینے کابہت بے تابی سے اِنتطارکرتاہے کہ ہو سکتاہے اِس بار سرکاری ملازمین کی تنخوائیں جب بڑھائی جائیں گی تو پنشنر ز کے لیے بھی اضافہ ہو۔اُنہوں نے اپنے محکموں کو پوری زندگی دی ہوئی ہوتی ہے تو ریاست یہ خیرات نہیں بلکہ اُن کی ملازمت اوراتنے سال سرکار کو دینے کے عوض ریٹائرمنٹ کے بعد تاحیات اُن کو پنشن دیتی ہے۔یہ اُن کا حق ہوتاہے اوریہ کوئی احسان نہیں ہے۔وزیراعظم صاحب ہروقت کہتے رہتے ہیں کہ وہ جی ہمارے بجٹ میںاِتنی رقم تو ہر سال پنشنزز پر لگ جاتی ہے ۔ایسا کہنا بھی اِن کے لیے دِل آزاری ہوتی ہے کہ کیا وہ اِس معاشرے پر بوجھ ہیں جو ایسا کہا جارہاہے ۔اُنہوں نے زندگی کے قیمتی اپنے جوانی کے سال اُس ادارے کو دیے ہوتے ہیں تو یہ اُن کا بنیادی حق ہے اور یہ پنشن کا نظام دُنیا بھر میں رائج ہے۔مگرذرا اپنے اور دُوسری اقوام عالم کا موازنہ کریں کہ وہ اپنے ریٹائرڈ ملازمین کو پنشن اور دیگر اضافی سہولتیں دیتے ہیں۔اگرپنشن کا حجم سرکار سمجھتی ہے کہ روزبروز بڑھ رہاہے تو پے اینڈ کمیشن کو چاہیے کہ پنشن کٹوتی کاطریقہ کار بدل دیں اور یہ ر قم کسی منافع بخش کاروبار یا اِنشورنس سکیم میںجمع کرانی چاہیے اور یہ ادارہ اِس بات کاپابند ہو کہ ریٹائرمنٹ یااِنتقال کی صورت میںاِسی شرح سے پنشن اورگریجویٹی ادا کرنے کا پابند ہو اور اِس سے حکومت پر پنشن کاحجم کم ہوجائے گا کیونکہ وہ ادارہ اِس قانون سازی وجہ سے پنشن دینے کا پابند ہوگا۔جب بھی وزارت خزانہ کوئی بھی نئے سکیل متعارف کرواتی ہے یا اڈہاک ریلیف دیتی ہے تو وہ صرف تنخواہ داروں پر اطلاق کرتی ہے بلکہ پنشن والوں کو بھی شامل کیاجاتاہے مگر پہلی بار ایساہوا ہے کہ کمیٹی نے سکیل سترہ سے بائیس تک کے ملازمین کی تنخوائوں کے اِضافے پر تو بات سرکاری ملازمین کے نمائندوں سے کی اور اُنہیں تنخواہ میںپچیس فیصد اضافہ کا فی الفوری اضافہ دے دیا ۔سکیل ایک سے لے کر سکیل سولہ تک والے افراد جو سفید پوش اور مشکل سے اپنے بچوں کی کفالت تنخواہ سے کررہے ہیں اُن کے بارے میں کوئی بات نہیںہوئی ۔پنشنرز جن کی پنشن تنخواہ جو لیتے تھے اُس کا نصف عموماََ پنشن میںہوتاہے یا اِس سے بھی کم تو وہ کیسے اِس میںاپنے گھر کا بجٹ چلاسکتے ہیں۔یہاںہر سال ماہر معاشیات جب بجٹ بناتے ہیں تو وہ پنشنزر کو تو ایک سائیڈ پر رکھ دیتے ہیں کہ اِن کو کیوں ریلیف دیں ۔پہلے والی حکومتیں پھر بھی کچھ نہ کچھ ہر سال پنشنرز کی پنشن میں اضافہ کرتی تھیں مگر خان صاحب نے تو ریاست مدینہ میںپنشنرز کا مزید کوئی اضافی حصہ رکھنے کا پچھلے دوسالوں کے بجٹ میں نہیں کیا ہے۔ہر بار یہی جواب دیاجاتاہے کہ وہ جو پچھلی حکومتیں تھیں نہ اُنہوں نے سرکاری خزانہ خالی کردیاتھا اور قرضے اوراُن پر سود ہم کو دینا پڑتاہے اِس لیے اضافہ ناممکن ہے۔آج عام آدمی کی زندگی بہت تکلیف میں ہے۔رونا رویا جاتاہے کہ ہماری ایکسپورٹ بڑھی ہے ہماری ٹیکسٹائل انڈسٹری نے ترقی کی ہے۔مگر عام آدمی کو کیا ریلیف ملا ہے ؟
خُداکرے میرے اک بھی ہم وطن کے لیےحیات جُرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو