پنجاب اسمبلی میں نیب کے خلاف قرارداد کیسے منظور ہوئی‘ سپریم کورٹ نے بلایا تو اس کی مخالفت میں بھی آ جائیگی: چیف جسٹس
لاہور (اپنے نامہ نگار سے + ایجنسیاں + نوائے وقت رپورٹ) سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے ایل ڈی اے سٹی ازخود نوٹس کیس میں کمپنیوں کے مالکان اور شیئر ہولڈرز کی تفصیلات طلب کر لی ہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کس قانون کے تحت نجی کمپنیوں سے ایل ڈی اے سٹی کا معاہدہ کیا گیا۔ انہوں نے ڈی جی ایل ڈی اے زاہد زمان کی جانب سے 6 کمپنیوں کے مالکان اور شیئر ہولڈرز کی تفصیلات فراہم نہ کرنے پر برہمی کا اظہار کیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ زمین اور ترقیاتی کام تو ایل ڈی اے نے کرانا ہے تو پھر کمپنیوں سے کس نوعیت کا معاہدہ کیا گیا۔ جب معاہدہ ہوا ایل ڈی اے کا ڈی جی کون تھا۔ ڈی جی ایل ڈی اے زاہد زمان نے بتایا کہ احد چیمہ تھے۔ وہ نیب کی حراست میں ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وہ کہاں تعینات تھے۔ ڈی جی ایل ڈی اے نے کہا کہ وہ قائداعظم پاور پلانٹ کے سی ای او ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پنجاب کے چیف سیکرٹری بتائیں کہ احد خان چیمہ کتنی تنخواہ اور مراعات لیتے ہیں۔ عدالت کو بتایا گیا ڈی ایم جی افسر ایک لاکھ تنخواہ لیتے ہیں ہیں اور احد چیمہ 15 لاکھ کے لگ بھگ تنخواہ لے رہے تھے۔ عدالت نے احد چیمہ کا سروس پروفائل اور تنخواہوں اور مراعات کا ریکارڈ طلب کر لیا ہے۔ عدالت نے پیراگون سی کا ریکارڈ بھی طلب کرتے ہوئے سماعت 9 مارچ تک ملتوی کر دی۔ عدالت نے نیب کے خلاف پنجاب اسمبلی میں قرارداد پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے ہیں کہ ایسے تو قرارداد آجائے گی کہ سپریم کورٹ نہیں بلا سکتی جبکہ عدالت عظمیٰ نے افسران کو احتجاج سے روکتے ہوئے حکم دیا ہے کہ کوئی افسر احتجاج نہیں کرے گا جسے استعفیٰ دینا ہے وہ دیدے‘ نیب کو کوئی ہراسں کرے گا اور نہ نیب کی جانب سے ایسا اقدام کیا جائے۔ نیب کے ساتھ تعاون کیا جائے۔ چیف جسٹس نے پنجاب اسمبلی میں نیب کے خلاف قرارداد پاس کرنے پر برہمی کا اظہار کا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اسمبلی سے احد چیمہ کے حق میںکیسے قرارداد پاس ہوئی۔ کس حیثیت سے نیب کے خلاف قرارداد منظور کرائی گئی۔ ایسے تو قرارداد آجائے گی کہ سپریم کورٹ نہیں بلا سکتی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا سپریم کورٹ بلائے تو اس کے خلاف قراردا منظور کر لی جائے گی۔ اگر نیب کسی کو طلب کرے تو وہ پیش ہو اور تعاون کرے۔ ڈی جی ایل ڈی اے نے بتایا کہ 2013ء میں ڈی ایچ اے ماڈل اختیار کیا گیا۔ اس وقت احد چیمہ ایل ڈی اے کے ڈائریکٹر جنرل تھے۔ سپریم کورٹ نے ملٹری ہسپتالوں کے فضلہ کو ٹھکانے لگانے سے متعلق پاکستان آرمی کے جج ایڈووکیٹ جنرل سے رپورٹ طلب کر لی ہے، عدالت نے سرکاری ہسپتالوں کا فضلہ نجی کمپنی کو فراہم کرنے کا معاملہ نیب کو بھجوادیا،عدالت نے کہا کہ کروڑوں کا ٹھیکہ میٹرک پاس بندے کو دے کر کسے نوازا گیا نیب پندرہ یوم میں ابتدائی رپورٹ پیش کرے۔چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں مسٹر جسٹس منظور احمد ملک ،مسٹر جسٹس اعجاز الا حسن پر مشتمل تین رکنی بینچ نے سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں ہسپتالوں کے فضلہ،، نکاسی آب کے آلودہ پانی سے متعلق از خود کیسز کی سماعت کی۔ دوران سماعت عدالتی معاون عائشہ حامدنے بتایا کہ ملٹری ہسپتالوں کے فضلہ سے متعلق تفصیلات مانگیں مگر کوئی جواب نہ آیا،، پنجاب بھر کے سرکاری ہسپتالوں میں ہسپتالوں کا فضلہ ٹھکانے لگانے کے پلانٹس نصب کر دئیے جائیں گے، عدالتی استفسار پر چیف سیکرٹری نے بتایا کہ لاہور کے سرکاری ہسپتالوں سے فضلہ اٹھانے کا ٹھیکہ 2011 سے علی ٹریڈرز کمپنی کے پاس ہے، عدالت نے سیکرٹری ماحولیات اور سیکرٹری صحت کواس معاملے پرنیب کی معاونت کرنے کی بھی ہدائت کر دی،عدالتی معاون عائشہ حامد نے دریائے راوی میں آلودہ پانی پھینکنے سے متعلق رپورٹ پیش کی اور عدالت کو آگا ہ کیا کہ پانچ سو چالیس ملین گیلن گندہ پانی روزانہ کی بنیاد پر راوی میں پھینکا جا رہا ہے،لاہور میں چار مختلف جگہوں پر ٹریٹمنٹ پلانٹ لگاے جائیں گے،چیف جسٹس نے کہا کہ دس سالوں سے حکومت میں ہونے کے باوجود یہ لوگ فلٹریشن پلانٹ نہیں لگا سکے،،، اب عدالت نے از خود نوٹس لیا ہے تو کہتے ہیں کہ فلٹریشن پلانٹ لگا دیتے ہیں، صحت اور تعلیم حکومت کی ترجیحات میں شامل کیوں نہیں رہیں،، اب ذاتی تشہیر پر کروڑوں روپے کے اشتہارات جاری کئے گئے،چیف سیکرٹری صاحب آئیے ایک ہسپتال کا دورہ کرتے ہیں، آپ چاہیں تو بڑے کو بھی بلا لیں۔ سپریم کورٹ نے الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا میں حکومت کی تشہیری مہم کے لئے سرکاری خزانے سے خرچ کی جانے والی رقم کا ریکارڈ طلب کر لیا،، چیف جسٹس نے کہا کہ وزیراعلیٰ پنجاب تشہیرکے پیسے اپنی جیب یاپارٹی فنڈز سے ادا کریں، کیا انتخابات سے دو ماہ قبل تشہیری مہم قبل از وقت انتخابی دھاندلی نہیں۔ سیکرٹری اطلاعات پنجاب نے عدالت میں رپورٹ پیش کی ،چیف جسٹس نے چینلز اور اخبارات کی تشہری مہم سے متعلق تفصیلی رپورٹ پیش نہ کرنے اور مبہم رپورٹ پیش کرنے پر سیکرٹری اطلاعات کی سرزنش کر دی،چیف جسٹس نے چیف سیکرٹری سے استفسار کیا کہ بتایا جائے وزیر اعلی کہاں ہے، عوام کے ٹیکس کے پیسوں کو اپنی تشہیر کی اجازت کس نے دی،چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سرکار کے پیسے پر اپنی پروجیکشن کیسے کی جا سکتی ہے، اشتہاروں میں ایک صاحب کی تو باقاعدگی سے تصویر بھی لگتی ہے، حکومت نے کارکردگی کیا دکھائی ہے جو اشتہاروں میں ظاہر کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے،،،بتایا جائے ایک اشتہار کے کتنے پیسے دے رہے ہیں، سیکرٹری اطلاعات نے بتایا کہ ایک منٹ کا 1 لاکھ 80 ہزار الیکٹرونک میڈیا کو ادا کر رہے ہیں، قصور واقعے پر 9 چینلز کو اشہارات دیے،چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کس قانون اور اختیار کے تحت کس کی ہدائت پر اشہارات دیئے جاتے ہیں،،،،ایک دن میں بارہ چینلز پر اشتہارات چلوائے جن پر 55 لاکھ روپے خرچ ہوئے، چیف جسٹس نے سیکرٹری اطلاعات سے استفسار کیا کہ بتائیں اشتہارات کے ساتھ وزیراعلی پنجاب کی تصویر بھی چلی تھی ،،،سیکرٹری اطلاعات کی جانب سے جواب ہاں میں آنے پر چیف جسٹس نے کہا کہ عوامی پیسے سے تشہیر کا حساب دینا پڑے گاکیا یہ قبل از وقت انتخابی دھاندلی نہیں ہے؟ الیکشن قریب ہیں اور آپ وزیراعلیٰ کی تصویر چلا رہے ہیں اس کاجواز پیش کیا جائے کہ وزیراعلیٰ پنجاب کی تصویر کے ساتھ اشتہارات قومی خزانے سے کیوں چلائے گئے، عدالت نے سیکرٹری اطلاعات سے آئیندہ سماعت پر وضاحت طلب کر لی۔سپریم کورٹ نے ناقص پانی فروخت کرنے والی کمپنیوں کو بند کرنے کا حکم د ے دیا۔ فاضل عدالت نے مضر صحت ہونیکی بناء پر اجینو موتو کی فروخت پر بھی پابندی عائد کر دی ہے۔ پانی، دودھ،، اور مرغیوں کے گوشت سے متعلق از خود کیسز کی سماعت کی۔ عدالت نے کہا کہ ہم اپنے بچوں کو ناقص پانی پینے کی اجازت نہیں دے سکتے، اجینو موتو اور استعمال شدہ تیل کے خلاف ازخود کیس میں عدالتی معاون مصطفی رمدے کے پیش نہ ہونے پر چیف جسٹس نے برہمی کا بھی اظہار کیا ۔ ڈی جی فوڈ پنجاب نورالامین مینگل نے بتایا کہ پنجاب بھر میں 1150 بوتل بنانے والی کمپنیاں رجسٹرڈ ہیں، 1053 کام کر رہی تھیں ،97 کمپنیاں بند ہو چکی ہیں، 135 کمپنیوں کے پانی کے نمونوں کی رپورٹس آنے کا انتظار ہے،578 کمپنیوں کے رزلٹ ٹھیک آئے ہیں.،340 کمپنیاں معیار پر نہیں اترتیں جنہیں بند کر دیا گیا ہے،چیف جسٹس نے حکم دیا کہ تمام کمپنیوں کے پانی کے معیار کو ہر تین ماہ بعد چیک کیا جائے، عدالت نے کہا کہ مصطفی رمدے کو وزیر اعلی ہاوس سے بلوایا جائے وہ وہیں بیٹھے رہتے ہیں، اتنے اہم کیسز میں آج تک وہ معاونت کرنے نہیں آئے، عدالتی معاون ڈاکٹرفیصل مسعود نے رپورٹ عدالت میں پیش کردی،، انہوں نے بتایا کہ مرغیوں کے گو شت کے لیے گئے نمونوں میں جراثیم نہیں پائے گئے، مرغیوں سے متعلق جو مسائل آئے ہیں وہ گوشت سے متعلقہ نہیں، مرغیوں کو ذبح کرنے اور پیکنگ کے عمل کے دوران جراثیم پائے گئے ہیں،چیف جسٹس نے کہا کہ یہ توبڑی خوش آئند بات ہے کہ گوشت میں کوئی خرابی نہیں، صفائی ستھرائی کا خیال رکھا جائے تو صورتحال پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ عدالت نے پنجاب میںجعلی پولیس مقابلے از خود نوٹس کیس کی سماعت نو مارچ تک ملتوی کرتے ہوئے آئی جی پولیس پنجاب کو بند کمرے میں بریفنگ کے لیے طلب کرلیا ہے۔ آئی جی پولیس پنجاب عارف نواز نے پولیس مقابلوں سے متعلق رپورٹ عدالت میں جمع کرا دی،، چیف جسٹس نے آئی جی پنجاب سے استفسار کیا کہ قصور میں ننھی بچی سے زیادتی کے ملزم کو پولیس مقابلے میں مارنے کے حوالے سے کیا کارروائی کی گئی،، آئی جی پنجاب نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ذمہ دار ایس ایچ او اور پولیس اہلکار گرفتار کئے گئے ہیں جبکہ افسروں کو شامل تفتیش کیا گیا ہے۔ سرکاری ہسپتالوں کی حالت زار پر ازخود نوٹس کیس میں ریمارکس دیئے کہ نازک حالت میں ایمرجنسی میں آنے والے مریض کو پہلے پرچی بنوانے کی روایت ختم کرنا ہے پرچی سسٹم کو ٹھیک کرنا اولین ترجیح ہے، ایمرجنسی میں آنے والے مریض کو پہلے علاج کی سہولت ملنی چاہیے سرکاری ہسپتال میں جان بچانے والی ادویات کی کمی کو پورا کرنا ہمارا فرض ہے، عدالت میں چیف سیکرٹری پنجاب نے ہسپتالوں میں بہتری کے لئے سفارشات پر مبنی رپورٹ پیش کر دی۔