
ٹی ٹاک ....طلعت عباس خان ایڈووکیٹ
takhan_column@hotmail
ہمارے ہاں سپریم کورٹ کا وکیل بننا ہو یا عدالتوں میں موسم گرما کا ڈریس ایشو کا معاملہ ہو ، یہاںآسانیاں نہیں وکلا کو قدم قدم پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ سخت گرمی ہو یا آگ برس رہی ہو بیچارے وکلاءکالا کورٹ پہن کر عدالتوں میں پیش ہونے پر مجبور ہیں۔ پڑوسی ملک میں ایسا نہیں ہے ۔ سینئیر ایڈووکیٹ الیاس لودھی کی بھیجی گئی پوسٹ میں بتایا گیا کہ دھلی بار ایسوسی ایشن کی طرف سے وکلاءکو خوش خبری سنائی گئی کہ وہ اس سال گرم موسم میں سولہ مئی سے تیس ستمبر 2023 تک بغیر کوٹ عدالتوں میں پیش ہو سکتے ہیں۔ وکلا کو مرضی سے کالا کوٹ پہنے یا نہ پہنے کی اجازت مل گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ گرمی صرف بھارت میں ہی محسوس ہوتی ہے؟ بار ایسوسی ایشن اور بار کونسل یہاں بھی ہیں۔ مگر کام وہ اپنے وکلا کے لئے کرتے دکھائی دیتی ہیں۔یہاں ایسا کچھ نہیں۔ آج کل سپریم کورٹ کے وکلا کی انرولمنٹ اسلام آباد ریجن میں شروع ہے۔ یہ تمام وکلا شعبہ وکالت میں پندرہ بیس سال سے وکالت کی پریکٹس میں ہیں ۔ اگر سپریم کورٹ کا وکیل بنا ہے تو انہیں پل صراط سے کیوں گزرنا پڑتا ہے۔ ہمیں بھارت اور برطانیہ کا انرول کرنے کا طریقہ کیوں دکھائی نہیں دیتا۔ کیوں پسند نہیں ہے ۔ہمارے وکلا کو سپریم کورٹ کا وکیل بننے کیلئے مشکلات کا سامنا کیوں ہے؟ جب کہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کی وکالت میں کوئی خاص فرق بھی نہیں۔ بھلا ہو سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس انور ظہیر جمالی صاحب کا جھنوں نے دس کی بجائے سات برس کا عرصہ کردیا ہے ۔ اگرتھوڑی سی سوچ بچار اور مہربانی جمالی صاحب فرماتے تو یہاں بھی وہی طریقہ کار اپنانے کا حکم صادر فرما جاتے جیسا طریقہ کار بھارت اور برطانیہ میں رائج ہے تو کیا بات تھی۔ آپ نے رولز میں ترمیم کروا کر سپریم کورٹ وکلا بننے میں آسانیاں پیدا کیں جس کا وکلا تہہ دل سے شکر گزار ہیں ۔ اب ہر وکیل سات سال کی پریکٹس کے بعد کا وکیل بن سکتا ہے۔اس سے قبل دس سال پورے ہونے پر پھر اپنے اپنے صوبوں کے دو سینئر ہائیکورٹ کے ججز کے سامنے پیش ہو کر انٹرویو دیئے جاتے ہیں ۔یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے ۔ہائیکورٹ کے انٹرویو کے بعد پاس ہونے پر فٹنس سرٹیفیکٹ دیاجاتا ہے۔اس کے لئے بھی لمبی لسٹ کا انثظار کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے پڑوسی ملک بھارت اور برطانیہ کا سپریم کورٹ کا وکیل بنے کا طریقہ ہم سے مختلف ہے۔کہا جاتا ہے بھارت میں ہائی کورٹ کے فٹنس سرٹیفیکٹ ملتے ہی وہ سپریم کورٹ کا وکیل بھی بن جاتا ہے جبکہ ہمارے یہاں ایسا نہیں ہے۔ ہائی کورٹ کی فٹنس کے بعد یہاں پاکستان بار کونسل میں پیپرز جمع کرائے جاتے ہیں۔ پھر اپنی باری کا لمبا انتظارکیا جاتا ہے ۔باری آنے پر سپریم کورٹ کا سینئر جج اور دو ممبر پاکستان بار کونسل پر مشتمل کمیٹی کے سامنے انٹرویو کے لئے پیش ہوتے ہیں ۔یہاں قسمت اور مقامی وکلا کی سیاست کا کھیل شروع ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے جس قسم کی چھان بین وکلا کوسپریم کورٹ انرولمنٹ کے لئے کی جاتی ہے کاش اتنی محنت جج بنانے والوں پر بھی کرتے تو ٓٓٓآج جوڈیشری کا نقشہ کچھ اور ہوتا ۔ ہائی کورٹ کے فٹنس سرٹیفکیٹ کے بعد پھر سے انٹرویو لینا کسی مذاق سے کم نہیں۔ کچھ وکلا کو ڈیفر کی سزا دی جاتی ہے یہ وکلا کے ساتھ سرا سر زیادتی ہے۔ کہا جاتا ہے اگر انٹرویو لینے والوں کا انڑویو ڈیفر ہونے والے وکلا لیں تو یہ بھی جواب نہ دے سکیں گے اور فیل ہو جائیں ۔لہذا سپریم کورٹ کے ا نٹرویو لینے والا سلسلہ بند کیا جائے ۔اس کے لئے بار کونسلیں اپنا رول ادا کریں پڑوسی ملک کے رولز کو اپنا کر سپریم کورٹ بننے والے وکلا کے لئے آسانیاں پیدا کریں ۔وکلا کو ذہنی ٹاچر سے بچایاجائے۔اگر وکلا اور جوڈیشری کو محفوظ بنانا ہے تو اس پیشہ کو چیٹروں سے بچائیں ۔ان سے نجات دلائیں ۔انہیں پکڑیں اور سزا دیں جن کے پاس قانون کی ڈگری نہیں اور وہ وکیل بن کر وکالتیں ہی نہیں اعلی سرکاری افسر بھی بن جاتے ہیں۔ان میں ماضی کا ایک نامور جعلی وکیل بھی تھا۔ یہ کالی بھیڑیں پاکستان کی ہر بار اور حکومتی اداروں میں موجود ہیں مگر اسلام اباد اور راولپنڈی بار ان جعلی وکلا کی کہا جاتا ہے آماجگاہ بن چکی ہیں ۔ جعلی وکلا بار کے الیکشنوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں ۔کبھی کبھی خود بھی امیدوار بن جاتے ہیں۔ الیکشن بھی جیت جاتے ہیں۔ پھر پکڑے بھی جاتےہیں۔ مگر اپنی لا فرم بنا کر دوبارہ اس پیشہ میں ان ہو جاتے ہیں ۔انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ۔حال ہی میں ایک بار پھر راولپنڈی بار سے غنیم نامی جعلی وکیل پکڑا گیا ہے۔ اپنے نام کے ساتھ اب اس نے سپریم کورٹ وکیل لکھنا شروع کیا تو ساتھی وکلا کو شک گزرا۔پھر ایک کیس میں اس کی جج سے تو تو میں میں ہوئی تو جج نے اسکی ڈگریاں چیک کرنے کا حکم دیا ۔پتہ چلا موصوف کی میٹرک کے بعد ساری ڈگریاں جعلی ہیں ۔کہا جاتا ہے اس نے تجربہ جیل میں مجرم رہ کر حاصل کیا اور جیل سے باہر آ کر وکالت شروع کردی ۔اب یہ کریمنل کا مشہور وکیل کہلاتا تھا ۔کہا جاتا ہے اب تک یہ پانچ سو سے زیادہ مرڈر ٹراہل کر چکا ہے ۔یہ تمام منشیوں کا چاہتا تھا ۔ انہیں فیس میں حصہ دیا کرتا تھا۔ ایسے نظام پر رویا ہی جا سکتا ہے۔جو وکلا اس پیشہ میں ڈگری لے کر اتے ہیں ان وکلا کو سپریم کورٹ کا وکیل بننے کے لئےے لوہے کے چنے چبانے پڑتے ہیں اور پل سراط سے گزرنا پڑتا ہے۔ جبکہ بغیر ڈگری والے جعلی وکیل سپریم کورٹ کی وکالتیں کر رہے ہیں۔ عدالتوں سے ریلف لے رہے ہیں ۔انہیں سزائیں نہیں دی جا رہی ہیں ۔اس سے ظاہر ہوتا ہے عدالتوں میںچالاک ہوشیار بندہ ہونا ضروری ہے ڈگری ضروری نہیں اور جن کے پاس ڈگری اور تجربہ ہے ان کو سپریم کورٹ کا وکیل نہیں بنایا جاتا بلکہ انٹرویو میں ڈیفر کر دیا جاتا ہے۔ اگر ایسا ہو رہا ہے تو ڈر ہے ایسے لوگ ہماری جوڈیشری میں باروں اور بار ایسوسی ایشنوں کے عہدوں میں یہ جعلی وکلا نہ گھس چکے ہوں۔ پلیز باریں اور بار کونسلیں اپنا رول ادا کریں ۔اپنی توانا?یاں اس جانب مرکوز کریں تانکہ اس پیشہ میں کالی بھیڑیں داخل نہ ہوں۔یہی باروں اور بار ایسوسی ایشنوں کا مشن ہونا چای? کہ اس پیشہ میں کو? جعلی وکیل داخل نہ ہو ۔ہر وکیل کا بھی فرض ہے کہ اپنے اردگرد جعلی وکلا پر نظر رکھیں اور ان کے گرد گھیرہ تنگ کریں ۔یاد رہےان کالی بھیڑوں کی وجہ سے وکلا کا پیشہ بدنام ہو رہا ہے ۔لہذا ان جعلی وکلا کو پکڑنے اور سزا دینے کی اشد ضرورت ہے اور جو وکلا ڈگریاں رکھتے ہیں وکالت کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں ان کے لئے آسانیاں پیدا کی جا?یں اور انہیں سپریم کورٹ کے انرول میں ڈیفر نہ کہاجائے۔ یہاں بھی وہی طریقہ نافذ کیا جائے جو بھارت اور برطانیہ میں ہے۔