
بے نقاب اورنگ زیب اعوان
laghari768@gmail.com
کراہ ارض پر بسنے والے انسانوں کی مختلف خصوصیات زندگی ہیں. جو ان کی پہچان کا ذریعہ بنتی ہیں. لالچ، حسد، بہادری، کمزوری، خود غرضی ،ایمانداری اور مفاد پرستی جیسی خوبیاں و خامیاں ان کی عظمت و تذلیل کی علامت بن جاتیں ہیں. یوں تو ان عوامل زندگی کا ہر خطہ میں پایا جانا عمومی بات ہے. بالخصوص برصغیر پاک ہند کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے. کہ ان عوامل کا ہمارے خطہ میں عمل و دخل بہت زیادہ ہے. یہاں غداری، مفاد پرستی، لالچ، خود غرضی کا کردار حد سے زیادہ کارفرما نظر آتا ہے. یہی وجہ ہے. کہ آج تک ہمارا خطہ ترقی کے زینہ پر قدم نہیں رکھ سکا. جب ہم ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچتے رہے گے. تو آگے کیسے بڑھ سکتے ہیں. ہمارے لوگوں کے خمیر میں ان عوامل نے اس حد تک سرایت کر لیا ہے. کہ وہ ان عوامل کو باعث شرم سمجھنے کی بجائے باعث فخر محسوس کرتے ہیں. مغربی و ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کا راز جاننے کے لیے جب ان کی تاریخ کے اوراق سے گرد چھانی جاتی ہے. تو پتہ چلتا ہے. کہ ان ممالک کی اقوام نے لالچ، مفاد پرستی، خود غرضی جیسی لعنتوں سے کنارہ کشی اختیار کی ہوئی ہے. وہاں ہر فرد اپنے کام سے کام رکھتا ہے. دوسروں کی زندگیوں میں نوک جھونک کرنے کے لیے ان کے پاس وقت نہیں. فضول کاموں سے کنارہ کشی نے ان کی خداداد صلاحیتوں کو نکھار کر رکھ دیا ہے. انہیں صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے. انہوں نے اپنی زندگیوں کے ساتھ ساتھ اپنے اپنے ممالک کی تقدیر بھی بدل کر رکھ دی ہے. ملک پاکستان میں کسی چیز کی کمی نہیں
مگر بدقسمتی سے ہمارے خطہ میں منفی عوامل کا کردار اس قدر ہے. کہ ہم ان سے باہر ہی نہیں نکل پاتے. جس کی بدولت ہماری اپنی زندگی اور ملک کی تقدیر زوال پذیری کا شکار ہے. سیاسی قیادت نے عوام کی تربیت کرنی ہوتی ہے. بدبختی سے ہماری سیاسی قیادت بھی انہیں برائیوں میں جکڑی ہوئی ہے. وہ اپنے ذاتی مفاد اور خود غرضی کو دست اول رکھ کر سوچتی ہے. ہمارے ہاں ہر پانچ سال بعد نئی سیاسی جماعتیں تشکیل پاتیں ہیں. ان سیاسی جماعتوں میں وہی پرانے چہرے جو پہلے کسی اور سیاسی جماعت میں لوٹ مار کر رہے ہوتے ہیں. منہ دھو کر سامنے آ جاتے ہیں. عوام بھی اس قدر محسوس ہے. کہ وہ ان کے فریب میں آنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتی ہے. جس قوم کی سیاسی قیادت ہی خود غرض، لالچ اور مفاد پرستی جیسی لعنتوں کا شکار ہو. وہ کیا خاک ترقی کرے گا. ہمارے ملک میں سیاسی قیادت بلند و بالا دعویٰ کرتی ہے . مگر عمل طور پر منفی کردار کی مالک ہوتی ہے. قیدو بند کی صعوبتیں سیاسی رہنماو¿ں کے لیے اعزاز کی بات تصور کی جاتیں ہیں. ہماری سیاسی قیادت جیل کی قید اور ریاست کے مظالم کا سامنا کرنے کے لیے عوام کو سامنے کر دیتی ہے. اور خود اقتدار کے مزے لوٹنے کے لیے تیار بیٹھی ہوتی ہے. ملک میں جمہوری حکومت کا بار بار تحلیل ہونا اس بات کی غم زاری کرتا نظر آتا ہے. کہ ہماری سیاسی قیادت ذاتی مفاد اور لالچ جیسی بیماریوں میں مبتلا ہے. جو اس کی رگوں میں کینسر کی طرح سرایت کر چکی ہیں. موجودہ سیاسی صورتحال بھی اسی کی منظر کشی کرتی نظر آتی ہے. پاکستان مسلم لیگ ن کے ارکان اسمبلی کو زبردستی ڈرا دھمکا کر پاکستان تحریک انصاف کی کشتی میں سوار کیا گیا. یہ بغیر منزل کے مسافر جس کشتی میں سوار تھے. اس کا بیچ منجدھار ڈوبنا یقینی تھا. پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے سیاست کو کرکٹ کے کھیل سے تشہبیہ دیتے ہوئے. اپنے کارکنوں کی تربیت اس ڈگر پر کی. کہ وہ اپنی جیت کے لیے کسی بھی غیر اخلاقی حد تک گر جائے. اور ملکی اداروں کی تذلیل سے لیکر لوگوں کی ذاتی زندگیوں میں عمل دخل اور کیچڑ اچھالنے سے بھی نہ ہچکچائیں. پروپیگنڈہ ان کی جماعت کا پسندیدہ ہتھیار تھا. اس جماعت نے نوجوان نسل کو اس قدر گمراہ کیا. اور ان کے ذہنوں میں زہر گھولنے کی انتہا کر دی. جس کا عملی شاخسانہ 9 مئی کے واقعات کی صورت میں سامنے آیا. ان کچے ذہنوں کی آبیاری جس سمت میں کی گئی تھی. اس نے اپنا عملی مظاہرہ دیکھا دیا. خدا کا شکر ہے. ملک کسی بڑے سانحہ سے دوچار ہونے سے بال بال بچ گیا. ہماری مسلح افواج ہمارے ماتھے کا جھومر ہے. مگر ان لوگوں نے دنیا میں اس کو تماشہ بنانے کی کوشش کی. جس کو محب الوطن پاکستانیوں نے ناکام بنا دیا. مسلح افواج کا ہر سپاہی ہمارا اپنا ہے. یہ کسی کا بیٹا، کسی کا باپ، کسی کا خاوند اور کسی کا بھائی ہے. ہم ان کو خود سے کیسے جدا کر سکتے ہیں. ہم سب ایک جسم کی مانند ہے. جس کا کوئی عضو تکلیف میں ہو تو باقی جسم بھی آرام سے نہیں رہ سکتا. کچھ نااندیش دوستوں نے اپنی مقبولیت کے خمار میں وہ کام کر دیا. جو ہمارا دشمن بھی آج تک نہیں کرسکا. جو لوگ 9 مئی کو بڑے بڑے دعوے کرتے تھے . آج اسی رفتار سے پریس کانفرنسیں کر کے پاکستان تحریک انصاف اور عمران خان سے لاتعلقی کا اظہار کر رہے ہیں. شاید ان کے ضمیر جاگ گئے. یا پھر ان کی لالچ اور مفاد پرستی نے ایک بار پھر سے انگڑائی لی ہے. اور وہ اپنے مکروہ سیاسی کھیل کو کھیلنے کے لیے ایک بار پھر سے میدان میں کود پڑے ہیں. کیونکہ سیاست ان کے ذاتی مفادات کی تکمیل کا بہترین ذریعہ ہے. وہ اپنے ناجائز سرمایہ کے بل بوتے پر اس قوم کی تقدیر سے کھیلنے کو ہمہ وقت تیار بیٹھے ہوتے ہیں. آجکل نئی سیاسی جماعتوں کی تشکیل کے چرچے ہر سو ہے. اس سلسلہ میں میٹنگز اور دعوتیں کی جا رہی ہے. شاید جہاز بھی اڑنے کے لیے تیار ہے. تاکہ ضمیر فروشی کی منڈی لگائی جا سکے. ہر الیکشن میں سیاسی جماعتوں کی تحلیل و تشکیل کسی مسئلہ کا حل نہیں. بلکہ یہ عمل ملک میں سیاسی عدم استحکام کا سبب بنتا ہے. سیاسی عدم استحکام معاشی بحران پیدا کرتا ہے. جس کی لپیٹ میں عوام آتی ہے. ملک معاشی لحاظ سے تنزلی کی طرف تیزی سے گامزن ہوتا ہے. سیاسی جماعتوں کی زبردستی تشکیل و تحلیل کرنے والوں کو بھی سنجیدگی سے سوچنا ہو گا. کہ وہ کن کن کم ظرف لوگوں پر اپنی مہربانی و عنایت کی بارش کرتے ہیں. یہی کم ظرف آگے چل کر ان کے گریبان کو پکڑ لیتے ہیں. جس سے ان کی جگ ہنسائی ہوتی ہے. اور یہ اپنی خطا کا ازالہ کرنے کے لیے ایک بار پھر سے غلط حرکت کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں. پھر سے کسی کم ظرف اور لالچی، مفاد پرست کے سر پر دست شفقت رکھ کر نءسیاسی جماعت تشکیل دیتے ہیں. جس کے تمام کھلاڑی پرانی جماعتوں سے چن چن کر لیے جاتے ہیں. مطلب کم ظرف اور لالچی لوگوں کا ٹولہ اکٹھا کیا جاتا ہے. جو تھوڑا سا اقتدار ملنے کے بعد آپے سے باہر ہو جاتا ہے. ان کی کم ظرفی کا خمیازہ پوری قوم کو بھگتنا پڑتا ہے. خدارا ہوش کے ناخن لے. اور من پسند سیاسی جماعتوں کی تشکیل کی روش سے باز آ جائے. اسی میں آپ کی اور ملک کی بقا پوشیدہ ہے. پرانی سیاسی جماعتوں اور رہنماو¿ں کو مکمل آزادی دے. کہ وہ اپنے سیاسی منشور کے مطابق ملکی مسائل سے نبردآزما ہو سکے. اور اس ملک کی ڈوبتی معشیت کو منجدھار سے نکال کر کنارے لگا سکے. متعدد بار تجربات کر کے دیکھ لیا ہے. کہ وقتی سیاسی جماعتوں کا سیاسی مستقبل نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے کیونکہ عوام ان سے محبت و لگاو¿ نہیں رکھتی . اس لیے یہ وقتی سیاسی جماعتیں اپنی موت آپ مر جاتی ہیں . مگر جاتے جاتے اس ملک وقوم کی مستقبل کو تاریک کر جاتیں ہیں. آئیے مل کر عہد کرے. کہ ہم ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر اس ملک و قوم کی بہتری کے لیے دن رات یک جان ہو کر جدوجہد کرے گے . اور ان مفاد پرستوں اور کم ظرف لوگوں سے چھٹکارا پائے گے.
دلوں کے عیب نے بدلی تھی چال یاروں کی
یہ لوگ پکڑے گئے اپنے اپنے چالے سے