
گلزار ملک
اصل میں دیکھا جائے تو انسان کی کوئی حقیقت نہیں ہے یہ تو صرف پانی کا ایک بلبلہ ہے جس کو مالک کائنات نے مٹی سے تخلیق کیا اور اسے اشرف المخلوقات بنایا پھر فرشتوں سے سجدہ کرایا یہ انسان دنیا میں آیا اور آتے ہی سب کچھ بھلا گیا اس دنیا کی رنگینیوں میں ایسے کھو گیا اور اپنی جھوٹی شان و شوکت کی خاطر اپنے آپ کو بڑا سمجھنے لگا پھر اس نے جب غرور اور تکبر میں آ کر دیگر دوسرے انسانوں کو اپنے سے کمتر سمجھنا شروع کر دیا ایسے انسان جو جب غرور تکبر جیسی بیماری میں مبتلا ہو جاتے ہیں تو پھر ان کے ہوش اڑ جاتے ہیں ان کی عقل کام کرنا بالکل چھوڑ جاتی ہے اور یہ بد دماغ بند زبان اور زبان دراز ہو جاتے ہیں تو پھر ان کے ہوش اڑ جاتے ہیں اور ایسے لوگوں کی توبہ کرنا تو دور کی بات یہ لوگ توبہ کے دروازے کی طرف دیکھتے بھی نہیں پھر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ انہیں بالکل نہیں پتہ چلتا اور اس مالک کائنات کی بے آواز لاٹھی جب ان پر چلتی ہے تو سب کچھ تباہ و برباد کر کے رکھ دیتی ہے اس دوران جب ہوش آتی ہے تو سوچتا ہے کہ کاش میں ایسے نہ کرتا اور ایسے کیا ہوتا تو شاید مجھے آج کا دن دیکھنے کو نہ ملتا پھر کیا فائدہ جب چڑیاں چگ گئیں کھیت ایسے موقع پر حضرت ڈاکٹر علامہ محمد اقبال رحم? اللہ علیہ نے کیا خوب کہا ہے کہ
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن
بہرحال دنیا و آخرت میں وہی لوگ کامیاب رہتے ہیں جو تکبر کے تاج کو پھینک کر عاجزی کی چادر اوڑھ لیتے ہیں جس کی وجہ سے اللہ کی رحمت ان کو ڈھانپ لیتی ہے اور وہ اللہ کے محبوب بندے بن جاتے ہیں۔ یہ بھی یاد رکھو کہ کسی کو کمزور اور حقیر نہ سمجھو کیونکہ راستے میں چھوٹا سا پتھر بھی آپ کو منہ کے بل گرا سکتا ہے یہ حضرت انسان پتہ نہیں کس بات پہ اتنا اکڑ رہا ہے حالانکہ اس کی اوقات بس اتنی سی ہے جب یہ دنیا میں آیا تو خود نہا نہ سکا اور نہ ہی دنیا سے جاتے ہوئے آخری بار خود نہا سکا ذرا اس پر بھی غور کرنا کہ چلنے والے دونوں پیروں میں کتنا فرق ہے ایک آگے اور ایک پیچھے مگر نہ تو آگے والے کو غرور اور نہ پیچھے والے کی توہین کیونکہ انھیں پتہ ہے کہ پل بھر میں یہ بدلنے والے ہیں اور اسی کو ہی زندگی کہتے ہیں اور ہم اس بات پر اڑے ہوئے ہیں اور دوسروں کے اچھا ہونے کا انتظار کر رہے ہیں کہ پہلے وہ اچھا بننے میں پھر بنوں گا جی نہیں ایسے بات نہیں بنتی دوسروں کے اچھا ہونے کا انتظار مت کرو بلکہ انہیں اچھا بن کر سکھاو¿ کہ اچھا انسان کیسا ہوتا ہے۔ اکڑ اور تکبر چاہے دولت کا ہو طاقت کا ہو رتبے کا ہو حیثیت کا ہو حسن کا ہو علم کا ہو بزنس کا ہو حسب و نسب کا ہو حتٰی کے تقویٰ کا ہی کیوں نہ ہو انسان کو ذلیل و رسوا کرکے ہی چھوڑتا ہے آپ نے کبھی نہیں سنا ہوگا کہ انسان کو عاجزی لے ڈوبی انسان کو ہمیشہ اس کا تکبر ہی لے ڈوبتا ہے اور یہاں پر یہ بھی یاد رکھو کہ دولت اور عہدے انسان کو عارضی طور پر بڑا کرتے ہیں لیکن انسانیت اور اچھا اخلاق انسان کو ہمیشہ بلند درجے پر رکھتا ہے غرور تو ایک ایسی انسانی حالت کا نام ہے جس میں انسان خود کو دوسروں سے فوقیت اور فضیلت دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ غرور اور تکبر کو ناپسند فرماتا ہے۔ غرور کا گناہ سب سے پہلے شیطان نے کیا تھا۔ جب حضرت آدم علیہ السلام کو تمام فرشتوں کو اور شیطان (ابلیس) کو اللہ تعالیٰ نے سجدہ کرنے کا حکم دیا تو شیطان نے یہ کہہ کر سجدہ کرنے سے انکار کر دیا کہ حضرت آدم علیہ السلام کو مٹی سے بنایا گیا ہے اور میں آگ سے بنا ہوں تو اللہ تعالیٰ نے شیطان کے اس غرور کو سخت ناپسند فرمایا اور شیطان کو قیامت تک مہلت دے کر اپنی بارگاہ سے نکال دیا۔ اس دنیا میں لوگ اپنی طاقت دولت اور عہدے کے نشے میں اپنے اندر اس قدر غرور اور تکبر پیدا کرلیتے ہیں کہ خود کو خدا سمجھنے لگتے ہیں دنیا میں اس کی مثالیں نمرود، شداد اور فرعون کی ہیں جو اپنی دولت اور طاقت کی وجہ سے اس قدر غرور میں مبتلا ہو گئے کہ خود کو خدا کہلوانے لگے اور وہ لوگوں پر اپنے غرور کی وجہ سے ظلم کے پہاڑ تورٹے تھے لیکن اللہ نے ان کے نام نشان بھی دنیا سے مٹا دیے اور انہیں دنیا کے لوگوں کے لیے عبرت بنا دیا۔ بڑائی صرف اللہ کے لیے ہے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں عاجزی کو پسند فرماتا ہے وہ انسان میں غرور جیسے کبیرہ گناہ کی بالکل اجازت نہیں دیتا لیکن لوگ ایسے بھی ہیں جو ذرا سی دولت، طاقت اور عہدہ حاصل کرتے ہیں تو ان میں غرور جیسا کبیرہ گناہ پیدا ہو جاتا ہے۔ اور وہ دوسرے لوگوں کو کم تر اور اپنے سے حقیر سمجھنا شروع کردیتے ہیں اور عاجزی چھوڑ دیتے ہیں ان کے لہجے، چال ڈھال، رہن سہن میں غرور نمایاں نظر آنا شروع ہوجاتا ہے اور وہ اپنی طاقت، دولت اور عہدے کو استعمال کرتے ہوئے کمزوروں کو ظلم و ستم کا نشانہ بناتے ہیں۔