
رات کے ساڑھے بارہ بجے کے لگ بھگ میرے ایک قریبی دوست نے لہکتے ہوئے فون پر پوچھا "میرے آفس صدر آ سکتے ہو". معذرت پر ہنستے ہوئے تفتیش کرنے کے انداز میں گویا ہوئے"بیوی سے ڈرتے ہو؟"
میں نے ایک پرانا اور بکثرت استعمال شدہ فقرہ دہراتے ہوئے کہا کہ ہر شریف آدمی بیوی سے ڈرتا ہے. ہنسی میں شوخی پیدا کرتے ہوئے بولے "بدکار بھی بیوی سے ڈرتا ہے". یہ واقعہ مجھے ایک ویڈیو دیکھنے کے بعد یاد آیا. ویڈیو میں ڈر اور خوف کی کیفیت سے بے نیاز ایک دولتمند بدمعاش ایک خوبصورت لڑکی کو شادی کی پیشکش کرتے ہوئے کہتا ہے "تمہیں بیوی بنا کر دراصل میں خوف کی پناہ میں آنا چاہتا ہوں".
بیوی کو پاو¿ں کی جوتی سمجھنے والا فلسفہ تو کب کا مسترد ہو کر دریا برد ہو چکا. اگر کوئی بہکاوے میں آ کر اِس پر عمل کرنا بھی چاہے تو اس کا انجام لڑائی جھگڑے، مار کٹائی اور مقدمہ بازی کے بعد طلاق پر م±نتَج ہوتا ہے. چاچا نورالدین گاو¿ں میں 'جورو کا غلام' مشہور تھا. ایک نوبیاہتا دولہے نے وجہ پوچھی تو ا±س نے کہا "اگر یہ کام شروع میں ہی کر لیتا اور کسی کے اکسانے پر پہلی بیوی پر اپنی دھاک بٹھانے کی کوشش نہ کرتا تو ہرگز طلاق واقع نہ ہوتی". پھر ٹھنڈی آہ بھر کر کہنے لگا، "جو کام بعد میں کرنا پڑے وہ پہلے ہی کر لینا چاہیے. اکثر ہاتھوں سے لگائی ہوئی گرہیں دانتوں سے کھولنی پڑتی ہیں". پھر گرم موسم میں سرد آہ بھر کر کہنے لگا "میری بات پلے باندھ لو! پہلی بیوی اور پہلے سسرال کا کوئی نعم البدل نہیں ہوتا".
گھر میں اچھا سالن نہ پکے تو قصور بیوی کا نہیں ہو سکتا بلکہ ذائقے کی دشمن وہ سبزی، دال یا گوشت اور مصالحہ جات ہیں جو میاں خرید کر لاتا ہے. بیچارہ مہنگے داموں پھیکے آلو لے کر لائے تو دیکھتے ہی ا±س کے کانوں میں یہ الفاظ گونجنے لگتے ہیں "بتائے دیتی ہوں! اِن کا ذائقہ شکر قندی جیسا نہ نکلا تو نام بدل دینا!". قیمت بتانے پر جواب یوں ہوگا " بہت فضول خرچ ہو، تمہاری مہنگی چیزیں خریدنے کی عادت نہیں جا رہی، بھاو¿ تاو¿ کرنا بھی نہیں آتا". کھانا جیسا بھی پکے، خاوند تعریف نہیں کرے گا تو کڑے احتساب کی گرفت میں آئے گا اور ایک دفعہ تعریف کرنے کی صورت میں اِس سلسلے کو پھر مستقل بنیادوں پر چلانا پڑے گا. جلی ہوئی روٹی کی دبے لفظوں شکایت کرنے پر بیوی اپنے موٹے موٹے آنسوو¿ں کو رخساروں پر بہاتے اور پھیلاتے ہوئے کہے گی"ابے معمولی سی جلی ہوئی روٹی کا شکوہ کرنے والے ناشکرے! کبھی تیرا دھیان میرے جلے ہوئے نصیبوں کی طرف بھی گیا ہے کیا"؟
اگر میاں دو گھنٹوں کے لئے کسی تقریب میں شرکت کرنے کے لئے جائے تو ا±سے ایک گھنٹہ گزرنے سے پہلے ہی فون آ جائے گا "تم ابھی تک گھر کیوں نہیں پہنچے؟ خیریت تو ہے؟ سخت پریشان کر دیتے ہو". اگر وہ کوئی چیز خریدنے کے لئے کسی تجربہ کار دوست کو ساتھ لے جائے تو شریکِ زندگی یہ طعنہ دینے سے نہیں چوکتی "تم بڑے کب ہو گے؟ کبھی اکیلے بھی کوئی کام کرنا سیکھ لو". اور اگر قسمت کا مارا اکیلے کوئی خریداری کر گزرے تو شامت کچھ یوں آتی ہے " خود خریداری کرنے کی اہلیت نہ ہو تو کسی تجربہ کار دوست کو ساتھ لے لیا کرو". ویسے وہ اکثر یہ کہہ کر بجلیاں گراتی رہتی ہے "دوست بھی اپنے جیسے ہی پال رکھے ہیں، سارے ایک دم نکھٹو اور نکمے. کوئی ایک ہی ڈھنگ کا ہوتا!".
رات کو جلدی نہ سونے کی صورت میں پوچھتی ہے "سو نہیں رہے، کوئی پریشانی ہے کیا"؟ اور جلدی سونے پر کہتی ہے، "تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے نا!" نئی تحقیق کے مطابق ایک چ±پ ہزار س±کھ والا محاورہ دانشور اور مفکر قسم کے شوہروں نے سالہا سال کی عرق ریزی کے بعد بیوی کی برتری اور عظمت کو دائمی حیثیت دینے کے لئے بطورِ خاص تخلیق کیا تھا.
میرے حلقہئ احباب میں ایک تگڑا شوہر ہونے کی شہرت رکھنے والے دوست نے بتایا کہ ا±س نے قصاب سے گوشت کا ایک ٹکڑا خریدا اور ا±س کا قیمہ بنوا کر آدھے قیمے کو سفید اور باقی آدھے کو کالے رنگ کے شاپر میں ڈلوا لیا. بیوی کو بتایا کہ دو مختلف دوکانوں سے خریدا ہے۔
اچھی طرح ملاحظہ کرکے کہنے لگی، " کالے شاپر والا قیمہ اچھا ہے اور سفید شاپر والے پر تو پیسے ہی ضائع کئے ہیں". ایک دفعہ ماہِ صیام میں رات کے وقت دکان کے باہر ا±سے موٹرسائیکل کے پاس ہی رکنے کا کہہ کر ا±س کی بیگم نے کافی وقت بھاو¿ تاو¿ کا ہنر آزمانے کے بعد کاغذی بادام اور ٹماٹر خریدے. تمام ٹماٹر چن چن کر اپنی مرضی سے ڈالے۔
گھر آ کر فاتحانہ انداز سے شاپر کھولے تو تمام ٹماٹروں کو گلے سڑے پایا. بادام بھی کاغذی کی بجائے عام ہی نکلے. جب بیگم کی تشفی کے لئے ا±س نے ہیرا پھیری اور بددیانتی سے شاپر بدلنے پر دکانداروں کو بے ایمان اور دوزخی قرار دیا تو بیگم دل جلا کر کہنے لگیں، "ساری غلطی آپ ہی کی ہے. موٹر سائیکل چلانے سے پہلے آپ کو ہر شاپر کھول کر دیکھنا چاہئیے تھا". ایک دفعہ جب شوہر کی طرف سے بیوی کو سنگین نتائج کی دھمکی ملنے کے بعد ا±س کے قریبی عزیز کے ہاں جانا پڑ گیا تو وہ جاتے ہی کہنے لگی "میں تو کب سے انہیں آپ کے ہاں آنے کا کہہ رہی تھی مگر یہ کسی کی بھلا سنتے ہی کب ہیں؟ اب بھی بڑی مشکل سے گھسیٹ کر لائی ہوں".
ایک امیر و کبیر شوہر کا فلسفہ ہے کہ دو بیویاں ہونے کی صورت میں نہ تو کوئی دقت پیدا ہوتی ہے اور نہ ہی محبت تقسیم ہوتی ہے. ہر قسم کی کمی کا خلا دولت اور تحائف کی برستی گھٹائیں پ±ر کر دیتی ہیں. دوسرا بیاہ رچانے کی صورت میں ا±س کو دوسری بیوی کی حاکمیت قبول کرنے پر بھی کوئی اعتراض نہیں ہے. البتہ اپنے پہلے تلخ تجربے کی بنا پر وہ خواہ مخواہ ایک اور 'ڈاہڈی اور تگڑی' ساس سے 'پنگا' نہیں لے سکتا.
کبھی بیوی خاوند کو نام سے پکارنے کی بجائے پپو کا ابا کہہ کر پکارتی تھی. تعلیم نے چلن بدلا تو پپو کے ابے کو نام سے پکارا جانے لگا. وقت نے مزید کروٹ لی تو عرفی نام (nick name) کو فروغ ملا. روشن خیالی کو عروج ملا تو شوہرِ نامدار 'بڈی اور بے بی' کے درجے پر فائز ہو گیا. جب بیوی اوروں کے سامنے ا±س کو بے بی کہہ کر مخاطب کرتی ہے تو وہ بے چارہ کَس?مَسا کر رہ جاتا ہے اور ا±س کو اپنی جسامت میں بیوی کی سی فیلنگز آنی شروع ہو جاتی ہیں.
یہ کہنا بھی درست نہیں کہ شوہر سدا معتوب اور بیویاں ہمیشہ معتبر رہتی ہیں. اکثر بیویاں شادی کے پہلے پانچ سے سولہ سال تک ساسوں اور نندوں کے عتاب کا شکار رہتی ہیں. ا±ن کے شوہر بس ریموٹ کنٹرول کی مانند ہوتے ہیں. اِس عرصے کو بیویوں کے لئے 'آزمائشی مدت' بھی کہا جا سکتا ہے. شروع کے سالوں میں شوہروں کی جانب سے ساسوں اور نندوں کی سفارشات پر ایک کے بعد دوسری توسیع ملتی رہتی ہے۔
پھر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ وہ بچوں کو ساتھ ملا کر تمام متعلقین سے اپنے اگلے پچھلے اور چھوٹے بڑے حسابات پورے عزم و ہمت اور گنتی کے ساتھ چکتا کرتی ہیں. جنسی ساخت جوں کی توں رہنے کے باوجود کردار باہم بدل جاتے ہیں اور وہی متاثرہ بیویاں شوہروں کے ہاتھوں میں روزانہ کی بنیاد پر تا دمِ مرگ توسیع کا پروانہ تھماتی رہتی ہیں.
٭....٭....٭