
بونی سوچ کے حامل افراد اور منفی رویوں کے پست قدامت افراد معاشرے میں فتنہ و فساد پھیلا کر اسے اصلاح اورشعور کا نام دیتے ہیں، یہ سطحی سوچ ملک میں افراتفری اور فساد کو پروان چڑھا رہی ہے ، قرآنِ حکیم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ ” اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد بپا نہ کرو، تو کہتے ہیں ، ہم ہی تو اصلاح کرنے والے ہیں “ سورة البقرہ آیت 11, اگلی آیت میں ارشاد ہے کہ ” آگاہ ہو جا? یہی لوگ (حقیقت میں ) فساد کرنے والے ہیں مگر انہیں (اس کا شعور )احساس تک نہیں “ آیت 12,۔
شعور اپنی ذات اور اپنے ماحول کو پنپنے کی صلاحیت یا با خبر ہونے کی حس کا پیمانہ ہے ، جو کہ اصل میں عقل کی ایک خاص کیفیت ہے ، جس میں انسان ذاتی اصلاح ، دانائی ، آگاہی اور خودی کی پہچان کی خصوصیات کا مالک ہوتے ہوئے ادب واحترام کے ماحول میں ایک ربط پیدا کرتا ہے جس سے ایک مہذب معاشرہ ایک قوم بنتی ہے ، فتنہ و فساد کو شعور کے معنی میں ڈھال کر ذاتی مفاد حاصل کرنا اور اسے نظریہ بنا کر باطن میں فتنہ پرداز بن کر اللہ کی زمین میں فساد برپا کر کے یہ کہنا کہ ہم نے عوام کو شعور دیا ہے ، یہ شعور نہیں ہنگامہ خیزی ہے، ملک کی سرحدوں کے محافظوں اور عوام کو غلامی سے بچانے والے سپاہیوں کے خلاف عوام کو بھڑکا کر قوم کے محافظوں کی تضحیک کرنا ،اور اپنی جان کا نذرانہ دینے والوں کے خلاف فساد بپا کر دینا شعور نہیں فتنہ فساد ہے ، ایسی سوچ کے مالک شعور اور فتنہ میں فرق کو پوشیدہ رکھ کر نوجوان نسل کو بگاڑنے کے مجرم ہیں۔
جس شخص یا معاشرے میں برداشت نہیں ہوتی وہ ایک بے روح جسم کی طرح ہوتا ہے ، معاشرے میں عدم برداشت وحشت درندگی کو پروان چڑھاتی ہے جس سے رشتوں کی پہچان ختم ہو جاتی ہے ، انسان حیوانی کیفیت کا شکار بن جاتا ہے ، 9 ، مئی کا واقعہ پاکستان کی تارخ کا بد ترین اور حسد و بغض میں لپٹا سوچی سمجھی منصوبہ بندی کا سیاہ دن تھا جسے دنیا کا کوئی با شعور انسان سیاسی یا جمہوری رویہ قرار نہیں دے سکتا، ایسے منفی رویہ کے حامل افراد دہشتگرد ، فتنہ و فساد اور بیرونی ملک دشمن ایجنڈے کی تکمیل پر مامور ہوتے ہیں عوام کو اسلامی ٹچ دے کر گمراہ کر کے اپنے مذموم عزائم کو حاصل کرنے کے خواہاں یہ وحشی نہ ملک اور نہ ہی قوم سے مخلص ہوتے ہیں۔
پاکستان میں جھوٹ ، فریب ،منافقت اور کسی ثبوت کے بغیر الزام تراشیوں سے عوام کو ورغلا کرمعاشرے کو منتشر کرنے کی روایت ڈال کر اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے والے گروہ نے 9 مئی کی منصوبہ بندی کر کے ملکی اداروں میں بغاوت پیدا کرنے کی ناپاک حرکت کی۔ یہ گروہ جسے بعض سیاستداں سیاسی پارٹی ہی نہیں مانتے لیکن ان پر پابندی کے مخالف بھی ہیں ، اس سے ان کا سیاست میں دوہرا معیار عیاں ہوتا ہے ،اورسیاست کو پراگندہ کرنے اور مستقبل قریب میں اپنے مفاد کو حاصل کرنے کا عندیہ ملتاہے ، ملک کی ساکھ کو نقصان پہنچانے والوں کے لئے کسی قسم کا کوئی نرم گوشہ رکھنا مزید انتشار اور فتنے کو پروان چڑھانے کی سعی ہوگی۔
جب ماضی قریب میں اس گروہ نے حسد اور بغض کی آگ میں سلگتے ہوئے اپنے دورِ حکومت میں ساری اپوزیشن کو قیدو بند میں رکھا،ایک دینی اور سیاسی جماعت پر پابندی لگائی اس وقت یہ سیاست دان کیوں خاموش تھے، ماضی میں بھی دہشتگردی میں ملوث دینی اور سیاسی جماعتوں پر پابندی لگائی گئی تو دہشتگرد، فتنہ پروراور ملک کو غیر مستحکم کرنے والوں پر پابندی کیوں نہ لگائی جائے ، ملک اور فوج کو عالمی سطح پر بدنام کرنے والوں اور ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ان افراد کو ایسی سزا دینی چاہئے کہ ان کی نسلیں یاد رکھیں، ان کے سہولت کاروں کو قرار واقعی سزا ملنی چاہئے جو کہ ملک دشمنی پر مبنی سوچ کے آلہءکار بنے ، لہٰذا ایسے تمام افراد کو عبرت کا نشان بنا دینا چاہئے۔ اداروں میں چھپے ملک دشمن سوچ کے حامل افراد کی تمام مراعات ختم کی جائیں۔ جو اداروں سے فارغ ہو کر بھاری پنشن اور دوسری مراعات حاصل کر رہے ہیں وہ ضبط کر کے ان پر بھی آرمی ایکٹ کے تحت مقدمات درج کئے جائیں اور فی الفور ان ملک دشمن عناصر کو کیفرِ کردار کو پہنچا یا جائے۔
ملک کے ادارے اور ایجنسیاں متعلقہ شواہد کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اس نتیجہ پر پہنچ چکی ہیں کہ 9 مئی کو تو پھوڑ جلاﺅگھیراﺅ کرنے کے پس پردہ عوامل میں عمران خان کی گرفتاری کا کوئی عنصر نہیں تھا بلکہ ایک سوچی سمجھی سازش تھی ، جس کے تحت عوام کو فوج کے خلاف بھڑ کا کر ملک کے طول وعرض میں صرف اور صرف فوجی تنصیبات اور املاک کو نشانہ بنایا گیا ، پس پردہ عوامل ظاہر کرتے ہیں کہ اس گروہ کا اپنے بیرونی اور اندرونی سہولت کاروں کی مدد سے فوج میں بغاوت پیدا کرنے کا گھناﺅنا منصوبہ بھی تھا۔
سرِ دست یہ بات قوی وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ فوجی تنصیبات پر حملے منصوبہ بندی کے بغیر ناممکن تھے،لوگوں کے جھتوں کو باقاعدہ منظم طریقے سے اہداف بتائے گئے اور ان کی رہنمائی بھی کی گئی ، عہدِ رفتہ اور عصرِ حاضر میں ملک کی سیاسی پارٹیوں کے سربراہ گرفتار بھی ہوئے اور نااہل بھی کئے گئے لیکن ان کے کارکنوں نے فوجی تنصیبات کا رخ نہیں کیا بلکہ معمول کے مطابق سڑکوں پر احتجاج ہوا ، لہذا سیاست میں عدم برداشت اور ملکی مفاد کو ملحوظ ِ خاطر رکھ کر سیاسی اور جمہوری رویے اپنائے جاتے ہیں ، ملک کے دفاع پر مامور افواجِ پاکستان کو نشانہ بنانا جمہوری نہیں ملک دشمن رویہ ہے، ملک دشمن رویے اور سوچ کا قلع قمع کیاجانا ہی وقت کی اہم ضرورت ہے۔
٭....٭....٭