
ڈاکٹربچوں نے مجھے وڈیو بھیجی اور میں آنسو بن کر رہ گیا۔ ایسے لگا جیسے پوری قوم کے بچے کو پاﺅں تلے روندا جا رہا ہو۔نگران حکومتوں کو نظام حیات کو چلانے کےلئے پہلے سے ہی بہت سے امتحانوں کا سامنا ہے ۔ لاہور میں چلڈرن ہسپتال میں دہشت گردی کے واقعے کو اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہئیے جس نے پورے صوبے میں صحت کے نظام کو درہم برہم کردیا ہے اور المیہ یہ ہے کہ ایک ڈیوٹی ڈاکٹر پر قاتلانہ انداز میں پانچ چھ ہٹے کٹے افراد کی طرف سے حملے کی بنیادی ذمہ داری سندھ سے تعلق رکھنے والے طاقت کے نشے میں بدمست ایک سب انسپکٹر پولیس کی ہے جس نے ڈاکٹر کو پہلا تھپڑ رسید کر کے اپنے جوانوں کوحملے کےلئے اکسایا اورپھر وہ ہوا جو سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکا ہے۔
یہ بھی المیہ ہے کہ سات ماہ کی بچی کو انتہائی مخدوش حالت میں ہسپتال لا یا گیا ڈیوٹی سٹاف کو اس حال میں جن ہنگامی تکنیکی پروسیجرز کی ضرورت ہوتی ہے ان کی اجازت بھی نہ دی گئی اورجب پہلے سے ادھ موئی بچی کی جان چلی گئی تو اپنی غلطیوں اور تاخیر پر نادم ہونے اورصبر کرنے کی بجائے اس ڈاکٹر کو نشانہ بنا دیا گیا جو اس وقت ڈیوٹی پر آیا تھا۔ و ہ خوبصورت ڈاکٹر جس کی صرف ایک ہفتے بعد شادی ہونے والی تھی اس وقت جنرل ہسپتال میں موت وحیات کی کشمکش میں ہے کہ سر اور ناک کی ہڈی سب ٹوٹ چکے ہیں اور ڈاکٹر اسکی زندگی بچانے کی سر توڑ کوشش کر رہے ہیں۔ بڑے ہسپتالوں میں او پی ڈی بند ہیں۔ حکومت کیطرف سے فوری اقدامات کرتے ہوئے ملزموں یا مجرموں کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور ڈاکٹروں کی تنظیموں کی طرف سے اس بات کو سراہا گیا ہے کہ انکے مطالبے پر ملزموں کیخلاف ایف آئی آر میں ATA-7 بھی لگائی گئی ہے۔ہسپتالوں میں ہڑتال تو ہے لیکن اس بات کا خیال رکھا جا رہا ہے کہ ایمرجنسی کو کھلا رکھا جائے اور وارڈوں میں بھی عوام کوعلاج کی سہولتیں بہم پہنچائی جاتی رہیں۔ وائی ڈی اے جوان ڈاکٹروں کی نمائندگی کرتی ہے توپی ایم اے پاکستان کے سینئر اور اہم ڈاکٹروں کی نمائندہ جمہوری تنظیم ہے۔ سینئر ڈاکٹروں نے بھی اس واقعہ کو بہت سنجیدہ لیا اورگزشتہ روزپی ایم اے پنجاب کے آفس میں پنجاب کی صوبائی مجلس عامہ کا اجلاس لیفٹیننٹ کرنل (ر)ڈاکٹر غلام شبیر صدرپی ایم اے پنجاب، کی صدارت میںپی ایم اے ہاوس لاہورمیں منعقد ہوا۔ جس میں پروفیسر ڈاکٹر اشرف نظامی، پروفیسر ڈاکٹر شاہد شوکت، ڈاکٹر کامران احمد، ڈاکٹر کامران سعید، ڈاکٹر تنویر انور، ڈاکٹر اظہار احمد چوہدری اور پنجاب بھر سے عہدیداران اور مجلس عاملہ کے کثیر ارکان نے شرکت کی۔اس اجلاس کا بنیادی ایجنڈا چلڈرن ہسپتال لاہور میں ہونے والی ڈاکٹروں کے خلاف بربریت اور دہشتگردی کے لا ئحہ عمل کے بارے میں غور فکر کرنا تھا۔ چنانچہ حکومت سے پرزور مطالبہ کیا گیا کہ ان حیوان اور درندہ صفت لوگوں جن میں سندھ پولیس کا ایک اہلکار بھی شامل ہے ان کو مثالی سزا دی جائے۔ ان پر اقدام قتل،لوگوں کو بنیادی صحت کی سہولیات میں رکاوٹ، دہشتگردی اور دنگا فساد کی دفعات کے تحت قابل عبرت سزا دی جائے۔اورگورنمنٹ آئے روز اس طرح کے واقعات کے روک تھام کیلئے ٹھوس اور قابل عمل اقدام کرے۔ حکومت سے یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ ڈاکٹروں اور صحت کے عملے کی حفاظت کو یقینی بنایا جائے۔ انہیں ایک
environment Safe working
مہیا کی جائے۔سول سوسائٹی اور عوام کی آگاہی کی مہم چلائی جائے کہ ڈاکٹروں کے ساتھ بد تمیزی اور ہتک آمیز رویے سے آخر کار عام پبلک کا نقصان ہوتا ہے۔کیونکہ مریض اور ڈاکٹر کا رشتہ ایک عزت اور کیئرکا رشتہ ہوتا ہے جہاں عزت نہیں ملے گی،وہاں کیئر بھی نہیں ملے گی۔اور اسطرح ڈاکٹرز سیریس مریض جن کی زندگی کو خطرہ ہو گا ان کا علاج توجہ اور دل جمعی سے نہیں کرینگے۔ جس سے صحت کا نظام بری طرح متاثر ہو گا۔اور یہ بھی باور کر وایا جائے کہ ہمارے ملک سے ذہین اور محنتی ڈاکٹرز ملک چھوڑ کر دوسرے ممالک میں اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں اور ان ذہین لوگوں کی ہجرت کرنے کی سب بڑی وجہ اپنے ملک میں سیکیورٹی اور عزت کی نا پیدگی ہے۔
عزت نفس جس سے زخمی ہو
ایسی چھاﺅں سے دھوپ بہتر ہے
اس اجلاس میں یہ قرارداد منظور کی گئی کہ ان لوگوں کو جلد از جلد قابل عبرت سزا د ی جا ئے ورنہ ڈاکٹر کمیونٹی اپنی عزت اور جان و مال کی حفاظت کے لیے بھی کوئی قدم اٹھانے سے باز نہیں آئے گی۔جس میں ملک گیر ہڑتال بھی شامل ہے۔پی ایم اے نے ایف آئی آر میں اقدام قتل کے دفعہ 307 تعزیرات پاکستان شامل کرنے ڈاکٹروں اور ہسپتالو ں میں کام کرنے والے دیگر ملازمین کے تحفظ کیلئے ہیلتھ پروفیشنل پروٹیکشن بل کو تنظیموں کی مشاورت سے آرڈیننس کی شکل میں فی الفور نافذ کرنے پنجاب ہیلتھ کیئر کمیشن کی طرف سے چلڈرن ہسپتال والے وقوعہ میں چلڈرن ہسپتال کے ڈیوٹی پر موجود ایڈیشنل / ڈپٹی میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کو اس کے غیر مہ دارانہ رویے پر فی الفور معطل کرنے کے مطالبات بھی کئے گئے اور یہ بھی کہا گیا کہ مطالبات کے پورا ہونے تک صوبہ بھر میں دہشتگردی کےخلاف ڈاکٹرز اور میڈیکل سٹاف کی ہڑتال جاری رکھی جائے گی۔اس وقت نگران حکومت کے وزیر صحت پروفیسر ڈاکٹر جاوید اکرم پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ وہ خود دو میڈکل یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر بھی رہ چکے ہیں اور ڈاکٹروں کے مسائل سے آگاہ بھی ہیں۔یقینا وہ ڈاکٹر تنظیموں کی تسلی کے مطابق اقدامات میں موثر کردار ادا کر کے اس بحران کے خاتمے کو ممکن بنائیں گے۔ڈاکٹروں کے مسائل ہیں ہی کتنے ؟ سروس سٹرکچر، ڈیوٹی پر تحفظ ،عزت نفس اور بس۔ تحفظ کی بات کی جائے تو اس واقعہ کے مرکزی کردار پولیس کے اے ایس آئی نے ایک بار پھر یہ بڑا سوال سب کے سامنے رکھ دیا ہے کہ جس کے پاس پیسے اختیار یا کسی اور صورت میں طاقت ہووہ قانون سے خود کو بالا کیوں سمجھنے لگ جاتا ہےے اور ہمار معاشرے میں پھیل جانے والا یہ زہر ہمیں کہاں پہنچائے گا قانون کا انصاف اور عدالتوں کا خوف کیسے ہماری زندگی کا حصہ بنے گا کب تک جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا اصول چلے گا کیونکہ اس وقت تو ملک کے سارے بحرانوں کے پس منظر میں یہی مرض نظر آتا ہے۔