سر راہے
بلوچستان کا پھر سندھ پر پانی چوری کا الزام
’’الزام ان کو دیتے تھے قصور اپنا نکل آیا۔‘‘ سندھ کی طرف سے ہمیشہ پنجاب پر پانی چوری کا الزام لگایا جاتا رہاہے۔ حالانکہ پنجاب ایثار کرتے ہوئے اپنے حصے کا پانی بھی کاٹ کر سندھ کو دیتا آیا ہے۔ اب تو تنگ آکر پنجاب کی طرف سے کہا جارہا ہے کہ نہروں اور بیراجوں پر چیکنگ کا ٹیلی میٹری نظام نصب کیا جائے تاکہ معلوم ہو کس صوبے کو کتنا پانی دیاجارہا ہے یا نہروں اور بیراجوں سے سندھ کو کتنا پانی دیا جارہا ہے۔ ابھی سندھ اور پنجاب میں پانی چوری کا مقابلہ حسن و الزام تراشی جاری تھا کہ درمیان میں بلوچستان بھی کود پڑا۔ اس کا الزام ہے کہ سندھ ایک بار پھر اس کے حصے کا پانی چوری کررہا ہے۔ گویا یہ مشق ستم نجانے کب سے جاری ہے۔ اب گزشتہ دس دنوں میں سندھ نے بلوچستان کے حصے کا 55 فیصد پانی چوری کرلیا اور ڈکار تک نہ ماری۔ اب حکومت بلوچستان یہ معاملہ سندھ حکومت اور سی سی آئی کے سامنے اٹھائے گی۔ تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو۔اب اس سلسلہ میں وفاقی حکومت کو چاہئے کہ وہ باپ کا کردار ادا کرے اور چاروں بھائیوں کو بٹھا کر بات چیت سے یہ مسئلہ حل کرے۔ یوں الزام تراشی سے سوائے بدمزگی کے اور کچھ نہیں ملے گا۔ حکومت ازخود پانی کی تقسیم کا جائزہ لے اور شکوک دور کرے۔ویسے اس مسئلہ کا واحد حل ملک میں پانی کے ذخائر بڑھانا ہے اس کیلئے ڈیم بنائے جائیں تاکہ پانی کی قلت دور ہو۔ اس کا آسان ترین حل کالا باغ ڈیم کی تعمیر میں پوشیدہ ہے…
٭٭٭٭٭
برقعہ پہن کر عدالت آنے والا نوجوان گرفتار
حیف اس چارگرہ کپڑے کی قسمت غالب
جسکی قسمت میں ہو عاشق کا گریباں ہونا
غالب کی اس کسک سے تو لوگ واقف ہی ہوں گے۔ اب یہ جو جدید دور کے مجنوں نما لڑکے ہیں ان کو کیا کہا جائے گا۔ کیا ان کیلئے ہم ’’عاشق کا برقعہ ہونا‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ محبت کے ہاتھوں اندھے ہونے والے یہ نوجوان پہلے تو شیر جوان بن کر دکھاتے ہیں اور لو میرج کرلیتے ہیں۔ جب لڑکی کے لواحقین عدالت کا رخ کرتے ہیں تو یہی شیر جوان برقعہ پہن کر عدالتوں کا رخ کرتے ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ عدالت میں یا احاطہ عدالت میں لڑکی والے ان کا جو حشر کریں گے وہ دنیا دیکھے گی۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ یہ لڑکے بھی عدالت میں اپنے گھر والوں کے ساتھ آتے جس طرح لڑکی والے مل کر آتے ہیں تاکہ حساب برابر کا ہو اور جوڑ بھی برابر کا پڑے۔ حیرت ہے پسند کی شادی کرنے والے یہ مجنوں اتنا حوصلہ بھی نہیںرکھتے۔ شاید اس جدید دور کے مجنوں کو پتہ تھا کہ احاطہ عدالت میں گھمسان کا رن پڑسکتا ہے۔ جبھی تو لڑکا لڑکی دونوں برقعہ پہن کو عدالت میں آئے جو لوگ اپنے گھر والوں کا سامنا نہیں کرسکتے وہ بھلا زندگی کی تلخیوں کا مقابلہ کیسے کریں گے۔ بہتر تھا یہی رشتہ گھر والے مل بیٹھ بادل نخواستہ ہی سہی طے کرلیتے تو آج یہ کچھ نہ ہوتا اب لڑکا دھوکہ دہی کے الزام میں حوالات کی ہوا کھا رہا ہے…
٭٭٭٭
لیسکو نے گرمیوں میں لوڈشیڈنگ کا شیڈول تیار کرلیا
جی ہاں ابھی توپارٹی شروع ہوئی ہے۔ آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔ بہت مزے کرلئے شہریوں نے ابھی تو گرمی نے رنگ جمانا شروع کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی لیسکو والوں کی آنکھ بھی کھل گئی ہے۔ انہیں یاد آگیا ہے کہ ابھی تک انہوں نے شہریوں کو خواب خرگوش سے جگانے کیلئے بجلی کا کوئی جھٹکا نہیں دیا۔ سو اب لیسکو نے ماہ رواں یعنی جون کیلئے بجلی کی لوڈشیڈنگ کا شیڈول منظور کرلیا ہے جس کے مطابق روانہ 4 تا 6 گھنٹے بجلی کی آنیاں جانیاں لگی رہیں گی۔ یوں اس دوران شہری پنکھوں اور اے سی کی ہوا کو ترسیں گے۔ تاہم ترس کھاتے ہوئے لیسکو حکام نے بتایا ہے کہ وقفے وقفے سے ہونے والی یہ لوڈشیڈنگ صرف دن کے اوقات میں ہوگی رات کو لوڈشیڈنگ نہیں کی جائے گی مگر بجلی کے ڈسے لوگ جانتے ہیں کہ یہ سب صرف باتیں ہیں۔ دن ہو رات لوڈشیڈنگ جب چاہے کی جائے گی۔ لیسکو والے بھی جانتے ہیں کہ عوام نے کون سا احتجاج کرتے ہوئے آسمان سر پر اٹھانا ہے۔ اس لئے اب شہری روزانہ بجلی کی 6 گھنٹے لوڈشیڈنگ کا دورانیہ ذہن میں رکھ لیں۔ لیسکو کے اعلانات پر نہ جائیں جب بجلی موجود ہو اپنے اہم ضروری کام نبٹا لیں ورنہ بعد میں پنکھا جھلتے ہوئے ہاتھ ملنے کا موقع بھی نہیں ملے گا…
٭٭٭٭
خواتین کیلئے رات کی ملازمت پر پابندی کا شوشہ
مسئلہ کوئی بھی اس کا حل نکالا جاتا ہے۔ اسے ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں الٹ سسٹم چلتا ہے۔ اب ہزاروں خواتین رات کو نوکری کرتی ہیں ان کی ڈیوٹی رات کی ہوتی ہے۔ اب حکومت کو خدا جانے یہ مشورہ کس نے دیا ہے کہ عورتوں پر رات کے اوقات میں نوکری یا کام کرنے پر پابندی لگائی جائے۔ اگر تو حکومت ایسی خواتین کو غم روزگار سے آزاد کرنے کا کوئی پیکج دے تو یہ پابندی سر آنکھوں پر۔ جب کوئی ریاست اپنے شہریوں کو روزگار، تعلیم اور صحت کی فکروں سے آزاد کردے تو وہاں اسے حق ہے کہ وہ تحفظ نسواں کے نام پر یا خواتین کی عزت کے نام پر ان کو رات گئے گھر سے باہر کام کرنے سے روک سکتی ہے۔ جس ملک میں لاکھوں نہیں کروڑوں گھرانے دو وقت کی روٹی کمانے کیلئے دن رات محنت پر مجبور ہوں پھر بھی ان کے گھروں میں بھوک اور ننگ ناچ رہی ہو وہاں یہ پابندی کون قبول کرے گا۔ ہاں البتہ خواتین کیلئے اوقات کار کا تعین مناسب ہوگا۔ اس طرح ان کی روزگار کی جگہ ان کی سکیورٹی کا بندوبست بھی اہم ہے۔ بے شک یہ اچھی سوچ ہے مگر صورتحال کو مدنظر رکھا جائے۔ ان ورکر خواتین کے تحفظ کیلئے اقدامات کئے جائیں کہ ان کی گھر سے مقام روزگار تک آمدورفت محفوظ ہو۔ ہاں جو کم عمر بچے اور بچیاں لوگوں کے گھروں میں ملازمت کرتی ہیں ان کیلئے اوقات کار مقرر کرنا بہت اچھا فیصلہ ہے۔ اس طرح کم از کم ان کو غلامی والی حالت سے تو نجات مل سکے گی۔ حکومت کے اچھے فیصلوں پر عمل ہونا ضروری ہے۔ویسے بھی کم عمر بچوں کی نوکری یعنی چائلڈ لیبر جبری مشقت پر پابندی ہے۔
٭٭٭٭