کرونا پھیل رہا ہے تو کیا ہوا پاکستان میں جو بھی آتا ہے وہ تیزی سے پھیلتا ہے، منشیات ہوں، اسلحہ ہو یا پھر نفرت ہر چیز اتنی تیزی سے پھیلی ہے کہ اصل پاکستان ان منفی چیزوں کے نیچے اتنا دب گیا ہے کہ اسے ڈھونڈنے میں کتنا وقت لگے گا کوئی نہیں جانتا۔ اسی طرح کرپشن بھی اتنی تیزی سے پھیلی ہے کہ ہر دوسرا شخص کرپٹ نظر آتا ہے۔ یہ زہر اتنی تیزی سے پھیلا ہے کہ معاشرے کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ ہوائی جہاز کے پائلٹ سے رکشہ ڈرائیور تک سب ہی کہیں نا کہیں کرپشن کر رہے ہیں۔ فیکٹری کے مالک سے دروازے پر کھڑے سیکیورٹی گارڈ تک سب ہی اس برائی میں ملوث ہیں۔ اس زہر نے غریبوں کا جینا مشکل کر دیا ہے۔ تین فیصد نے ستانوے فیصد کے وسائل پر قبضہ کر رکھا ہے۔ ہمارے ہاں نفرت بھی بہت تیزی اور شدت کے ساتھ پھیلی ہے اس شدت کے ساتھ کہ بھائی بھائی کا دشمن ہے، اولاد والدین کو قتل کر رہی ہے، بہن بہن کی دشمن ہے۔ دوست دوستوں کا گلا کاٹ رہے ہیں۔ مذہبی شدت پسندی اس شدت کے ساتھ پھیلی ہے کہ مختلف مسالک سے تعلق رکھنے والے علمائ ایک دوسرے کو دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے۔ان حالات میں کرونا کا تیزی سے پھیلنا کیا معنی رکھتا ہے۔ ہر وہ چیز جو ملک و قوم کو نقصان پہنچاتی ہے اسے ہم دونوں ہاتھوں سے قبول کرتے ہیں، پھیلاتے ہیں اور پھر خود کو کوستے رہتے ہیں۔ کرونا سازش ہے، کرونا باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت پھیلایا جا رہا ہے یا کچھ اور ہے۔ ہم ان چیزوں میں الجھے ہوئے ہیں اور یہ نہیں دیکھ رہے کہ کتنی اموات ہو رہی ہیں معاشی طور پر ہمیں کتنا نقصان ہو رہا ہے۔ بے روزگاری بڑھ رہی ہے، کارخانے بند ہو رہے ہیں، لوگوں کے لیے روزگار کے مواقع کم ہو رہے ہیں، جو ملازمتوں پر ہیں ان کے لیے حالات ہر گذرتے دن کے ساتھ مشکل ہوتے جا رہے ہیں۔ ہم ہر وہ چیز کر رہے ہیں جو ہمارے بس میں نہیں ہے۔ ہمارے بس میں ہے کہ احتیاطی تدابیر پر عمل کریں اور اس وائرس سے جان چھڑائیں لیکن ہم اس کے بجائے کرونا کی حقیقت کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔ حکومتی اراکین عوام کو غیر ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں اور عوام حکومت کو الزام دے رہی ہے۔ حکومت کہتی ہے کہ لوگ غیر ضروری طور پر گھروں سے نہ نکلیں، سماجی فاصلوں کو برقرار رکھیں، سینی ٹائزر کا استعمال کریں لیکن ان تدابیر پر عمل نہ ہونے کے برابر ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ کرونا حکومت کے غیر ذمہ دارانہ رویے کی وجہ سے پھیلا ہے۔ حکومت ٹھوس پالیسی بنانے میں ناکام رہی ہے۔
کرونا کے پھیلاؤ اور عوامی طرز عمل پر گیلپ سروے نے حقیقت بیان کر دی ہے۔ سروے بتاتا ہے کہ تریسٹھ فیصد پاکستانی شہری سمجھتے ہیں کہ کرونا وائرس کے خطرے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے جبکہ تینتیس فیصد اس بات سے اتفاق نہیں کرتے۔ جب تریسٹھ فیصد کی سوچ یہ ہو گی تو احتیاطی تدابیر کی مہم کہاں موثر ثابت ہو سکتی تھی۔ سو جو ہو رہا ہے وہ ہونا ہی تھا اور وائرس کی وجہ سے پھیلنے والی تباہی کو کوئی نہیں روک سکتا کیونکہ حکومت نے سب کچھ عوام پر چھوڑ دیا ہے اور عوام نے سب کچھ کرونا کے حوالے کر دیا ہے۔ کرونا کو جو دل کرے وہ ہمارے ساتھ کرے گا کسی کو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ویسے جو ہمارے ساتھ رپورٹس کے معاملے پر ہوتا ہے کوئی پتہ نہیں کل کلاں کرونا کی رپورٹس کو بھی میاں نواز شریف کی رپورٹس کی طرح مشکوک قرار دے دیا جائے اور انکی تحقیقات کا مطالبہ کیا جائے اس لیے کچھ کہنا مشکل ہے۔
ان حالات پر یہ یوگنڈا کے صدر کی حالیہ تقریر کو بہت پذیرائی مل رہی ہے۔ انہوں نے اپنی قوم سے خطاب کرتے ہوئے کرونا وائرس کے سلسلے میں عوام کے غیر ذمہ دارانہ رویے پر خیالات کا اظہار کچھ یوں کیا ہے۔
" خدا کو بہت سے کام کرنے ہوتے ہیں۔۔اسے پوری دنیا کا نظام دیکھنا ہوتا ہے۔اس کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ وہ صرف یہاں یوگنڈا میں بیٹھ کر احمقوں کی نگہداشت کرے"جنگ کے زمانے میں کوئی کسی سے نہیں کہتا کہ گھروں میں بند ہوجائیں۔آپ گھروں میں مقید ہوجاتے ہیں۔ اگر آپ کے پاس بیسمنٹ ہو تو آپ حالات بہتر ہونے تک خود کو وہیں تک محدود کرلیتے ہیں۔جنگ کے دنوں میں آپ آزادی کا مطالبہ نہیں کرتے۔آپ اپنی زندگی کی خاطر اپنی آزادی قربان کردیتے ہیں۔دوران جنگ آپ "بھوک" کا شکوہ نہیں کرتے۔آپ اس امید پہ بھوکا رہنا گوارہ کرتے ہیں کہ زندگی رہی تو پھر باہر نکل کر کھا پی لیں گے ۔
جنگ کیدوران آپ اپنا کاروبار کھولنے کا مطالبہ نہیں کرتے۔آپ اپنی دوکان بند کردیتے ہیں اور یہ دعا کرتے ہیں کہ جنگ سے بچ جائیں اور واپس آکر کاروبار دوبارہ شروع کر لیں۔بشرطیکہ اس دوران دوکان لوٹ نہ لی گئی ہو یا مارٹر کیگولوں اسے تباہ نہ کر چکے ہوں۔
دوران جنگ آپ ہر نئے دن پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے ایک اور دن آپ کو زندہ رکھا۔دوران جنگ آپ اس بات پہ قطعاً پریشان نہیں ہوتے کہ آپ کے بچے اسکول نہیں جارہے۔آپ یہ دعا مانگتے ہیں کہ حکومت ان کی جبری بھرتی کرکے اسی اسکول کی حدود میں جو اب فوجی ڈپو بنادیا گیا ہے عسکری تربیت کے لیے نہ بلا لے۔دنیا اس وقت حالت جنگ میں ہے۔ایسی جنگ جو بندوقوں اور گولیوں کے بغیر لڑی جارہی ہے۔ایسی جنگ جس میں جنگی سپاہی نہیں ہیں۔ایسی جنگ جس کی کوئی سرحد نہیں۔ایسی جنگ جس میں کسی جنگ بندی کے معاہدے کی کوئی امید نہیں۔ایسی جنگ جس میں جنگی منصوبہ بندی کے لیے کوئی "وار روم" نہیں ہے۔۔
اس جنگ میں لڑنے والی فوج بے رحم ہے۔اس میں انسانی ہمدردی کا کوئی عنصر قطعاً نہیں پایا جاتا۔اس کے دل میں بچوں، عورتوں یا عبادت گاہوں کی کوئی وقعت نہیں۔یہ فوج جنگ کی تباہ کاریوں سے لاتعلق ہے۔اسے حکومت یا نظام حکومت بدلنے سے کوئی دلچسپی نہیں۔اسے زیر زمیں دستیاب معدنی وسائل سے کوئی دلچسپی نہیں۔ اسے مذہب، فرقے یا کسی خاص نظریاتی تسلط سے قطعاً کوئی دلچسپی نہیں۔ کسی خاص نسل کی برتری اس کا مقصد نہیں۔ یہ نادیدہ اور ظالمانہ حد تک موثر فوج ہے۔۔
اس کا مقصد صرف اور صرف "موت" ہے۔ اس کی شکم سیری ساری دنیا کو موت کا میدان بنانے سے ہی ہوگی، اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اس کی صلاحیت شک و شبہ سے بالا ہے۔زمین پر کسی خاص جگہ پر بنیاد یا کسی جاسوسی کینظام کے بغیر یہ دنیا کے تقریباً ہر ملک میں موجود ہے۔اس کی نقل و حرکت کسی جنگی قواعد کے ماتحت نہیں۔مختصراً یہ اپنی ذات میں خود "قانون" ہے۔اسے کویڈ نائینٹین بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس نے اپنی تباہ کاریوں کا آغاز دو ہزار انیس میں کیا ہے۔
اللہ کا شکر ہے کہ اس فوج کی کچھ کمزوریاں ہیں اور اسے شکست دی جاسکتی ہے۔اس کے لیے ہمارے اجتماعی اقدامات،تنظیم اور روادری کی ضرورت ہے۔ کویڈ نائنٹین سماجی فاصلوں میں زندہ نہیں رہ سکتا۔یہ صرف اسی صورت میں پنپ سکتا ہے اگر آپ اس سے رابطے میں آئیں اور اس سے محاذآرائی کریں۔یہ محاذ آرائی کو پسند کرتا ہے۔یہ اجتماعی طور پہ سماجی اور جسمانی دوری کی صورت میں ہتھیار ڈال دیتا ہے۔یہ حفظان صحت کے اصولوں کے سامنے سرنگوں رہتا ہے۔یہ بالکل معذور ہوجاتا ہے۔۔جب آپ اپنی قسمت اپنے ہاتھوں میں لے لیتے ہیں اور انہیں حتی الامکان "سینیٹائز" کرتے رہتے ہیں۔
یہ ضدی بچوں کی طرح روٹی مکھن کے لییرونے پیٹنے کا وقت نہیں ہے۔ہم جانتے ہیں کہ مقدس کتاب میں ہمیں بتایا گیا ہے کہ انسان صرف روٹی پر ہی زندہ نہیں رہ سکتا توآئیے ہم اطاعت گذار بنیں اور خالق کی ہدایات پہ عمل پیرا ہوں۔آئیے کہ ہم کویڈ نائنٹین کی قوس کو چپٹا کریں۔ صبر کا مظاہرہ کریں۔بہت جلد ہم اپنی آزادی،سماجی و کاروباری زندگی دوبارہ حاصل کرلیں گے ۔۔
ایمرجنسی کیدوران ہم دوسروں کی خدمت اور دوسروں سے محبت کی اہمیت کو سمجھتے ہیں اور اس پہ عمل پیرا ہوتے ہیں۔
یہ الفاظ ہمارے لیے بھی اتنی ہی اہمیت رکھتے ہیں اگر ہم سمجھنا چاہیں۔ حقیقت میں ہم ہر سطح پر غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک دوسرے کو الزام دے رہے ہیں۔ سچ ہے کہ سب اسکی تباہ کاریوں اور پھیلاؤ میں برابر کے ذمہ دار ہیں۔کرونا وائرس کے بارے میں یہ تقریر نہایت شاندار سننے اور پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ کاش کہ ہم کرونا کی حقیقت جاننے سے زیادہ اس سے جان چھڑانے پر توجہ دیں تو اس مشکل سے جلد نکل سکتے ہیں۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024