وقت گزرنے کیساتھ ساتھ انسانی تجربے، مشاہدے اور دْکھ سْکھ بھی بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ بچپن کی اپنی شرارتیں، بے فکری اور معصومیت کے اپنے انداز ہوتے ہیں۔ پھر لڑکپن اور اْسکے ساتھ ہی جوانی میں قدم رکھنے کے انوکھے تجربے زندگی کا حصہ بن جاتے ہیں ان تجربوں سے سبق ملنا شروع ہو جاتا ہے اورانسان شعور کی اْس دنیا کو اپنے اندر اْجاگر کر لیتا ہے جو اْس کیلئے رات کے اندھیرے میں جگنو کی مثال ہوتا ہے۔جگنو کی اِس لحظہ بھر کی روشنی میں اپنی زندگی کی کامیابی کی سمت تلاش کرنا انسان کی اپنی صوابدید پہ ہوتا ہے مگر دیکھا جائے تو اس میں معاشرے، خاندان، درسگاہوں، دوستوں اور تربیت کے عوامل سو فیصد کارفرما ہوتے ہیں اور یہی عوامل ایک انسان کی کامیابی کی دلیل بھی بن سکتے ہیں اور ناکامی کے محرکات بھی۔ ہم کسی بھی انسان کو زندگی میں ناکام ہونے پر مکمل ذمہ دار نہیں ٹھہرا سکتے اور اسی طرح جب ایک انسان کامیاب ہوتا ہے تو اْس میں صرف اْس کا کمال نہیں ہوتا۔مگریہ حقیقت ہے کہ کامیابی کی طرف گامزن انسان کیساتھ خاندان معاشرہ اور دوست احباب سب چل پڑتے ہیں۔ اْسکے ساتھ رہنے میں فخر محسوس کرتے ہیںلیکن اگر شومئی قسمت کو ناکام ہو جائے یا اپنے کسی فعل سے خاندان اور معاشرے کیلئے بدنامی یا تذلیل کا باعث بنے توخاندان معاشرہ اور دوست احباب سب اْس کو نظر انداز کرنے لگتے ہیں۔ بات بات پر اْس کو طنز کا نشانہ بناتے ہیں اور محفل میں اْس کیلئے شرمندگی کا ماحول قائم کر دیا جاتا ہے ایسے اجتماعی رویوں سے وہ ایک انسان جو شاید ابھی زندگی کے پہلے مرحلے میں ہی ناکام ہو گیا ہو یا تو اپنے آپ کو مجرم سمجھنے لگتا ہے یا ایک ناکام انسان اور پھر وہ لوگوں سے ملنے سے اجتناب کرتا ہے۔ گھر ، خاندان یا معاشرے میں سر جھکا کر چلنا شروع کر دیتا ہے۔ اگر ایسے میں اْسے سمجھنے والاسہارا دینے اورہمت بندھانے والا،کوئی نظر نہ آئے تو وہ زندگی میں کوئی بھی انتہائی قدم اْٹھا سکتا ہے۔ خصوصی طور پر دیکھا یہ گیا ہے کہ اگر بڑا بیٹا میٹرک میں ناکام ہوا تو والد نے مار مار کر گھر سے باہرنکال دیا تو بڑے بوڑھے اور بزرگ سمجھا بْجھا کر واپس لے آئے مگر واپس لانے پر والد نے ہر بات پہ طنز کیا، چھوٹے بہن بھائیوں کو اْسکی مثال دی اور کہا "اپنے بڑے بھائی کی طرح ناکام ہو کر مت آنا ماں نے گرم روٹی پکا کر دی توپاس بیٹھے کسی بزرگ نے کہہ دیا "کیا فائدہ اسے گرم روٹی پکا کر دینے کا اس کی جگہ کوئی جانور پال لو کم سے کم گھر کی رکھوالی تو کریگا یہ تو ہماری عزت بھی نیلام کر آیا ہے" ایسی باتوں سے وہ بچہ جو شرمندہ ہے خود کو مجرم سمجھتے سمجھتے حقیقت میں مجرم بن جاتا ہے۔ ہم لوگ یہ نہیں سمجھتے کہ غلطیاں بچوں سے ہی ہوتی ہیں ہم بڑے خود بھی بہت سی کوتاہیوں اور ناکامیوں سے گزرنے کے بعد زندگی کو بْری طرح سے برباد کرنے میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں مگر ہم یہ سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ معاشرے اور خاندان میں بڑے بزرگ بے شک بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں مگر اْنکا جلال ، اْنکے سخت گیر رویے اور سمجھانے کے طریقے عزت و پیار کی حدوں سے نکل جاتے ہیں تو یقین کریں معصوم خوفزدہ اور ناکام بچے زندگی میں کبھی سنبھل ہی نہیں پاتے ایسے میں ہمارے معاشرے کے وہ ایمان اور خوفِ خْدا سے عاری افراد جو ایسے بچوں کی تاک میں رہتے ہیں وہ انہیں بہلا پھسلا کر کچھ پیسے بھی دیتے ہیں اور زندگی کے رنگین خواب بھی دکھاتے ہیں اور گھر سے تذلیل اْٹھانے کے بعد ہمارے جوان بچے اور بچیاں جب باہر اس طرح کے سراب میں پھنستے اور اس کو حقیقت سمجھنے لگتے ہیں تو پھر ایک دن یہ ہمارے مستقبل کے معمار اپنی زندگی اپنے ایمان خاندان کی عزت اور ملک کے وقار کو مسمار کر دیتے ہیں۔ یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب ہمارے ہاتھ کچھ نہیں آتا کہیں کوئی بچہ کسی پْل کے نیچے نشے میں مست ملتا ہے کہیں کسی نہر میں تیرتی لاش ملتی ہے کہیں سلاخوں کے پیچھے اپنی اور معاشرے کے رویے ، والدین اور بزرگوں کے انتہا پسندی کے اقدامات کی سچی کہانیاں لیکر اپنے لیے انصاف مانگتے ہمارے جوان دیواروں سے سر ٹکرا رہے ہوتے ہیں ۔ اگر غور کریں تو رویے ایک انسانی زندگی کے بگاڑ یا سنوار کے کس قدر حامل ہوتے ہیں۔ سائنسی ترقی نے آج معاشرے کو شعور و آگہی کے جس راستے پہ گامزن کر دیا ہے اس میں اگر ہم علم کے اصلی ماخذ ،نگہبانی، تربیت اور محبت کا خیال نہیں رکھیں گے تو ہمیں کوئی باشعور قوم نہیں کہے گا اور نہ ہی ہم اپنے نوجوان بچے اور بچیوں کو اْنکی زندگی کا اصل مقصد سمجھانے میں کامیاب ہونگے معاشرہ والدین اور بزرگ نوجوانوں کیلئے اْس بوڑھے پیڑ کی مانند ہے جس کی جڑیں بہت مضبوط اور زمین کے اندر پھیلی ہوتی ہیں اور جسکے سائے میں گرم دوپہروں میں اپنے اپنے علاقے کے ہر طبقہ فکر کے لوگ بیٹھ کر نہ صرف ستاتے ہیں بلکہ معاملاتِ زندگی کے بگاڑ بھی سنوارنے کے مشورے اور عوامل زیرِ بحث لا کر اْنہیں پائیدار حکمتِ عملی کا ایک زائچہ بنا کر دیتے ہیں۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024