ندامت کے آنسو
خدا کی بارگاہ میں جب بھی رویا گڑگڑایا ہوں
اسی کی رحمتوں کو اپنے گرد و پیش پایا ہوں
مری محرومیاں مثلِ ہمالہ سامنے آئیں
صراطِ استقامت سے میں جتنی بار بھٹکا ہوں
کہیں نانِ شبینہ کی کہیں چھت کی طلب ٹھہری
غریب شب کے خوابوں کا اک ادنیٰ حوالہ ہوں
مقدر جس کا شاید ہو چکا ہو گردشِ دوراں
کسی دنیائے حیرت کے فلک کا وہ ستارہ ہوں
امید و بیم کا ہے کوئی بحرِ بیکراں جس میں
ہزاروں بار ڈوبا ہوں ہزاروں بار ابھرا ہوں
بجا کہ سرکشی میں عمر اپنی ساری گزری ہے
مگر اس کی سخاوت میں کمی نہ دیکھ پایا ہوں
وہ جس کے دستِ قدرت میں ہے کنجی کن فیکوں کی
وہی تو اپنا داتا ہے اسی کا نام لیوا ہوں
عنایاتِ کریمانہ نے بڑھ کر ہاتھ تھاما ہے
لپٹ کر دامنِ قدوس سے جب گڑگڑایا ہوں
ندامت کے وہ دو آنسو جو میرا کل اثاثہ ہیں
انہیں دربارِ عالی میں بصد اکرام لایا ہوں
سوا نیزے پہ سورج کا نہیں ہے خوف کچھ دل میں
خدا کے سائبانِ عاطفت کے زیر سایہ ہوں
ضیاء بارانِ رحمت کی عجب برسات دیکھی ہے
کبھی خلوت میں جب بھیگی ہوئی پلکیں اٹھایا ہوں
شرافت ضیاء