وزیراعظم کا پٹرولیم نرخوں میں کمی کا عوام کو فائدہ نہ پہنچنے پر اظہار ناراضی اور چینی کے نرخ کم کرنے کی ہدایت
وفاقی کابینہ نے شوگر انکوائری رپورٹ کی روشنی میں سامنے آنیوالے حقائق کا جائزہ لینے کیلئے بین الوزارتی کمیٹی تشکیل دینے اور 1985ء سے اب تک تمام شوگر ملز کا آڈٹ کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔ کابینہ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا مہنگائی پر اثر نہ پڑنے پر ناراضی کا اظہار کیا اور معاملہ کا جائزہ لینے کیلئے مشیر خزانہ کی سربراہی میں کمیٹی قائم کر دی۔ وزیراعظم نے ہدایت کی کہ پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں کمی کا فائدہ عوام کو پہنچایا جائے۔ انہوں نے چینی کی قیمت میں کمی کی بھی ہدایت کی۔ ذرائع کے مطابق کابینہ کے ارکان نے گندم سکینڈل کی رپورٹ کا فرانزک کرانے اور گندم سکینڈل کے ذمہ داروں کو سامنے لانے کا مطالبہ بھی کیا۔ اجلاس میں بلاامتیاز احتساب کا عمل جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا اور اس سلسلہ میں کسی دبائو کی پرواہ نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ وزیراعظم نے ہدایت کی کہ کفایت شعاری اپنائی جائے اور غیرضروری اخراجات ختم کئے جائیں۔
اس وقت جبکہ کرونا وائرس کا پھیلائو روکنے کیلئے لاک ڈائون جیسے اٹھائے گئے احتیاطی اقدامات کے باعث ملک میں غربت اور بے روزگاری کا گراف مزید نیچے جاچکا ہے اور غریب عوام عملاً فاقہ کشی کا شکار ہیں‘ مزید مہنگائی کا بوجھ ان پر تازیانے برسانے کے مترادف ہوگا۔ بے شک سابق حکمرانوں کی مبینہ لوٹ مار سے قومی معیشت کو سخت دھچکا لگا جسے دوبارہ اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کیلئے پی ٹی آئی کی حکومت کو سخت مالیاتی‘ اصلاحاتی پالیسیاں اختیار کرنا پڑیں اور بیل آئوٹ پیکیج کیلئے آئی ایم ایف سے رجوع کرکے اسکی کڑی شرائط بھی قبول کرنا پڑیں جس سے ملک میں مہنگائی کے نئے سونامی بھی اٹھتے رہے ہیں جبکہ اب کرونا وائرس کے باعث صنعتی‘ تجارتی اور زرعی سرگرمیاں بند ہونے کے بھی معیشت پر بہت برے اثرات مرتب ہوئے ہیں جو ملک میں پیدا ہونیوالی کساد بازاری کے باعث عوام کے روٹی روزگار کے مسائل مزید گھمبیر بنانے پر منتج ہو سکتے ہیں اس لئے حکومت کو یہ صورتحال اپنے لئے نئے چیلنج سے تعبیر کرکے اس سے عہدہ برأ ہونے کے اقدامات بہرصورت اٹھانا ہیں تاکہ عوام کو اپنی زندگی کی کٹھنائیوں میں کچھ نہ کچھ ریلیف مل سکے۔ اس حوالے سے عالمی مارکیٹ میں پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں بتدریج ہونیوالی کمی کا عوام کو فائدہ پہنچانے کی بہرصورت تدبیر ہونی چاہیے۔ اگر اس وقت ملک میں پٹرولیم مصنوعات کے نرخ 35 سے 40 روپے فی لٹر تک کم ہو چکے ہیں تو اس کمی کے ثمرات عوام تک اس وقت ہی پہنچ سکیں گے جب انہیں مہنگائی میں عملاً ریلیف ملتا نظر آئیگا۔ یہ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ عملاً ایسا نہیں ہو پایا اور پبلک ٹرانسپورٹ کے علاوہ ریلوے کے کرائے بھی جوں کے توں برقرار ہیں جبکہ ناجائز منافع خوروں نے مختلف ہتھکنڈوں سے ملک میں مصنوعی مہنگائی پیدا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ لوٹ مار کرنیوالے ان طبقات نے اشیائے خوردونوش بشمول سبزیوں‘ پھلوں‘ دالوں‘ گندم‘ آٹا حتیٰ کہ جان بچانے والی ادویات کے جو نرخ ماہ رمضان المبارک میں ناجائز منافع کمانے کی غرض سے ازخود بڑھائے وہ آج بھی نہ صرف برقرار ہیں بلکہ ان میںآئے روز اضافہ بھی ہورہا ہے۔ اس سے بادی النظر میں یہی عندیہ ملتا ہے کہ ایک مافیا کی صورت میں ایکا کرکے عوام پر مہنگائی مسلط کرنیوالے ان تاجر طبقات اور ملز مالکان کو نکیل ڈالنے کیلئے حکومتی مشینری کارگر نہیں ہورہی اور وہ حکومتی گورننس کی کسی ڈھیل یا کمزوری سے فائدہ اٹھا کر عوام کو بدستور دونوں ہاتھوں سے لوٹنے میں مصروف ہیں۔ اسکی ایک مثال ٹرانسپورٹ حضرات ہیں جنہوں نے نہ کرونا وائرس کے حوالے سے جاری کردہ حکومتی ایس او پیز پر عمل کیا اور نہ کرائے کم کرنے کا حکومتی حکم تسلیم کیا۔ یہی صورتحال عام مارکیٹوں میں نظر آتی ہے جہاں ناجائز منافع خوروں نے مہنگائی کی انتہاء کرکے لوٹ مار کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔
مہنگائی بڑھنے کا دوسرا سبب پاکستانی کرنسی کے مقابلے میں ڈالر کے نرخوں کا جستیں بھرنا ہے جس سے پاکستان پر بیرونی قرضوں کا بوجھ بھی بغیر کوئی نیا قرضہ لئے بڑھ جاتا ہے اور درآمدی اشیاء کے نرخ بھی بلاتردد بڑھ جاتے ہیں جس کی آڑ میں مقامی ساختہ اشیاء کے نرخ بڑھانے کا بھی جواز نکال لیا جاتا ہے۔ گزشتہ روز ڈالر ایک روپیہ 20 پیسے مہنگا ہوا تو بیرونی قرضے بھی ازخود 437‘ ارب روپے بڑھ گئے۔ اسی طرح سونے کے نرخ بھی عوام کی پہنچ سے کہیں آگے نکل چکے ہیں جو دیگر اشیاء بھی مہنگی کرنے کا جواز بنتے ہیں۔ ابھی بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں نے بجلی کے نرخوں میں مزید اضافہ کی درخواست بھی نیپرا میں داخل کرادی ہے جس کی منظوری کی صورت میں صارفین بجلی کو 162‘ ارب روپے کا اضافی بوجھ اٹھانا پڑیگا۔ اسی طرح فلور ملز مالکان نے بھی 20 کلو آٹے کے تھیلہ کی قیمت میں مزید اضافے کا عندیہ دے دیا ہے نتیجتاً 20 کلو آٹے کے تھیلے کی قیمت ایک ہزار روپے تک جاسکتی ہے۔ یہ صورتحال ریاست مدینہ والے جدید اسلامی فلاحی معاشرے کے تصور سے قطعی متضاد ہے اور بالخصوص اس وقت جبکہ عوام غربت اور بے روزگاری کے بدترین دور سے گزر رہے ہیں‘ انہیں تیل کے نرخوں میں کمی کے ثمرات سے بھی محروم رکھنا اور ان پر مہنگائی کا مزید بوجھ مسلط کرنا ’’مرے کو مارے شاہ مدار‘‘ کے مترادف ہے۔
وزیراعظم عمران خان کو عوام کی اس کسمپرسی کا یقیناً احساس و ادراک ہے اس لئے وہ روزافزوں مہنگائی کا بھی نوٹس لیتے ہیں‘ ناجائز منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں کیخلاف کارروائی کیلئے انتظامی مشینری کو متحرک کرنے کے احکام بھی صادر کرتے ہیں اور کرونا ریلیف پیکیج سمیت اب تک عوام کیلئے متعدد ریلیف پیکیجز بھی جاری کرچکے ہیں۔ اگر عوام کو ریلیف فراہم کرنے کیلئے انکی ہدایات اور اقدامات مؤثر ثابت نہیں ہورہے تو انہیں بہرصورت اس امر کا ٹھوس بنیادوں پر جائزہ لینا ہوگا کہ وہ کون سے عناصر ہیں جو کرپشن‘ مہنگائی‘ ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری کے تدارک کیلئے حکومتی رٹ غیرمؤثر بنا رہے ہیں۔ حکومتی گورننس کے معاملہ میں یہ صورتحال یقیناً تشویشناک ہے جس پر قابو پانے کیلئے وزیراعظم کو اٹل فیصلے کرنا ہونگے بصورت دیگر غربت‘ بے روزگاری اور مہنگائی کے عفریت دندناتے رہیں گے تو عوام کیلئے تنگ آمد بجنگ آمد کی نوبت ہی لائیں گے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024