جمعرات ‘12 ؍ شوال ‘ 1441 ھ‘ 4؍ جون 2020ء
کشمیریوں کو مسلسل نظر انداز کرنے اور سیاہ فام امریکی کی ہلاکت پر ردعمل دینے پر
سوشل میڈیا صارفین کی پریانیکا چوپڑا پر تنقید، منافق قرار دیدیا
بھارتی اداکارہ پریانیکا چوپڑا نے امریکہ میں ایک سیاہ فام شخص کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت پر شدید غم و غصہ کا اظہار کیا تو اس کو سوشل میڈیا پر سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا کہ کشمیریوں پر بھارتی مظالم کے خلاف اس کی زبان کو تالا لگ گیا، اب سیاہ فام امریکی کی پولیس تشدد سے ہلاکت کی بڑی تکلیف ہوئی۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ ظلم جہاں بھی ہو وہ قابل مذمت ہے۔ امریکی سیاہ فام کی حمایت میں پریانیکا چوپڑا کا بولنا فطری ہے کیونکہ ہوسکتا ہے کہ پریانیکاکو ’’سیاہ فام‘‘ زیادہ عزیز ہوں اور کشمیریوں کو وہ ناپسند کرتی ہو کیونکہ ’’جنس کو جنس ہی پیاری ہوتی ہے۔‘‘ جس پر سوشل میڈیا صارفین نے پریانیکاچوپڑا کو منافق قرار دے دیا۔ بہرحال اس کیلئے منافق کے ’’خطاب‘‘ سے زیادہ یہ کہنا موزوں ہے کہ پریانیکاچوپڑا صرف ’’شکل کی کالی نہیں بلکہ اس کا دل بھی کالا ہے‘‘۔ پریانیکاچوپڑا کی طرح فیس بک (Facebook) کی اصلیت کا بھی پتہ چل گیا کہ اس نے سیاہ فام ایک امریکی کے سوگ میں اپنا لوگو کالا کرلیا۔لیکن کبھی کشمیریوں اور فلسطینیوں کے مظالم پر ’’لوگو‘‘ نہیں بدلا۔کاش انسانیت کااحترام بھی بلاامتیاز مذہب، رنگ و نسل اور بلاتعصب ہو۔
یہ آخر کیا قیامت ہے کہ باوصف خردمندی
ہوس کے معرکوں میں دل کی نادانی نہیں جاتی
میری مظلومیاں بھی جرم ٹھہری ہیں، نہ کیوں ٹھہریں
کہ اب جور نادم کی پشیمانی نہیں جاتی
٭......٭......٭
کرونا سے صحت یاب ایم این اے منیر اورکزئی دل کا دورہ پڑنے سے جاں بحق
قرآن پاک رہنمائی کرتا ہے کہ موت کا وقت اور جگہ مقرر ہے اور اس میں پلک جھپکنے جتنی بھی تقدیم و تاخیر نہیں ہوتی۔ جس کو جینا ہو، ان کو جہاز حادثہ میں بھی رب کریم بچا لیتا ہے۔ کرونا تو اس کے مقابلے میں کوئی چیز ہی نہیں اور جس کا وقت متعین آجائے وہ ٹل نہیں سکتا۔ بحیثیت مسلمان اور انسان اس پر سب کا ایمان ہونا چاہئے البتہ احتیاطی تدابیر کو نظرانداز کرنا چاہئے نہ خوف سے دبک کر بیٹھ جانا چاہئے اور نہ ہی ہوس دنیا کو اس قدر بے لگام چھوڑ دینا چاہئے کہ ’’سامان سو برس کا ہے اور پل کی خبر نہیں۔‘‘ اس میں حکمرانوں، سرمایہ داروں، صنعتکاروں، تاجروں، مزدوروں اور ناجائز منافع خوروں سمیت ہر طبقہ فکر کیلئے نصیحت ہے۔ ایسے حالات میںپولٹری ایسوسی ایشن اورفلور ملز مالکان سمیت سب کو اپنے اپنے رویے پر نظرثانی کرنی چاہئے۔
٭......٭......٭
کراچی میں سپورٹس ارینا کی تعمیر کا 15سالہ منصوبہ پھر ٹھپ
اسے کہتے ہیں ’’من حرامی حجتاں ڈھیر‘‘ کہ جب کام کو ہی دل نہ کرے توپھرطرح طرح کے بہانے ڈھونڈ لئے جاتے ہیں۔ جیسے آج کل ہر کام کرونا کے کھاتے ڈالا جا رہا ہے۔ سپورٹس ارینا کا معاملہ بھی ایسے ہی ہے حالانکہ منصوبہ 2005ء میں شروع ہوا، تین سال میں مکمل ہونا تھا جبکہ لاگت کا تخمینہ 4کروڑ روپے تھا لیکن 2005ء سے 2020ء آگیا، 15سال گزر گئے، منصوبہ مکمل ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ تعمیری اخراجات بھی چار کروڑ کی بجائے دس کروڑ سے بھی بڑھ گئے ہیں، اب اگر سندھ حکومت یا متعلقہ ادارے ’’بی آر ٹی‘‘ پشاور یا اورنج ٹرین لاہور جیسے منصوبوں میں’’ معمولی‘‘ تاخیر کا گلہ کریںتو ’’تعمیراتی آداب‘‘ اور ’’قواعد و ضوابط‘‘ کے خلاف ہی ہوگا۔البتہ مفادعامہ کے تینوں منصوبوں کی تکمیل کیلئے ’’سٹیک ہولڈرز‘‘ کو سرجو کر بیٹھ جانا چاہئے اور اس سلسلے میں ’’جلدبازی‘‘ سے کوئی قدم اٹھانے سے گریز کرنا چاہئے۔ ایسا نہ ہو کہ منصوبوں کی تعمیر میں ’’خامیاں‘‘ رہ جائیں۔اس حوالے سے سندھ حکومت کو کسی طعن و ملامت کی پرواہ بھی نہیں کرنی چاہئے بلکہ ’’عوامی مفادات‘‘ کو ہر صورت مدنظر رکھنا چاہئے۔ نیشنل کوچنگ سنٹر کراچی میں باکسنگ جمنازیم کی تعمیر میں مزید پندرہ سال بھی لگ جائیں توکوئی حرج نہیں، تاہم تعمیراتی کام کے ’’معیار‘‘ پر سمجھوتہ نہیں ہونا چاہئے۔ کیونکہ اس منصوبہ کی تاخیر سے کوئی آسمان نہیں گرے گا تاہم کسی بھی قسم کی ’’جلد بازی‘‘ کی صورت میں سندھ کی ’’سیاسی تہذیب و ثقافت ‘‘ ایک ’’شاہکار‘‘سے محروم ہو سکتی ہے۔
٭......٭......٭
ہٹلر کے پیدائشی گھر کو تھانہ بنانے کا فیصلہ
عربی زبان کا ایک محاورہ ہے کہ ’’کل شی ء یر جع الی اصلہ‘‘ ہر چیز اپنی اصل کی طرف ہی لوٹ کر جاتی ہے۔ اب جرمنی میں ہٹلر کا جو کردار رہا، اس لحاظ سے تو اس کا گھر (جائے پیدائش) چھاؤنی بننے کا تقاضا کرتا تھا ۔چلو کچھ نہ ہونے سے بہتر ہے کہ اس کی جائے پیدائش کو 141 سال بعد اس کو تھانہ بنانے کا خیال ہی حکمرانوں کو آیا اور یہ فیصلہ بھی یقینا ہٹلر کے کردار کو مزید ’’نمایاں‘‘ کرتا رہے گا لیکن ایسا نہ ہو کہ پھر ہٹلر والے گھر کے تھانے میں ’’تھانیدار‘‘ بھی ہٹلر بن جائے۔ ویسے اگر ایسی کسی تاریخی جگہ پر پاکستان میں تھانہ بنایا جائے تو وہاں ایس ایچ او لگنے کیلئے ہر تھانیدار بے چین و بے قرار نظر آئے۔ پنجاب میں تو پہلے بھی صورتحال اس سے مختلف نہیں کیونکہ ’’پسند‘‘کے تھانے میں ایس ایچ او لگنے کیلئے تو سفارشوں سمیت تھانیدار بہت کچھ کر گزرتے ہیں اور اگر یہ پتہ چل جائے کہ ہٹلر کے گھر میں تھانہ بنا ہے اور وہاں ایس ایچ او لگنا ہے پھر تو ایس ایچ او کا ’’رنگ، روپ‘‘ ہی کچھ اور ہوگا۔ اب پتہ نہیں جرمنی میں ایس ایچ او لگنے کیلئے کیا شرائط ہیں اور پھر ہٹلر کے گھر کی ’’تھانیداری‘‘ کیلئے کوئی الگ قواعد و ضوابط رکھے گئے ہیں یا جرمن پولیس کے سبھی تھانیدار اس کے اہل ہوں گے، یہ تو جرمن حکومت ہی بتا سکتی ہے۔