کرونا لاک ڈائون کے دوران گلی کوچوں میں ویرانیوںنے ڈیرے ڈال لئے تھے۔ وہی کوا جس کی کائیں کائیں کان کھاتی تھی ۔ اب وہی آواز خوش الحانی کے مترادف تھی۔ یہ نئی صبح کا بگل تھی۔ گھر کے سامنے ایک کھلا پلاٹ ویران پڑا ہے۔ کہیں کہیں گھاس اگ آئی ہے۔ اپریل کی دوپہر کو دھوپ تاپنے وہاں لیٹ جاتا اور نیلگوں آسمان کا نظارا کرتا۔ یہ آسمان پہلے کبھی نظر نہیں آتا تھا۔ دھوئیں اور سموگ کی کثیف تہہ نے اسے چھپا لیا تھا۔ ایک دو تتلیاں بھی رنگ بکھیرتی دکھائی دے جاتیں۔ اور دور آسمان کی بلندی پر بادلوں کے ٹکڑوں کے درمیان چیلیں اڑتی نظر آتی تھیں، یہ تھی کل کائنات جس کا میں باسی تھا۔ ایک موبائل فون ضرور تھا جس سے بیرونی دنیا سے رابطہ ہو سکتا تھا مگر اسے بھی چپ سی لگ گئی تھی۔ نہ کسی کو فون کرنے کو جی چاہتا۔ نہ کوئی دوسرا مجھے فون کرتا۔
عید آئی تو کچھ امید پیدا ہوئی کہ کوئی انسانی شکل نظر آ جائے گی مگر عید گزر گئی۔ سارا دن بیت گیا، رات کے گہرے سناٹے میں ایک تنگ وتاریک سڑک پر واک کے لئے نکلا تو فون کی گھنٹی بجی۔ ڈر سا محسوس ہوا کہ خیر تو ہے۔ دوسری طرف امیر جماعت اسلامی مولانا سراج الحق صاحب تھے۔ سراپا درویش زمانہ کہنے لگے عید مبارک اور خیرپرسی کے لئے فون کیا ہے۔
میںنے پوچھا کہ جاوید قصوری کو کرونا نے آن لیا تھا ، وہ میرے سگے خالہ زاد بھائی ہیں اور جماعت کے لئے ایک قیمتی متاع بھی۔ مولانا نے بتایا کہ کئی دنوں بعد آج انہوںنے ظہر کی نماز مسجد میں اد اکی ہے ورنہ تو کئی دنوں سے قرنطینہ میں تھے۔ میںنے مزید پوچھا کہ آپ کے پنڈی کے ناظم بھی کرونا کی لپیٹ میں آگئے تھے۔ ان کا کیا حال ہے۔
بتانے لگے اللہ نے انہیں نئی زندگی عطا کی ہے وہ وینٹی لیٹر سے واپس آئے ہیں بلکہ اسلام آباد جماعت کے راہنما بھی وینٹی لیٹر پر رہے اور اب گھر آ چکے ہیں۔ یہ اللہ کا فضل ہے مگر ہم مخلو ق خدا کی خدمت کے لئے لوگوں کے دروازوں پر جا رہے تھے۔ اس لئے اس کی کوئی تو قیمت ادا کرنا تھی۔ یہ بات ہمارے ذہن میں تھی مگر ہم اپنا مشن ادھورا نہیں چھوڑ سکتے تھے۔ اس پر ان کا فون بند ہو گیا۔
عید کی شام امیرا لعظیم صاحب کی غریب خانے پر آمد کا ذکر کرنا بھول ہی گیا۔ وہ بتا کرا ٓتے تو میں انہیں منع کر د یتا مگر انہوںنے فون کیا کہ میں آپ کے گھر کے گیٹ پر کھڑا ہوں۔ اب تو ان کا استقبال ضروی ہو گیا تھا۔ وہ ماشا اللہ خاصے ہشاش بشاش تھے۔ ان کے آنے سے قبل میں سوچ رہا تھا کہ یہ عید بغیر کیک کے گزر گئی۔
پچھلے پندرہ برس سے عبدالعلیم خان کا معمول تھا کہ چاند رات گیارہ بجے ان کا کیک آ جاتا تھا۔ اب شاید انہوںنے کروناکی احتیاط کے باعث ایک اچھی رسم معطل کر دی مگر یہ کمی امیرالعظیم صاحب نے پوری کر دی۔ وہ عیدی بھی لے کر آئے۔ میںنے ان سے گلہ کیا کہ ٹی وی پر الخدمت کی لا محدود مارکیٹنگ دیکھ کر میںنے اندازہ لگایا کہ اس بار یہ ادارہ معمول سے زیادہ خیراتی کاموں میںمصروف ہے تو کیوںنہ اس کا تذکرہ کیا جائے۔
میںنے کئی بار امیر العظیم صاحب سے کہا کہ کچھ ا عدادو شمار بھجو ادو۔ ایک دن تو میںنے کہیں سے الخدمت کے سربراہ عبدالشکور صاحب کا فون ڈھونڈا اور انہیں موبائل پر رات کے وقت پیغام بھیجا کہ صبح کسی وقت فون کریں ۔میں الخدمت کی خدمات کی تفصیلات لینا چاہتا ہوں ،انہوں نے لکھا کہ ان شا اللہ مگر پھر ان کا کوئی فون نہ آیا۔ پتہ چلا کہ انہیں کسی درد نے بے حال کر دیا ہے، بہر حال ان کے کہنے پر ان کے کسی ساتھی نے ضروری اعداوو شمار بھجوا دیئے جن کی مدد سے میںنے ایک مختصر اور بے جان سی تحریر لکھی اور سعید آسی صاحب سے درخواست کی کہ نیکی سمجھ کے شائع کر دیں،یہ چھپ تو گئی مگر میرا دل اور دماغ مطمئن نہ تھے ۔
میں جب تک کسی پروجیکٹ کے سربراہ سے خود سب کچھ نہ سمجھ لوں اور ان کے جذبوں کی مٹھاس کا ذائقہ نہ چکھ لوں مجھے لکھتے ہوئے تسلی نہیں ہوتی۔
میںنے اکہتر کی جنگ میں قصر ہند کے معرکے پر پوری کتاب لکھی مگر پورا ماہ اس بٹالین کے ساتھ گزرا جو اس فاتحانہ یلغار میں شامل تھی۔ میںنے کسٹمز ہیلتھ کیئر اور اخوت پر بہت لکھا لیکن ان کے سربراہوں سے بار بار ملاا ور ان کے مایہ ناز پراجیکٹ کا چشم دید مشاہدہ کیا۔ میں نے جب شوکت خانم کی فنڈ ریزنگ کے لئے لکھا تو عمران خان سے ملاقاتوں ا ور مکمل روداد سمجھ کے لکھا۔ اب بھی میں کوشش کروں گا کہ جناب عبدالشکور صاحب کے ساتھ کئی نشستیں رکھوں ۔ حالات بہتر ہوتے ہیں تو عبدالشکور صاحب کی گراں قدر خدمات ضرور جاننے کی کوشش کروں گا۔ مجھے یہ بتاتے ہوئے فخر محسوس ہوتا ہے کہ جماعت کے جو لوگ امریکہ میں ہیں انہوں نے اکنا کے پلیٹ فارم سے مسلم غیر مسلم کی تمیز کے بغیر کروڑوں کا فنڈ یا راشن بانٹا ہے۔ ملک کے اندر اور باہر جماعت کی فلاحی سرگرمیوں پر اسے خراج تحسین پیش کرنے کو جی چاہتا ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024